بغداد واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک)عراق پر امریکہ کے پہلے حملے یعنی جنگ خلیج سے قبل اکتوبر 1990ء میں ایک کویتی لڑکی نیرہ نے امریکی کانگریس کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے روبرو ایک بیان دیا تھا جس میں اس نے بتایا کہ کویت کے کے ایک ہسپتال پر حملے کے دوران عراقی فوجیوں نے انکیوبیٹرز سے بچوں کو نکال کر انہیں ہسپتال کے فرش پر مرنے کے لیے چھوڑ دیااور انکیوبیٹرز اپنے ساتھ لے گئے۔نیرہ نامی اس لڑکی کا انداز،کانپتی ہوئی آواز، آنکھوں سے ٹپکتے آنسوؤں اور انسانیت سوز داستان نے امریکہ بلکہ دنیا بھر میں ایک تہلکہ مچا دیا۔ کویت کو بچانے کے لیے عراق پر حملہ کرکے اسے سبق سکھا نے کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ جذباتی بیان کو بعد ازاں کانگریس کے کئی اراکین حتیٰ کہ خود امریکہ کے صدر نے اپنی تقریر میں شہادت کے طور پر پیش کیا۔لیکن جب عراق پر حملہ ہوچکا، ہزاروں بلکہ لاکھوں گھر لٹ چکے، ملک پر اقوام متحدہ کی پابندیاں لگ چکیں اور لاکھوں افراد کا جینا دو بھر ہوگیا تو یہ راز کھلا کہ نیرہ کا پورا نام دراصل نیرہ الصباح ہے اور وہ امریکہ میں کویتی سفیر سعود بن ناصر الصباح کی بیٹی ہے۔ اور اس کا یہ بیان ‘سٹیزنز فار اے فری کویت کی جانب سے منظم کردہ ایک عوامی رائے عامہ کی مہم کا حصہ تھا جسے عالمی سطح پر مشہور امریکی پبلک ریلیشنز ادارے ہل اینڈ نولٹن نے تیار کیا تھا۔ہل اینڈ نولٹن نے 12 ملین ڈالرز کی خطیر رقم استعمال کرتے ہوئے اس پورے منصوبے کا اسکرپٹ تیار کیا اور نیرہ اور دیگر گواہوں کو “پیشہ ورانہ تربیت” بھی دی۔ اس پورے سلسلے میں ایک ملین ڈالرز کی خطیر صرف اس تحقیق میں ضایع ہوئی کہ آخر عوام کو ‘جھنجھوڑنے’ کے لیے کون سے ڈرامہ کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا اور بالآخر بچوں اور انکیوبیٹرز کی کہانی گھڑنے پر اتفاق ہوا۔بعد ازاں ہل اینڈ نولٹن نے کانگریسی کمیشن کے سامنے پیش کردہ بیان کی وڈیو کو بھی پھیلایا۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں امریکیوں نے جب اپنے ٹیلی وژن چینلوں پر نیرہ کا یہ جذباتی بیان دیکھا تو جو جنگ کے مخالف تھے وہ بھی جنگ کے حامی بن گئے۔دنیاقائل هو گئی اور عراق پر حملہ کر دیا گیا.یہ بیان جنگ کے دوران کیے گئے پروپیگنڈے کی بدترین مثال ہے اور اس پوری داستان میں ہم پاکستان کے رہنے والوں کے لیے بہت بڑا سبق موجود ہے۔عقلمند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے۔