لاہور (ویب ڈیسک) سپر سٹار نصیرالدین شاہ نے بڑے دکھ سے کہا تھا کہ ہم اسی ملک میں پیدا ہوئے‘ پلے بڑھے اور اس عمر کو پہنچ گئے مگر گائے کے ذبح کئے جانے پر خون خرابے کی یہ داستانیں پہلے تو کبھی نہ سنی تھیں۔ دہائی خدا کی ذبحہ کو اس قدر گھمبیر بنا دیا گیا ہے کہ نامور مضمون نگار ریاض احمد سید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس جرم میں ایک باوردی مسلمان پولیس افسر کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ مسلمان صدیوں سے اس ملک میں رہ رہے ہیں مگر اپنی حب الوطنی ظاہر کرنے کیلئے انہیں سو سو پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا کہ وہ کچھ بھی کر لیں‘ ان کی حب الوطنی پھر بھی مشکوک رہتی ہے۔ ہندوستان بھر میں جہاں بھی کوئی مسئلہ ہوتا ہے‘ ہر پھرا کر مسلمانوں کی دہلیز پر رکھ دیا جاتا ہے۔ آخر وہ ایسا کیا کریں کہ سرکار اور ہندوستانی انہیں اپنا تسلیم کر لیں۔ شاہ نے مزید کہا کہ ہم نے ہندوستان کو وطن کے طورپر اپنی مرضی سے چنا تھا ورنہ ہمارے پاس آپشنز اور بھی تھے۔ مگر ہماری خدمات کا صلہ دینے کی بجائے ہماری ہی زمین کو ہمارے اوپر تنگ کردیا گیا۔ اس بدلتے ہوئے منظرنامہ میں ہم پریشان ہیں کہ ہمارے بچوں کا کیا بنے گا؟ ان کا یہاں کیا مستقبل ہے؟ جہاں جانوروں کے تو نخرے اٹھائے جاتے اور ان کی پرستش ہوتی ہے جبکہ مسلمانوں کو معمولی سی بات پر خون میں نہلا دیا جاتا ہے۔ گائے کے گوشت کے ساتھ نہ جانے کیا مسئلہ ہے۔ ایکسپورٹ تو فخر سے کرتے ہیں‘ مگر کسی مسلمان سے برآمد ہو جائے تو بے چارہ جان سے جاتا ہے۔ دراصل ہندو اکثریت کے نزدیک مسلمان جنم جنم کا دوشی ہے اور ناکردہ گناہ بھی اس کے سر منڈھ دیئے جاتے ہیں اور کچھ نہ ملے تو یہ ’’جرم‘‘ ہی کم نہیں کہ تم گائو ماتا کی ہتیا کرتے ہو اور اس کا گوشت کھاتے ہو۔ اتر پردیش کا ایک نہایت فرض شناس اور مرنجان مرنج مسلمان پولیس انسپکٹر مقامی حکومت اور ہندو جاتی کیلئے ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ وہ بھی محض اس لئے کہ مسلمانوں کا ہمدرد اور مربی تھا اور ان پر ظلم و زیادتی کے کیسز میں ان کی ہرممکن قانونی مدد کرتا تھا۔ جو ہندو غنڈوں کے نزدیک ناقابل معافی جرم تھا۔ چنانچہ اس پر گائے ذبح کرنے کا الزام لگا اور چرچا کیاگیا کہ اس نے یہ سب ہندوئوں کو چڑانے کیلئے وردی کے زعم میں کیا ہے۔ پھر ایک صبح مشتعل ہجوم نے اس پر دھاوابول دیا حتیٰ کہ کوئی بھی ہڈی پسلی سلامت نہ رہی اور پھر اسے اس کے سرکاری پستول سے قتل کر دیا۔ ڈیوٹی پر جاتے ہوئے ایک پولیس آفیسر کا قتل کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ مگر اسے انتہائی غیر ذمہ دارانہ انداز میں ہینڈل کیاگیا ہے۔ پہلے تو یہ کہا گیا کہ گائو ہتیا کے مقابلے میں ایک مسلمان پولیس والے کا قتل کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ ہماراخون تو اب بھی ٹھنڈا نہیں ہوا۔ تفتیش شروع ہوئی تو بی جے پی کے چیف منسٹر نے غلط بیانی کی کہ انسپکٹر صاحب قتل نہیں ہوئے بلکہ ایک حادثے کا شکار ہوئے ہیں۔ جب بات نہ بن پائی تو دعویٰ کیا گیا کہ دشمن دار آدمی تھا۔ مخالفوں نے سازش کرکے مروا دیا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کی بدحالی اورمصائب پر زبان کھولنے کے جرم میں UP سرکار ار BJP کے غنڈے نصیرالدین شاہ کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ جواب طلبی ہوئی کہ تم نے یہ مدعا کیوںاٹھایا؟ تمہاری اس انسپکٹر سے کیا رشتہ داری تھی؟ پھر انہیںغدار کہا گیا، دہشت گردی کا الزام لگایا اور یہ چتائونی بھی دی گئی کہ اگر ہندوستان پسند نہیں تو پاکستان کیوں نہیں چلے جاتے؟نصیر الدین شاہ کے بھائی ضمیرالدین شاہ انڈین آرمی میں لیفٹیننٹ جنرل اور وائس چیف آف دی آرمی سٹاف کے عہدوں پر فائز رہے ہیں ا ور علمی تعارف یہ کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر بھی کام کیا۔ 2002ء میںنریندر مودی کی چیف منسٹری کے زمانے میں گجرات میں ہونے والے مسلم کُش فسادات کے حوالے سے جنرل صاحب نے ایک محتاط اور نپا تلا بیان دیا تھا۔ جسے BJP کی مرکزی اور مقامی قیادت ابھی تک سینے سے لگائی بیٹھی ہے اور گاہے گاہے ناپسندیدگی کا اظہار بھی کرتی رہتی ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ مقابل انڈیا آرمی کا ایک سابق جرنیل ہے۔ جس کے ساتھ بلاوجہ سینگ پھنسانے کا جواز نہیں بنتا۔ یاد رہے کہ نصیر الدین شاہ مسلمان ضرور ہیں مگر کوئی مذہبی آدمی نہیں۔ ان کی بیوی رتنا پاٹھک ایک گجراتی ہندو اداکارہ ہے۔ گھر کا کلچر ملا جلا ہے۔ اسلامی بھی اور ہندو بھی، ہولی دیوالی بھی ہوتی ہے اور عید شب برأت بھی۔ مگر اس کے باوجود شاہ انتہا پسند ہندوئوں کو قابل قبول نہیں کہ نام کا سہی ہے تو مسلمان۔ ایسے میں کوئی انڈین فلم انڈسٹری کے لیے ان کی خدمات پر نظر ڈالنے کیلئے تیار نہیں۔ یہ وہی نصیر الدین شاہ ہیں، وزیراعظم راجیو گاندھی جن کے بہت بڑے فین تھے اور ان کی ہر فلم پہلی فرصت میں دیکھی۔ جس کاامیتابھ جی نے گلہ بھی کیا تھا۔ (یاد رہے کہ امیتابھ اور راجیو گاندھی کلاس فیلو رہے۔) بھارتی فلم انڈسٹری کی بدقسمتی کہ ان کے سبھی سپرسٹار مسلمان ہیں۔ یوسف خان (دلیپ کمار) کے علاوہ شاہ رخ خاں ، عامر خان وغیرہ۔ جن کے بغیر بھارتی فلمی صنعت ایک عضوِ معطل۔ انہیں برداشت کرنا انتہا پسند ہندوئوں کی مجبوری ہے کہ ان کا متبادل موجود نہیں اور فن میں دو نمبری نہیں ہوتی۔ ورنہ وہ کبھی کے انہیں انڈسٹری سے نکال باہر کر چکے ہوتے۔ مگر نسلوں سے بھارت میں رہنے کے باوجود انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور وہ خفیہ والوں کے دھیان میں رہتے ہیں۔ ایک بار شاہ رخ اور عامر خاں گاڑی میں اکٹھے جا رہے تھے۔ مختلف موضوعات پر بات ہو رہی تھی کہ موصوف (شاہ رخ) نے انتہا پسندی اور مذہبی منافرت کیخلاف بھی چند جملے بول دئیے۔ انہیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ان کی یہ سرسری گفتگو بھی کہیں سنی گئی اور اس حوالے سے آئندہ محتاط رہنے کی وارننگ دی گئی۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ 2015ء میں شاہرخ نے ایک بڑے بجٹ کے اشتہار کا کنٹریکٹ سائن کیا تھا۔ ریٹ پر ہلکی پھلکی گفتگو ہو رہی تھی کہ موصوف بولے، کیا زمانے تھے کہ لوگوں میں برداشت ہوتی تھی جو اب سرے سے ختم ہو چکی اور ہر کوئی کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ ایسے میں دَم نہیں گھٹے گا، تو اور کیا ہو گا۔ جس پر پروڈیوسر نے کہا تھا، بھائی! کیوں ہمارے رزق کے پیچھے پڑے ہو۔ پاکستان کے حافظ سعید جیسی باتیں تو نہ کرو۔ اور بات کا ایسا بتنگڑ بنا کہ شاہ رخ کو اشتہار سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔