سعودی عرب (محمد ریاض چوہدری) حلقہ فکر و فن ریاض کی جانب سے معروف قلمکار پاکستانی کمیونٹی کی ہردلعزیز شخصیت اور ناظم اعلیٰ حلقہء فکروفن جاوید اختر جاوید کے اعزاز میں الوداعیہ تقریب ریاض کے مقامی ریستوران میں منعقد ہوئی جس میں علم و ادب اور مختلف مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی خواتین و حضرات نے بهرپورشرکت کی. تقریب کی صدارت عزت مآب سفیرِ پاکستان محترم منظور الحق نے کی، مہمانِ خصوصی جدہ سے تشریف لانیوالے پیٹرن انچیف حلقہء فکروفن سابق وفاقی وزیر چوہدری شہباز حسین تهے جبکہ ان کے ہمراہ سٹیج پر مہمان اعزازی جآوید اختر جاوید اور صدر حلقہءفکروفن ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری تهے۔
تقریب کی نظامت کے فرائض بالترتیب وقار نسیم وامق اور ڈاکٹر حناء امبرین طارق نے بہت احسن طریقے سے سرانجام دئیے.تلاوتِ کلامِ پاک سے پروگرام کیابتداء ڈاکٹر محمود احمد باجوہ نے کی اور ترجمہ و تفسیر بھی پیش کی جبکہ ہدیہء نعت رسول کی سعادت عابد شمعون چاند کے حصہ آئی۔ حلقہ فکروفن کے جنرل سیکریٹری وقار نسیم وامق نے حلقہ فکروفن کی ادبی سرگرمیوں اور فکرونظرکی شوخیوں سے بھرپور ادبی کارکردگی پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب فکر کو اڑان ملتی ہے تو فن کو دوام ملتا ہے فکروفن کا یہ حسین امتزاج شاعری کے قالب میں ڈھل کر ذہن ذہن سفر کرتا ہے ۔ انہوں نے
کہا کہ اپنے مشاعروں اور ادبی کارہائے نمایاں کی بدولت حلقہ فکروفن نے سعودی عرب میں ایک خاص مقام حاصل کیا اور اپنی منفرد پہچان بنائی ہے۔
حلقہ فکروفن نے سامعین کے ذوق کی قدر کرتے ہوئے ہمیشہ اپنے پروگراموں کا ادبی معیار قائم رکھا ہے اور تشنگان شعروادب کی سماعتوں کو آسودگی بخشنے کے لیےنامور ادباء اور شعراء کی محفلیں سجائی جاتی رہی ہیں ۔ جس کا کریڈٹ جاوید اختر کو جاتا ہے ۔ نائب صدر ساجدہ چوھدری نے سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے کہا ۔ حلقہ فکروفن کی جانب سے میں تمام معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہتی ہوں یقیناً یہ ہماری عزت افزائی ہے کہ اہل علم وادب اس تقریب کا حصہ ہیں ۔ جن میں عزت معآب سفیر پاکستان جناب منظور الحق اور بیگم نگہت منظور الحق سر فہرست ہیں جن کی موجودگی نہ صرف ایسی تقاریب کو پر وقار بناتی ہیں بلکہ ان کی ادب دوستی آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے
آخر میں انہوں نے جاوید اخترکو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں اور اپنے مزاج ، کردار ، ذوق اور خیال کی بلندی کے باعث ایک منفرد مقام رکھتے ہیں
حلقہ فکروفن کے ناظم الامور ڈاکٹر طارق عزیز نے جاوید اختر کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ۔ وہ اپنے الگ سخن کائنات کے ساتھ ساتھ ایسے نقاد بھی ہیں جس کے ذہن نقاد نے پست و بلند شاہراہ سخن کو ہموار و مصفا کیا ہے ۔ فصاحت اگر لعل ناب ہے تو وہ اس کی آب و تاب ہیں ۔ اور بلاغت اگر گوہر بے بہا تو وہ اس کی آبرو وگوہر افزا ہے ۔ مضی’ اگر کل ہے تو وہ اس کی شمیم روح افزا ہے اور سخن اگر آئینہ ہے تو وہ اس کا صیقل جلوہ نما ہے
اس کا سینہ بے کینہ نقات کلیمہ کا گنجینا
اس کا قلب با صفا اسرار علمیہ کا دفینہ
شعروشاعری کی جس شخص نے رونق بڑھائی
اور شہر ریاض نے جس سے عزت پائی
وہ ہے بھائی صرف جاوید اختر بھائی
حلقہ فکروفن کے صدر ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری نے جاوید اختر جاوید کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ جاوید صاحب اردو اور پنجابی شاعری میں یدِ طولی کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کی کتب حسن اوارگی۔ اور تنقیدات شائع ہو چکی ہیں جبکہ ” آوارہ بادل” “پاگل ہوا اور میں” زیرِ طیع ہے۔ شاعر کی شخصیت اور انفرادیت ہی اس کی ادبی اور شعری تخلیقات کا سر چشمہ ہوتی ہے۔ شاعر کی شخصیت اور انفرادیت اس کے اور نوع انسانی کے درمیان پردہ بن کر حائل رہتی ہے شاعر جب اس پردہ کو چاک کر دیتا ہے تو اس کی شخصیت عام انسان کی شخصیت میں ضم ہو جاتی ہے اور وہ انسانی فطرت کے حقائق کو بے نقاب کردیتاہے اور اسی وقت اسکی شخصیت ارتقاء کی آخری منزل پر پہنچتی ہے۔
جاوید صاحب کے اشعار کا راز بھی یہی ہے کہ ان کی شخصیت عام انسان کی شخصیت میں ضم ہو جاتی ہے اور جب وہ بولتے ہیں تو عام انسان یہ سمجھتا ہے یہ اس کی آواز ہے ۔ ان کی شاعری میں جدت بانکپن اور جدید تشبیہات اور تراکیب نے ان کے طرز سخن کو دائمی تازگی بخشی ۔ ان کی شاعری بولتی ہے اور فکر تراشی کرتی ہے۔ وہ دل سے نکل کر دلوں کو آباد کرتی ہے۔ ان کی ایک نظم آپ کے گوش گذار ہے۔
بڑی معصوم لڑکی تھی
مجھے اکثر وہ کہتی تھی
فلک کے چاند تاروں پر تمھارا نام لکھا ہے
میں یہ بولا ارے پگلی
زمین زادے ہمیشہ ہی زمین سے کام رکھتے ہیں
فلک کے چاند تاروں سے کوئی نسبت نہیں ہوتی
مگر اس کو خبر کیا تھی
زمین و آسماں کے یہ کنارے مل نہیں سکتے
محبت کرنے والوں کے ستارے مل نہیں سکتے
جاوید صاحب کا شمار بطور ناقد اچھے قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ ان کا اندازِ تحریرمنفرد ہے۔ بہت خوبصورت انداز میں بےباک تنقید کرتے ہیں۔ ان کی تحریر میں الفاظ بولتے ہیں جملے دہکتے ہیں تحریر آتش فشاں ۔ فکر روشن اور پختہ ہے۔ خیالات کسی طوفانی بارش کی طرح برستے ہیں۔ اور الفاظ موتی بنتے چلے جاتے ہیں۔ صاحبِ قلم بےباک اور جری نہ ہو تو ایسا لکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ ان کی اردو ادب کی ترقی اور ترویج کے لیے کی گئی کاوشیں قابلِ تعریف ہیں۔ اور جب کبھی سعودی عرب میں اردو ادب کی تاریخ لکھی گئی ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔
سفیر پاکستان جناب منظور الحق نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جاوید اختر کا شمار اچھے قلم کاروں میں ہوتا ہے یہ شاعروں کے چوھدری اور چوھدریوں کے شاعر ہیں ۔ جاوید صاحب ریاض کی ادبی محفلوں کی جان ہیں ۔ ان کے جانے کے بعد ریاض کی دنیائے ادب میں بہت بڑا خلا پیدا ہوگا جس کو پر ہوتے ہوئے ایک زمانہ لگے گا ۔ جاوید اختر جاوید ان خوبصورت شعراء میں سے ہے جس نے دو زبانوں اردو اور پنجابی میں شاعری کی ۔ پنجابی زبان میرے نزدیک بہت ہی میٹھی اور سریلی زبان ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حلقہء فکروفن کی کاوشوں سے بہت اچھا ادب تخلیق ہو رہا ہے ۔ میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت حلقہ فکروفن کے تمام کارکنوں کو رحمتوں اور برکتوں سے نوازے۔ اتنی اچھی تقریب منعقد کرنے پر حلقہء فکروفن کے صدر ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری اور ان کی پوری ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔ مہمان خصوصی چوھدری شہباز حسین نے بھی جاوید اختر جاوید کی کاوشوں کو سراہا اور زبردست خراج تحسین پیش کیا۔
جاوید اختر جاوید کو خراجِ تحسین پیش کرنے والے ریگر مقررین میں ساجدہ چوہدری، ڈاکٹر طارق عزیز، امین تاجر، ارشد شیخ، تسنیم امجد، خالد محمود چوہدری، اختر الاسلام ندوی، عبدالرزاق تبسم، صابر قشنگ، ڈاکٹر ارم قلبانی، شعیب شہزاد، حافظ عبدالوحید شامل تهے. جبکہ حنا امبرین طارق ، عبدالرزاق تبسم صابر قشنگ اور ساجدہ چوھدری نے منظوم خراج عقیدت پیش کی ۔ اس موقع پر جاوید اختر جاوید اور منطقہ شرقیہ میں مقیم بانی حلقہء فکروفن انجم ڈار کو ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں حلقہء فکروفن کی طرف سے سفیر پاکستان جناب منظور الحق نے شیلڈ پیش کی، انجم ڈار کی شیلڈ ان کی غیر موجودگی میں شعیب شہزاد نے وصول کی۔