تحریر: میر شاہد حسین
میئر تو اپنا ہونا چاہیے۔ بات تو تمہاری ٹھیک ہے لیکن اپنے اور پرائے کا فرق ختم ہو گیا ہے۔ وہ کیسے؟ جو زخم اپنوں نے لگائے ہیں وہ غیروں نے بھی نہیں لگائے۔ گویا ہمیں اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا لیکن اپنے تو اپنے ہی ہوتے ہیں، سو زخم لگا لیں اپنے ہی رہتے ہیں۔مار بھی دیں تو چھاؤں میں پھینکتے ہیں۔
ہاں اسی لیے ہم انہیں تیس سالوں سے منتخب کرتے آرہے ہیں، اسی امید کے ساتھ کہ جیسے بھی ہیں ، اپنے تو ہیں۔ لیکن ابھی تو اپنوں کے اوپر ظلم ہورہے ہیں۔ انہیں ٹارگٹ کلنگ پر گرفتار کیا جارہا ہے۔ بھتہ خوری کی اجازت نہیں دی جارہی اور تو اور جو زمین ہماری ہے اس پر بھی قبضہ نہیں کرنے دیا جاتا۔ بے شک جس کے پاس مینڈیٹ ہو اس کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور زمینوں پر قبضے کہاں نہیں ہوتے۔لیکن گرفتار صرف ہمیں ہی کیا جارہا ہے۔
پھر اس پر مزید ظلم یہ کہ بھائی کا نام لینے پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔ بھائی نے کیا نہیں کیا اپنوں کے لیے۔ اپنوں کے لیے وہ گھر سے بے گھر ہیں۔انہیں اپنی جان کی بھی کوئی پروا نہیں۔ یعنی ایک ہجرت کے بعد دوسری ہجرت…ہمارے آباء و اجداد نے تو صرف بھارت سے پاکستان ہجرت کی تھی لیکن ہمارے بھائی نے تو پاکستان سے برطانیہ ہجرت کرکے ایک سچا قائد ہونے کاثبوت دے دیا ہے! بالکل! اگر ان کی جان کو خطرہ نہ ہوتا تو وہ کب کے پاکستان آجاتے لیکن یہ تواپنوں نے انہیں وہیں روک رکھا ہے ، وہ نہیں چاہتے کہ بھائی پاکستان آئیں۔
اپنوں کا خوف بھی صحیح ہے … ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے، اوراگر رہنما چلا گیا تو منزل بھی نہیں ملے گی۔ اﷲ ہمارے بھائی کو ہزار برس کی عمر دے کیونکہ منزل تو ہمیں اتنی جلدی ملتی دکھائی نہیں دے رہی۔ منزل تو جب ملے گی جب ہمیں منزل چاہیے ہوگی ، ہمیں تو منزل چاہیے ہی نہیں ہے۔
کیا مطلب؟
مطلب یہ کہ ہم کبھی کوٹہ سسٹم کے نام پر ووٹ ڈال کر انتخاب نہیں بلکہ ریفرنڈم کرتے ہیں اور کبھی نئے صوبے کے نام پر ریفرنڈم … پتا نہیں ان ریفرنڈمز کے نتائج کیا نکلیں گے؟ نتائج کیا نکلنے ہیں … اگلے انتخاب پر پھر ایک نیا ریفرنڈم ہوگا۔کیونکہ ہمیں منزل نہیں چاہیے۔ اب ایسی بھی کوئی بات نہیں۔ ہمیں اختیار ات نہیں ملے ورنہ بھائی کی تو بہت قربانیاں ہیں۔ اتنے سالوں سے ہم سندھ کی حکومت میں ہیں لیکن ہمیں اختیارات نہیں ملتے ، کچھ اور مل جاتا ہے۔
یہ ہماری لازوال قربانیاں ہیں کہ ہم سب کچھ ہونے کے باوجود پھر بھی بے اختیار رہنا پسند کرلیتے ہیں۔
صحیح کہا اگر اختیارات ہمیں مل جائیں تو ہم تو کراچی کو لندن ضرور بنا دیں۔
کچھ بے وقوف لوگ کہتے ہیں کہ میئر تو دیانتدار ہونا چاہیے۔ دیانتدار میئر کا کراچی میں کیا کام؟… دیانتداری سے کام کرنا ہے تو دبئی جا کر کرو۔ دبئی سے یاد آیا کہ سابق میئر مصطفی کمال کو بھی ہم نے وہاں دیانتداری سے کام کرنے کے لیے بھیجا ہے تاکہ ملک کا نام روشن ہو۔
ویسے بھی ہمارے پاس کون سا مصطفی کمال کی کمی ہے۔ کسی بھی مصطفی کو کھڑا کردو وہ یہ کمال کرسکتا ہے۔ یعنی ہم اب کراچی والے میئر ایکسپورٹ کرسکتے ہیں۔اس میں ہم خودکفیل ہوچکے ہیں۔ بے شک! لیکن ہم نے اﷲ کی نعمت یعنی نعمت اﷲ خان کو دوبارہ منتخب نہ کرکے بہت بڑا کفرانِ نعمت کیا ہے۔کیا وہ اپنا نہیں تھا۔
اپنے اور غیر کی سند تو لندن والے ہی دیتے ہیں ورنہ ہمیں کیا پتا کہ کون اپنا اور کون پرایاہے؟ صحیح کہا اپنے اور پرائے کا فرق ہی مٹ گیا ہے۔ہم اپنے اور پرائے کی تمیز بھی نہیں کرسکتے۔
تو پیار ہے کسی اور کا ، تجھے چاہتا کوئی اور ہے
تو پسند ہے کسی اور کی ، تجھے مانگتا کوئی اور ہے
تحریر: میر شاہد حسین