لاہور (ویب ڈیسک) موت کے بارے میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت محمد کا فرمان سننے سے پہلے ارشاد ربانی سنیے، سورة العنکبوت میں فرمایا ہے، کہ ہر تنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے، پھرتم سب ہماری طرف ہی پلٹا کر لائے جاﺅ گے، جولوگ ایمان لائے ہیں اور نیک عمل کیے ہیں، نامور کالم نگار نواز خان میرانی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم جنت کی بلند وبالا عمارتوں میں رکھیں گے، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، کیا ہی عمدہ اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے، ان لوگوں کے لیے جنہوں نے صبر کیا ہے، اور جو اپنے رب پہ بھروسہ کرتے ہیں۔ علماءکرام کی تفسیر کے مطابق مسلمانوں کو جان کی فکر نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ یہ ایک نہ ایک دن جانی ہی جانی ہے، مسئلہ یہ نہیں کہ اس دنیا میں جان کیسے بچائی جائے بلکہ فکر یہ کریں کہ ایمان کیسے بچایا جائے۔ اگر دنیا میں جان بچانے کے لیے ایمان کھوکر رب کے حضور پہنچے، تو اس کا نتیجہ اور ہوگا، اور ایمان بچانے کے لیے جان کھوکر آئے تو اس کا انجام یکسر مختلف ہوگا، اس لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے کہ ہماری طرف جب پلٹو گے، جان پہ ایمان قربان کرکے ایمان لائے، یا ایمان کے لیے جان قربان کرکے آئے۔ بالفرض اگر ایمان اور نیکی کے راستے پر اگر تمام دنیا کی نعمتوں سے محروم بھی رہ گئے یعنی دنیاوی اعتبار سے سراسر ناکام زندگی ہو کر جان دی، تو خدا پہ یقین رکھنا چاہیے کہ بہترین اجر نصیب ہوگا۔ قارئین ، اس وقت مجھے ایک چشم کشا واقعہ یاد آگیا ہے، جو مسلمانوں کی تقویت ایمان کے لیے لکھنا ضروری ہے ہوسکتا ہے ، شاید میں پہلے بھی کبھی لکھ چکا ہوں، بہرحال یہ اس وقت کی بات ہے، جب میں ”دور حکمرانی“ سے نہیں دور طالب علمی سے گزر رہا تھا، بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جو وقت کے ساتھ ساتھ انسان فراموش کردیتا ہے، مگر بعض اوقات کچھ باتیں ذہن میں نقش ہوجاتی ہیں کہ جنہیں بھولنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ایسا ہی واقعہ میرے ذہن میں ابھی تک موجود ہے، جس میں موت وحیات کا فلسفہ آسانی سے سمجھ آجاتا ہے۔ میں اس وقت پڑھ رہا تھا، ویسے تو میں ابھی بھی طالب علم ہوں اور مسلمان مرتے دم تک طالب علم ہی رہتا ہے، میں مکے شریف اپنے خاندان کے ساتھ جب پہنچا، تو عمرے کے بعد میرے بہنوئی مجھے ایک بزرگ سے ملوانے لے گئے، وہاں ان کا قیام ”فندق الامین“ جدہ میں تھا اور اتفاق سے اس دن وہ کسی کام کے سلسلے میں جدے میں آئے ہوئے تھے ”فندق عربی میں“ ہوٹل کو کہتے ہیں۔ جب ہم وہاں پہنچے تو وہ بزرگ عبدالقادرجیلانی چند لوگوں کے ساتھ جن میں دو ان کے بیٹے تھے، انہوں نے بتایا کہ الحمد للہ اس وقت میری عمر ایک سو اکاون سال ہے، اس وقت ماشاءاللہ ان کے دانت ان کی طرح توانا تھے، اور وہ سیب کھارہے تھے۔ ان کے دونوں بیٹوں کی عمر 95سال سے زیادہ تھی، اور ان کے ابو عبدالقادر جیلانی ان کے بیٹے بھی نظر آرہے تھے مجھے پوری طرح تو یاد نہیں، مگر اتنا ضرور حفظ ہے کہ عبدالقادر جیلانی نے بتایا تھا کہ میں مسلسل ایک صدی یعنی ایک سو سال سے کئی سال زیادہ ہوگئے ہیں، ہر سال حج پر باقاعدگی سے جاتا ہوں۔ ان کے مسلسل حج کرنے کی اتنی دھوم مچی کہ بالآخر وہ سعودی حکومت کے فرماں روا شاہ فیصل مرحوم تک پہنچ گئے، اور انہوں نے عبدالقادر جیلانی کو کھانے کی دعوت پر بلوالیا، عبدالقادر مرحوم نے وہاں پہنچ کر انہیں بتایا کہ میں تو اس وقت سے حج ادا کررہا ہوں ابھی شاہ عبدالعزیز یعنی سعودیہ کی حکومت بھی نہیں آئی تھی بادشاہ فیصل شہید مرحوم نے یہ سن کر انہیں یہ پیشکش کی کہ آپ ہر سال ہمارے مہمان ہیں، اور آئندہ آپ سرکاری پروٹوکول کے ساتھ حج ادا کریں گے۔ اس پیشکش پر عبدالقادر جیلانی مرحوم نے پرزور انداز سے شکریہ ادا کرنے کے بعد معذرت کرلی اور فقیرانہ انداز میں معمول کے حج کو فوقیت دی …. اور وہ کہا کرتے تھے کہ جس سال میں حج ادا نہیں کروں گا، میری اسی سال موت واقع ہوگی …. اور واقعی ایسے ہی ہوا، جیسی پشین گوئی انہوں نے خود کی تھی، قارئین کرام تاریخ گواہ ہے کہ آج کے دور میں بھی ایسے باعمل انسان موجود تھے اور ہیں جو اپنی وفات کی تاریخ، اور وقت تک بھی بتا دیتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کے کسی نہ کسی عمل پہ خوش ہوکر انہیں اجر عطا فرماتا ہے ۔ میرے والد محترم بظاہر دنیا دار بندے تھے، مگر مجھے یہ بالکل یاد ہے کہ وہ نماز جمعہ کی ادائیگی ہمیشہ اہتمام سے، سفید کپڑے پہن کر کرتے، جمعے والے دن وہ سفر بھی نہیں کرتے تھے، ان کی زندگی میں کبھی نماز جمعہ قضا نہیں ہوئی تھی، بوقت وفات میں دوسرے شہر میں تھا، میں نے ایک دفعہ اپنی چھوٹی بہن کو فون کرکے پوچھا کہ وفات کے وقت کوئی ان کے پاس تھا میری بہن نے بتایا کہ میں اور امی ہم دونوں ساتھ تھے، صبح اذان فجر کے بعد انہوں نے بڑے زور سے کسی کو السلام علیکم کہا، اور پھر اونچی آواز سے کلمہ طیبہ پڑھا اور کہا اچھا خداحافظ یہ مجھے لینے آئے ہیں۔اس حوالے سے قارئین کرام ایک حدیث نبوی پڑھ کر ایمان کو مضبوط کریں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا، کہ ایک دفعہ میں دربار رسالت مآب میں حاضر ہوا تو میں دسواں آدمی تھا، ایک آدمی نے عرض کی، کہ اے اللہ کے رسول لوگوں میں سب سے زیادہ عقل مند اور محتاط کون ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا، جو سب سے زیادہ موت کو یاد کرتا ہے، اور موت کی تیاری کرتا ہے۔ انہیں کو ہم زیادہ عقل مند کہہ سکتے ہیں کہ جو دنیا کی شرافت، اور آخرت کی عظمت لے جاتے ہیں ۔ آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں ۔۔ سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں ۔۔ قارئین ، یہ شعر آپ بسوں، ویگنوں میں تو لکھا دیکھتے ہیں اب دل پہ لکھ لیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے غضب پہ اس کی رحمت زیادہ ہوتی ہے۔