counter easy hit

نوشتہ ٔ دیوار، کالم نگار کی نامناسب تجویز

ڈاکٹر مجاہد منصوری

پاناما لیکس کے سپریم کورٹ میں زیر سماعت آنے کے باوجود ملک کے انتہائی پیچیدہ حالات حاضرہ کے حوالے سے جو بہت کچھ نوشتہ ٔ دیوار پر لکھا ہے، ممتاز تجزیہ نگار ایاز امیرنے حالات کی گمبھیر کیفیت سے نکلنے کے لئے اپنی آراء اور حل کے طور پر جو کچھ 2نومبر کو جنگ کے ادارتی صفحے پر اپنے کالم بعنوان ’’کیا ہم نوشتہ ٔ دیوار نہیں پڑھ سکتے؟‘‘ میں اظہار کیا ہے، اس کے بیشتر حصے سے جنگ ایڈیٹوریل کمیٹی نے اختلاف کرتے ہوئے اس سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اختلاف کرنے والے رائے سازوں کو اظہار خیال کی دعوت دی ہے۔ ان کے اس متنازع کالم پر جنگ کی ادارتی کمیٹی کا نوٹ اس لیے اہم ہے کہ کالم میں پیش کی گئی تجاویز کے مقابل اور مخالف آراء کا آنا بے حد ضروری ہے، وگرنہ الخاموشی نیم رضا کی مانند یہ ہی سمجھا جائے گا کہ انہوں نے جو اظہار خیال کیا ہے اس سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں جبکہ ان کی پیش کی گئی ایک تجویز تو ان کے اصلاح احوال کے تمام تر اخلاص کے باوجود باعث تشویش ہی نہیں، آزمودہ ہے جو عمل میں آکر عدم استحکام کا باعث بنتی رہی۔
آج کا ’’آئین نو‘‘ محترم کالم نگار کی اسی متنازع تحریر کے حوالے سے ہے۔ جاری ملکی صورتحال پر ان کے ٰتبصرے و تجزیے سے کلی اختلاف تو نہیں کیا جاسکتا، خاکسار کئی نکات سے اتفاق میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا، لیکن حل کے طور پر ان کی پیش کی گئی تجویز سے اختلاف کرتا ہے پھر ان کی کچھ اور متنازع آرا اتفاقی نکات پر حاوی ہیں جو باعث اختلاف ہے، اس کا اظہار اور دوسرے نقطہ نظر کا آنا بھی بہت ضروری ہے کہ ایک غلط اور نقصان دہ تجویز پرموٹ نہ ہونے پائے کہ جناب کالم نگار کا شمار ان رائے سازوں میں ہوتا ہے جن کے امپیکٹ فیکٹر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تاہم اختلاف کا وزن بھی تب ہی ہوگا جب کہ ان کی کل تحریر کے اختلافی اور اتفاقی پہلوئوں کو واضح کیا جائے۔
محترم کالم نگار کی اس رائے سے مکمل اتفاق ہے کہ پاکستان کی موجود گمبھیر صورتحال، ملکی تاریخ میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے رنگ رنگ کے بحرانوں کے مقابل کہیں زیادہ غیر معمولی ہے جس میں وزیراعظم نوازشریف، عمران خان اور جنرل راحیل کا انفرادی مقدر ثانوی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ خاکسار یہ ہی سمجھتا ہے کہ معاملہ اب نہ شخصیات کا ہے نہ پارٹیوں اور ایک حکومت کے خاتمے اور نئی حکومت کو لانے کا۔ بلاشبہ ہر بڑی برائی کی طاقت کی طرح ملک پر مسلط اسٹیٹس کو کی اپنی طاقت ہے لیکن یہ اب ثابت شدہ ہے کہ عوام اسے توڑنے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور انہیں میڈیا کی نتیجہ خیز معاونت حاصل ہے۔ موجودہ تشویشناک صورتحال کو مکمل سنبھالنے کے لئے آئین 1973ء موجود ہے، جس کے اہم ترین حصوں کو موجودہ حکمرانوں نے آئین کی مکمل بحالی (اٹھارویں ترمیم کے ذریعے) کے باوجود، بدستور معطل رکھا ہوا ہے۔ جس سے شدید مایوس ہو کر جناب موصوف کو آزمودہ لیکن متروک آرٹیکل اٹھاون 2-B پھریاد آئی ہے حالانکہ انہوں نے خود ہی اسے بدنام زمانہ بھی لکھا ہے۔ جب کوئی آزمودہ حل بدنام زمانہ ہو جائے تو اسے حل کے طور کیسے پیش کیا جاسکتا ہے؟ جیسا کہ موصوف نے موجود بحران کی وجہ متحارب فریقین کے درمیان باہمی نکتے کی غیر موجودگی کو بتاتے ہوئے متروک آرٹیکل اٹھاون 2-Bپر یہ مثبت رائے دیتے ہوئے یاد دلایا ہے کہ ’’ایسی بحرانی کیفیت میں اس (متروک آرٹیکل) کی موجودگی میں ایک راستہ تو کھلا ہوتا تھا۔‘‘ کالم نگار نے جس بدنام زمانہ حل کی یاد دلائی ہے، اس متنازع آرٹیکل کا استعمال کر کے صدر مملکت اسمبلی توڑتے تھے اور ایک لمحے میں حکومت اور پارلیمنٹ کا صفایا ہو جاتا تھا، لیکن بے بہا اس اختیار کے جتنے استعمال ہوئے، ان کے منطقی نتائج کو جناب صاحب بھول گئے کہ انہوں نے قوم و ملک کو کیا دیا؟ جب وہ یہ سوال اٹھاتے ہوئے کہ اس وقت نوشتہ ٔ دیوار کیا ہے؟ جواب دیتے ہیں ’’پارلیمانی نظام ہمیں راس نہیں‘‘۔ لگتا ہے وہ صدارتی اور پارلیمانی نظام کے ادغام سے کسی نئے آئین کا خاکہ ذہن میں لیے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے لکھا ’’پارلیمانی نظام ہمیں راس نہیں، مارشل لا ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہوئے، ہمیں ان کے ادغام کی ضرورت ہے۔ ایک طاقتور اور فعال صدر، جس کے پاس اٹھاون 2-Bکی طاقت ہو، اور اسے براہ راست ووٹنگ کے ذریعے منتخب کیا گیا ہو۔ اس کے پاس سروس چیفس کو نامزد کرنے کے اختیارات ہوں۔‘‘
جناب آدھے تیتر آدھے بٹیر سے ملا کر جو ہما تشکیل دینا تجویز کررہے ہیں، بھول رہے ہیں کہ اس ہما کا خاصہ اس متروک آئینی ترمیم کو بنانا چاہتے ہیں جسے خود ہی انہوں نے ’’بدنام زمانہ‘‘ تحریر کیا ہے۔ پھر صدر کے براہ راست منتخب ہونے کے بعد وزیراعظم اور پارلیمان کی حیثیت صدر کے مقابل کیا رہ جائے گی؟ گویا صدارتی نظام ہی تجویز کررہے ہیں جس کی تجویز کو انہوں نے نئی پیچیدگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہ پیچیدہ تو ہوگا، اس سے بڑھ کر ایک خطرناک مہم جوئی ہوگی۔ حضور! آپ کا کیا خیال ہے جن چھوٹےصوبوں نے 1973ء کا پارلیمانی آئین قبول کر کے اس پر دستخط کر کے اسے متفقہ بنایا تھا، وہ صدارتی یا کسی ادغام کے ساتھ اس سے ملتے جلتے نظام کوقبول کر لیں گے؟ فقیر کی رائے میں یہ مہم جوئی خطرناک ہوگی۔ نہ بھولا جائے کہ پاکستان آئین سازی اور متفقہ آئین کی عدم موجودگی میں دولخت ہوا۔ ایک مرتبہ آئین کا مکمل ’’نفاذ‘‘ جس سے کوئی موجودہ سیاسی قوت انکار و اختلاف کی متحمل نہیں ہوسکتی، کر کے تو دیکھئے۔ پھر دیکھئے گا اسٹیٹس کو خود بخود ٹوٹے گا۔کرپشن مافیا سیاسی منظر سے غائب ہو جائے گا۔ عوام امور مملکت میں حقیقتاًشریک ہو جائیں گے۔ پاکستان میں مطلوب جمہوریت آجائے گی اور ملک اسلامی فلاحی اور جدید مملکت بن جائے گا۔ ہاں حالات نے جو سبق سکھائے ہیں۔ دلائل سامنے لا کر کرتے ہوئے کوئی ایسی ترمیم سامنے لائی جاسکتی ہے کہ جس میں صدر مملکت اور وزیراعظم کے اختیارات میں ایک ایسا توازن ہو جس میں پارلیمانی کی سپرمیسی قائم رہے، قومی مباحثے کے لئے سامنے لائی جاسکتی ہے۔ ایسے کہ شدید بحرانی کیفیت میں صدر مملکت کوئی نہ کوئی کردار ادا کر کے بحران حل میں معاون ہو۔ پھر واضح کرتا ہوں کہ پاکستان میں بھٹو دور سمیت ایک سول اور منتخب دور میں ’’آئین مکمل نافذ نہیں ہوا‘‘ ہمارے 1973 کے تمام تر بحران اسی بڑی قباحت سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہی آج کا قومی المیہ ہے۔ قوم حکومت عدلیہ میڈیا کو اس طرف لائیں کہ سب مل کر اپنی تمام تر کوششیں اور تائید و حمایت ’’آئین کے مکمل نفاذ‘‘ کے لئے کریں۔ اس آئین کے لئے جو اٹھارویں ترمیم کے بعد نظری اعتبار سے تو پھر بحال ہوگیا لیکن عملاً آج بھی کتنا ہی مفلوج ہے۔

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website