counter easy hit

توفیق بٹ کی ایک دلچسپ اور سبق آموز تحریر

Writing an exciting and tutorial of Tufiq Butt

لاہور(ویب ڈیسک ) پچھلے دنوں ماں کا عالمی دن تھا ، میں اُس روزایک ذاتی مصروفیت کی وجہ سے اخبارات وغیرہ نہیں پڑھ سکا ۔ ٹی وی اور سوشل میڈیا بھی نہیں دیکھ سکا، اُس سے اگلے روز میں نے فیس بک چیک کیا تو میرے تقریباً تمام دوستوں نے اپنی اپنی ”امیوں“ نامور کالم نگار توفیق بٹ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کے ساتھ مختلف انداز میں بلکہ کچھ اس انداز میں اپنی تصویریں لگائی ہوئی تھیں یوں محسوس ہورہا تھا اپنی اپنی امیوں کے ساتھ یہ تصویریں وہ اگر اپنی فیس بک وال پر نہ لگاتے تو لوگ ان کے حوالے سے کچھ غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے، مثلاً یہ کہ فلاں دوست نے اگر ماں کے عالمی دن پر اظہار یک جہتی کے لیے اپنی فیس بک وال پر اپنی امی کے ساتھ اپنی کوئی تصویر نہ لگائی تو لوگ یہ نہ سمجھ لیں یہ شخص شاید ماں کے بغیر پیدا ہوا ہے یا کہیں یہ نہ سمجھ لیں یہ ماں کو اہمیت نہیں دیتا یا اسے ماں کے رشتے کی کوئی قدر ہی نہیں ہے، مجھے اپنے تقریباً ہردوست کی فیس بک وال پر اس کی امی کے ساتھ اس کی تصویر دیکھ کر خود پر بڑا غصہ آیا ، میں نے سوچا کاش کل میں بھی اپنی ضروری مصروفیات سے تھوڑا وقت نکال کر سوشل میڈیا چیک کرلیتا، جس سے مجھے پتہ چل جاتا آج ماں کا عالمی دن ہے اور باقی سارا سال ہم ماں کو چاہے یاد کریں نہ کریں، اس رشتہ کو کوئی اہمیت دیں نہ دیں، مگر آج اگر ماں کے عالمی دن پر ماں کے ساتھ اپنی کوئی تصویر ہم نہیں لگائیں گے تو ہم نے زندگی میں جتنی بھی نیکیاں کی ہیں سب ضائع ہو جائیں گی، مجھے بڑا افسوس ہورہا تھا کہ میں نے اتنا اہم دن ضائع کیوں کردیا ؟ میں بھی امی جان مرحومہ کے ساتھ اپنی کوئی اچھی سی تصویر جس میں، میں ان کا منہ چوم رہا ہوتا، یا ان کے پاﺅں اور کاندھے وغیرہ دبارہا ہوتا ،ڈھونڈ کر اپنی فیس بک وال پر لگا لیتا تو اس سے ایک تو میں دنیا کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو جاتا کہ مجھے اپنی ماں سے بڑی محبت تھی، دوسرے یہ کہ میرے اس عمل سے ممکن ہے میرے وہ سارے گناہ معاف ہو جاتے جو امی جان کی زندگی میں مختلف حوالوں سے انہیں تنگ کرکے مجھ سے سرزد ہوتے رہے، اور اس وجہ سے میں اس یقین میں مبتلا ہوں کہ میری بخشش ہی نہیں ہونی۔ سو مجھے یہ لگ رہا تھا ماں کے عالمی دن پر اپنی فیس بک وال پر ماں کے ساتھ اپنی کوئی تصویر وغیر ہ نہ لگاکر میں نے اپنی بخشش کا بہت بڑا موقع ضائع کردیا ہے اور ممکن ہے مرحومہ امی جان نے بھی اس بات کا برامنایا ہو کہ ایک تو یہ میری زندگی میں مجھے ستاتا رہا، میری حکم عدولی کرتا رہا، میں چاہتی تھی یہ مجھے وقت دے مگر یہ مجھ سے دور دور بھاگتا تھا۔ مجھ سے زیادہ اپنی بیوی کو وقت دیتا تھا بلکہ کبھی کبھی تو مجھےباقاعدہ یہ احساس دلاتا تھا کہ بیوی کی خدمت ماں کی خدمت سے زیادہ افضل ہوتی ہے، چنانچہ ایک تو یہ دنیا میں میری خدمت نہیں کرسکا، اب جبکہ میں دنیا میں نہیں اس کوماں کے عالمی دن پر بھی یہ مجھے بھول گیا اور میری کوئی اچھی سی تصویر ڈھونڈ کر اپنی فیس بک وال پر اس نے نہیں لگائی، لہٰذا اب روز قیامت جب اسے میرے نام سے پکارا یا اٹھایا جائے گا تو میں اسے اپنا بیٹا محض اس لیے تسلیم کرنے سے انکار کردوں گی کہ ماں کے عالمی دن پر اس نے اپنی فیس بک وال پر میری کوئی اچھی سی تصویر کیوں نہیں لگائی تھی۔ میں تو خیرچلیں اس وجہ سے پریشان ہوں میں کوئی تصویر نہیں لگا سکا میرا ایک دوست تصویر لگاکر بھی اس لیے پریشان ہے کہ اس کی بہن نے اسے بتایا کل امی کے عالمی دن پر اپنی فیس بک وال پر تم نے امی کی جو تصویر لگائی ہے وہ امی کو ذرا پسند نہیں تھی، تمہیں چاہیے تھا امی کی سبز ساڑھی والی تصویر لگاتے جو امی کو بڑی پسند تھی“ ….کچھ لوگ تو بہت ہی بدقسمت اور بدبخت ہوتے ہیں، ہمارا ایک دوست اپنی ماں کی زندگی میں ماں سے زیدہ بیوی کی خدمت کرتا رہا، بلکہ ماں کو اس بات کا باقاعدہ احساس دلادلا کر کرتا رہا کہ رشتے کے اعتبار سے بیوی کا رُتبہ ماں سے بلند ہوتا ہے، اس میں کچھ غلطیاں اس کی ماں کی بھی تھیں، وہ بھی بات بات پر اُسے رن مریدی کے طعنے دیتی تھیں جس سے وہ مزید چِڑکر بیوی کی خدمت میں مزید اضافہ کردیا کرتا تھا۔ چنانچہ اِس بار اُس نے اپنی مرحومہ امی جان کی روح کو چڑانے کے لیے ماں کے عالمی دن پر اپنی فیس بک وال پر اپنی ماں کے بجائے اپنی بیوی کی تصویر لگاکر نیچے لکھ دیا ”ماں تجھے سلام“ ….ممکن ہے اِس طرح اُس نے اپنی ماں اور بیوی دونوں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہو کہ تصویر بیوی کی لگادی، سلام ماں کو کہہ دیا، یا پھر ممکن ہے اُس کی شادی کو کافی سال بیت گئے ہوں جس کے بعد اکثر اوقات انسان کی Feeling ایسی ہی ہوجاتی ہے کہ اسے اپنی بیوی بھی ماں لگنے لگتی ہے، بلکہ بعض بیویاں تو اپنے اپنے خاوندوں کو باقاعدہ طورپر یہ احساس دلانے کی کوشش بھی کرتی ہیں کہ وہ انہیں ان کی ماں سے زیادہ چاہتی ہیں، ہمارے ایک دوست کی بیگم تو اس معاملے میں حد ہی مکا دیتی ہیں، ہمارا یہ دوست صبح جب دفتر جانے لگتا ہے تو اُن کی بیگم کچھ اور چُومنے کے بجائے پہلے اُن کا ماتھا چُومتی ہیں، پھر اُن کے سر پر ہاتھ پھیر کر اپنی طرف سے اُنہیں یہ احساس دلانے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں کہ اُنہیں کسی بھی حوالے سے اپنی مرحومہ امی جان کی کمی محسوس نہ ہو، حالانکہ اس چکر میں بعض اوقات ہمارے اس دوست کو اپنی بیوی کی کمی محسوس ہونے لگتی ہے، …. بہرحال اس بار تو ماں کا عالمی دن گزر گیا ہے، میں سوچ رہا ہوں اللہ مجھے زندگی تندرستی عطا فرمائے اگلے سال ان شاءاللہ ماں کے عالمی دن پر میں ایک کے بجائے امی جان کی دوتصویریں لگادوں گا، تاکہ اِس برس ماں کے عالمی دِن پر اُن کی تصویر اپنی فیس بک وال پر نہ لگاکر جو گناہ عظیم مجھ سے سرزد ہوا ہے اُس کی کچھ قضایا ازالہ ہوسکے۔ یا اس سے میری شرمندگی کچھ کم ہوسکے۔ اس کے علاوہ میں نے اس ازالے کا ایک اور حل یہ ڈھونڈا ہے میں کل قبرستان جاﺅں گا اور امی جان کی قبر ڈھونڈنے کی پوری کوشش کروں گا، کیونکہ کافی برس بیت گئے میں ان کی قبر پر نہیں گیا، اب پتہ نہیں جہاں ہم نے اُنہیں دفنایا تھا وہاں اُن کی قبر موجود بھی ہے یا نہیں ؟ یہ تو وہاں جاکر ہی پتہ چلے گا۔ اگر ان کی قبر مجھے مِل گئی میں چند لمحے وہاں گزاروں گا۔ دوچار اگر بتیاں بھی روشن کروں گا، دس پندرہ روپے اگرچہ مہنگائی کے اس دور میں نکالنا یا خرچ کرنا بڑا مشکل ہے، بہرحال میں کوشش کروں گا دس پندرہ روپے کی گلاب کی پتیاں بھی ساتھ لے جاﺅں۔ وہاں جاکر سب سے پہلے یہ دعا مانگوں گا کہ ”اللہ میرے رزق حلال و حرام میں برکت عطا فرمادے“ اور سب سے آخر میں یہ دعا مانگوں گا ”اللہ میری ماں کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے اِک باغ بنادے“۔ اور ہاں یاد آیا سب سے اہم معافی تو میں نے خود مرحومہ اماں جان سے مانگنی ہے کہ اس بار ماں کے عالمی دن پر میں اپنی فیس بک وال پر اُن کی تصویر نہیں لگا سکا !!

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website