لاہور (ویب ڈیسک) مریم نواز نے کل نون لیگ کی قیادت کے ساتھ مل کر ایک ویڈیو ریلیز کی اور الزام لگایا کہ یہ احتساب عدالت نمبر دو کے جج عالی مقام ارشد ملک صاحب کی ویڈیو ہے۔ اس ویڈیو میں جج صاحب سے یہ باتیں منسوب کی گئی ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کوئی نامور کالم نگار عدنان خان کاکڑ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔پیسہ یا کک بیک لینے کا ثبوت نہیں ملا، نہ کوئی الزام ہے نہ شہادت۔ حسین نواز نان ریزیڈنٹ پاکستانی ہے۔ کوئی ثبوت نہیں کہ ایک پیسہ بھی پاکستان سے لے جایا گیا ہو۔ کسی دو چار منٹ کی ویڈیو کا ذکر ہے اور جینے میں دشواری اور خودکشی وغیرہ کا۔ کچھ وائلن کی ٹیوننگ کر کے اپنی مرضی کی آوازیں نکالنے کی تراکیب بیان کی گئی ہیں۔ قوم پریشان ہوئی پھر رہی تھی کہ شکر ہے اتوار کے دن عالی مقام جج ارشد ملک صاحب نے احتساب عدالت نمبر دو میں جا کر میڈیا کو پریس ریلیز جاری کر دی اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرتے ہوئے مریم نواز کے دعووں کی قلعی کھول دی۔ جج صاحب نے پریس ریلیز میں بتایا کہ وہ ناصر بٹ سے بے شمار مرتبہ مل چکے ہیں اور اس سے پرانی شناسائی ہے۔ ۔ ۔ ”مریم صفدر صاحبہ کی پریس کانفرنس میں دکھائی جانے والی ویڈیوز نہ صرف حقائق کے برعکس ہیں بلکہ ان میں مختلف مواقع اور موضوعات پر کی جانے والی گفتگو کو توڑ مروڑ کر سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ ۔ ۔ نواز شریف صاحب اور ان کے خاندان کے خلاف مقدمات کی سماعت کے دوران مجھے ان کے نمائندوں کی طرف سے بارہا نہ صرف رشوت کی پیش کش کی گئی بلکہ تعاون نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں جن کو میں نے سختی سے رد کرتے ہوئے حق پر قائم رہنے کا عزم کیا اور اپنے جان و مال کو اللہ کے سپرد کر دیا۔ ۔ ۔ اس (پریس کانفرنس) میں دکھائی گئی ویڈیوز جھوٹی، جعلی اور مفروضی ہیں۔ لہذا اس میں ملوث افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جانی چاہیے۔ “ اب ظاہر ہے کہ ہم ہمیشہ قانون کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس لئے ہمیں مریم نواز کے مقابلے میں عالی مقام جج صاحب کے بیان پر سو فیصد یقین ہے کہ یہ ویڈیوز جعلی، جھوٹی اور مفروضی ہیں۔ سب سے پہلے تو ہم ناصر بٹ صاحب کی شدید مذمت کرتے ہیں کہ انہوں نے اتنی پرانی شناسائی کا کوئی دید لحاظ نہیں کیا اور یہ ویڈیو ریلیز کر دی۔ اس کے بعد ہم نواز شریف صاحب کی مزید مذمت کرتے ہیں کہ ان کا خاندان مقدمے کی سماعت کے دوران مسلسل جج صاحب کو خریدنے کی کوشش کرتا رہا اور دھمکیاں بھی دیتا رہا۔ یہ جج صاحب کی عالی ظرفی ہے کہ وہ نہ تو اس تحریص اور دباؤ کو خاطر میں لائے اور نہ ہی کسی دوسرے کو اس معاملے کی کانوں کان خبر ہونے دی۔ حالانکہ اس وقت نہ صرف سپریم کورٹ کے ایک معزز جج صاحب اس مقدمے کی براہ راست مانیٹرنگ کر رہے تھے بلکہ عزت مآب چیف جسٹس ثاقب نثار خود اس کیس میں بے پناہ دلچسپی لے رہے تھے۔ اگر عالی مقام ارشد ملک صاحب اس وقت ایک ہلکا سا اشارہ ہی کر دیتے کہ ان پر کیا گزر رہی ہے تو چیف جسٹس ثاقب نثار کے ہاتھوں شریف خاندان کا برا حال ہو جاتا اور وہ عبرت کی مثال بن جاتا۔ مگر جج صاحب نے بے مثال بہادری سے کام لیتے ہوئے اپنے جان و مال کو اللہ کے سپرد کر دیا اور نواز شریف کو سزا سنا دی۔ بہرحال شکر ہے کہ جج صاحب نے اپنا نام کلئیر کر دیا ورنہ نون لیگ والے کہتے کہ جس طرح جسٹس قیوم کی ریکارڈنگ منظر عام پر آنے کے بعد بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کو سنائی گئی سزا کالعدم قرار دے کر سپریم کورٹ نے مقدمے کی ازسر نو سماعت کا حکم دیا تھا، اسی طرح نواز شریف کی سزا کو بھی کالعدم قرار دیا جائے۔ عالی مقام جج صاحب کی دریا دلی دیکھیں کہ خود مدعی ہونے، منصب قضا پر فائز ہونے اور اختیار رکھنے کے باوجود یہ کہہ رہے ہیں کہ اس ”جھوٹی، جعلی اور مفروضی“ ویڈیو کے بنانے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ یعنی وہ خود یہ کارروائی نہیں کریں گے، کسی دوسرے کا جی چاہتا ہے تو کر دے۔ ایسے صوفی منش انسان اب نایاب ہیں۔ جج صاحب نے یہ تو بتایا ہی ہے کہ ”ویڈیوز جھوٹی، جعلی اور مفروضی ہیں“ مگر یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ ”ان میں مختلف مواقع اور موضوعات پر کی جانے والی گفتگو کو توڑ مروڑ کر سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے“۔ ایک شریف آدمی کو ستانے کے لئے لوگ کیا کیا نہیں کر گزرتے۔ اب ان ناصر بٹ صاحب نے نہ جانے کتنے مختلف مواقع پر یہ ویڈیوز بنائی ہوں گی۔ احتساب عدالت نمبر دو کے جج صاحب سے پہلے نمبر ون ہیروئن میرا سے بھی ایک قدرتی حالت کے نہایت قریب ویڈیو منسوب کر کے انہیں بدنام کیا گیا تھا۔ شکر ہے کہ نمبر ون نے اس کی تردید کر دی اور اپنی عزت بچا لی۔ سہیل وڑائچ صاحب نے جب نمبر ون میرا جی سے پوچھا کہ ”کہ آپ کے سکینڈل آ گئے، ویڈیو لیکس ہو گئیں، اور آپ کہتی ہیں کہ یہ سچ ہی نہیں ہے؟ جب آپ سامنے نظر آ رہی ہیں تو پھر کیسے اس کو جھٹلاتی ہیں؟ “ اس پر میرا جی نے جھوٹ کی ساری قلعی کھول دی۔ انہوں نے بتایا کہ ”وہ بالکل سکینڈل غلط ہے، وہ ایک جعلی سکینڈل ہے، وہ صرف ایک ماسک ویڈیو ہے۔ وہ ماسک ویڈیو ہے یا ہمیں کمپیوٹر کے اوپر ٹیکنیکل طریقے سے اس پر ہمارے چہرے بنا کر ویڈیو پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ “ نمبر ون میرا جی درست کہتی ہیں۔ آج کل ایسی کمپیوٹر تکنیکس آ گئی ہیں کہ کسی انسان کا چہرہ کسی دوسرے پر چسپاں کر کے کوئی ویڈیو بھی بنائی جا سکتی ہے۔ اس لئے ہمیں یقین ہے کہ ان کی ویڈیو جعلی ہے۔ دوسری طرف ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ عالی مقام جج صاحب کی ویڈیو بھی اتنی ہی ”جھوٹی، جعلی اور مفروضی ویڈیو“ ہے جتنی میرا جی کی۔ وہ کسی نے بنا کر مریم نواز کو دی اور انہوں نے ریلیز کر دی۔ اس ویڈیو کا فارینسک ٹیسٹ کروا کر جج صاحب کے نام پر لگایا جانے والا داغ ناقابل تردید طور پر صاف کیا جانا چاہیے۔