لاہور(ویب ڈیسک)ہم اندھی نفرت و عقیدت میں منقسم ہوئی قوم ہیں۔ اس تقسیم کی وجہ سے چند بنیادی معاملات کے بارے میں جو ہر حوالے سے ہم سب کے سانجھے مسائل ہیں سوالات اٹھانے کی فکر سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔اسلام آباد کا 1975سے رہائشی ہوتے ہوئے میرے لئے یہ سوال اہم نہیں کہ اس شہر سے معروف صحافی نصرت جاوید اپنے کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اغواء ہونے والے پشاور پولیس کے ایس پی طاہر داوڑ کی ذاتی زندگی کی جزئیات کیا ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی کو سنسناتی حقیقت ہے تو یہ کہ انہیں میرے شہر میں ایک مقام سے اغواء کیا گیا۔ غالباًََ کئی دنوں تک انہیں اس شہر میں رکھنے کے بعد افغانستان منتقل کردیا گیا ۔دوروز قبل سوشل میڈیا پر تصویروں سمیت یہ ’’خبر‘‘ نظر آنا شروع ہوئی کہ انہیں شدید تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ہلاک کردیا گیا ہے۔ ان کی تصاویر کے ہمراہ ہاتھ سے لکھا ہوا ایک بیان تھا۔ اس بیان کے لکھنے والوں کا دعویٰ تھا کہ مذکورہ پولیس افسر ریاستِ پاکستان کی رٹ کو للکارنے والے کئی افراد کو قتل کرنے کے ذمہ دار تھے۔ ان جیسے افراد کے ساتھ مزید ایسے واقعات ہونے کے امکانات کے بارے میں اس بیان میں خبردار بھی کیا گیا۔سوشل میڈیا پر طاہر داوڑ سے متعلق خبر دیکھنے کے بعد مجھ سمیت بہت سارے لوگوں کے ذہنوں میں فوری سوال یہ اٹھا کہ اسلام آباد کو جدید کیمروں کی مدد سے کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد Safe City بنا دینے کے دعوے ہوتے ہیں۔ اس دعوے کی روشنی میں طاہر داوڑ کے اغواء کنندگان کے موبائل فونز کے Dataکا Geofencingکے ذریعے سراغ کیوں نہ لگایا جاسکا۔ یہ بات عیاں ہے کہ اسلام آباد کی حفاظت پر مامور افراد نے بدنصیب طاہر داوڑ کو اس شہر ہی میں بازیاب کرنے کے لئے اپنی توجہ اور میسر وسائل کو بھرپور انداز میں استعمال نہیں کیا۔ حکام کی غفلت فقط ’’مقامی‘‘ نہیں رہی۔ اسلام آباد سے مقتول کو جانے کونسے راستوں سے افغانستان پہنچادیا گیا۔ پاکستان کے دارالحکومت سے کسی شخص کو اغواء کرکے خیبرپختونخواہ کے کسی مقام تک پہنچانا ممکن شاید اب بھی ہے۔ پاک-افغان سرحد پر لیکن کچھ دنوں سے متعارف کروائے بندوبست کے بعد مغوی کو اس کے ملک سے افغانستان منتقل کرنے کے امکانات ناممکن نظر آتے ہیں۔ ایسا ہوا تو ذمہ داراس کی فقط اسلام آباد کی انتظامیہ ہی نہیں بلکہ وسیع تر تناظر میں ہماری ریاست کی اجتماعی کوتاہی بھی ہے۔اس کوتاہی کے عاجزانہ اعتراف کے بجائے حکومت نے لیت ولعل سے کام لیا۔ سوالات اٹھانے والوں کو Fake News پھیلانے کا مرتکب ٹھہرایا۔ ایسے افراد کے خلاف عمران حکومت اب سخت اقدامات اٹھانے کا تہیہ کئے بیٹھی ہے۔ مجھ جیسے بزدلوں کے لئے خاموش رہنے ہی میں عافیت ہے۔میری خاموشی مگر اس شہر کے رہائشیوں کے دلوں میں طاہر داوڑ کے ساتھ ہوئے واقعہ کی وجہ سے جاگزیں ہوئے خوف کا تدارک نہیں۔ ہم میں سے کسی کے ساتھ ذاتی طورپر نہ سہی مگر عزیز و اقارب اور قریبی دوستوں کے ساتھ بھی ایسے ہی واقعات ہو سکتے ہیں۔ عدم تحفظ کا شدید احساس اسلام آباد کے رہائشیوں کی گفتگو میں تواتر سے جھلک رہا ہے۔میڈیا اس فکر کا تذکرہ کرے تو وزرا چراغ پا ہوجاتے ہیں۔ یہ بات یادرکھنا گوارہ نہیں کرتے کہ وزارتِ داخلہ وزیر اعظم نے اپنے پاس رکھی ہوئی ہے۔اس منصب کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی وجہ سے عمران خان صاحب اسلا آباد کے رہائشیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے براہِ راست ذمہ دار بن چکے ہیں۔ہم صحافیوں کا یہ پیشہ وارانہ فرض ہے کہ حکومت سے معلوم کیا جائے کہ طاہر داوڑ کی پراسرار گمشدگی کے بعد وزیر اعظم نے کتنی بارکب اور کس افسر سے رابطہ کیا اور انہیں غائب ہوئے پولیس افسر کا ہر صورت سراغ لگانے کے احکامات دئیے۔وزارتِ داخلہ کے روزمرہ امور شہریار آفریدی سنبھالتے ہیں۔ قانون کے مؤثر نفاذ کی انہیں اتنی لگن ہے کہ راولپنڈی کے تھانوں میں بھی رات گئے پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں حوالات کھلواکر ملزموں سے گفتگو کرتے ہیں اور اس گفتگو کی تشہیر کے ذریعے تاثر یہ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی صورت میں ہمیں ایک ایسا نگہبان مل گیا ہے جو راتوں کو جاگ کر فقط اسلام آباد ہی نہیں جڑواں شہر میں بھی امن وامان سے جڑے مسائل پر کڑی نگاہ رکھتا ہے۔ شہریار آفریدی کی جانب سے دکھائی چستی کے باوجود اعظم سواتی والا واقعہ ہو جاتا ہے۔ سپریم کورٹ اس کانوٹس لینے کو مجبور ہو جاتی ہے اور اب ایک JIT یہ طے کرنے میں مصروف ہے کہ ایک گائے کی وجہ سے اٹھے قضیے کی تفصیلات کیا تھیں۔طاہر داوڑ کی گم شدگی کے بعد ہمیں حکومت کی جانب سے ایسی چوکسی دیکھنے کو نہیں ملی۔ بڑی رعونت سے شہر یار آفریدی بلکہ یہ تاثر پھیلانے میں مصروف رہے کہ طاہر داوڑ کے موبائل فون کا ڈیٹا کچھ اشارے دے رہا ہے جن کا تذکرہ مناسب نہیں۔ واقعہ کی سنگینی کو بھلانے یا نظرانداز کرنے کے لئے داوڑ کے موبائل فون ڈیٹا کا تذکرہ ایک بے رحم چال تھی۔ اس نے مرحوم کے عزیز واقارب کے دلوں میں سو طرح کے شبہات پیدا کئے ہوں گے۔ وزیر داخلہ کی جانب سے یہ شبہات پیدا کرنا زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔بدھ کی سہ پہر بہت منت سماجت کے بعد پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان سینٹ میں بولنے کی اجازت حاصل کرسکیں۔ مائیک ملنے کے بعد انہوں نے یہ بتاکر ہم صحافیوں کو مزید حیران کردیا کہ اس روز سینٹ کی خارجہ امور کے بارے میں بنائی کمیٹی کا اجلاس بھی ہوا تھا۔ وہاں آئے وزارتِ خارجہ کے افسر طاہر داوڑ کی افغانستان میں برآمدگی کے بارے میں بے خبر تھے۔ ہمارے وزیر اطلاعات نے کمال بے اعتنائی سے شیری رحمان کو صبر اور انتظار کرنے کا مشورہ دیا۔ سینٹ سے میرے گھر لوٹنے کے چندہی لمحوں بعد خبر آگئی کہ افغان حکومت نے طاہرداوڑ کی لاش کو بازیاب کروا لیا ہے۔ مقتول کا محکمہ پولیس کی جانب سے جاری ہوا شناختی کارڈ بھی مل چکا ہے۔اس کے بعد مقتول کی تدوفین کے انتظامات شروع ہوگئے۔ اسلام آباد کو ’’سیف‘‘ بنانے کے دعوے کے بارے میں ہمارے خوفزدہ ذہنوں میں جو سوالات اٹھے ہیں انہیں بھلادینا مگر ممکن نہیں۔ ان کے مناسب جوابات میسر نہ ہوئے تو دلوں کی بے چینی کو قرار نصیب نہیں ہوگا۔ شہر یار آفریدی کی آنیاں جانیاں کسی کام نہیں آئیں گی۔