لاہور (ویب ڈیسک) نئی حکومت کی نیا پاکستان پالیسی نے ملک کی معیشت کا بخیّہ اُدھیڑ دیا ہے۔ غریب، امیر، صنعتکار، بزنس مین غرض ہر طبقہ ہی پریشانی اور بے چینی کا شکار ہے۔ لوگ ڈرے ہوئے ہیں کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ حکومت کے پاس ایک بڑی ٹیم معاشی ماہرین کی ہے نامور سائنسدان اور کالم نگار ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر یہ اکنامسٹ نہیں ہیں، یہ بین الاقوامی مالی اداروں کی پالیسی کے نافذ کرنے والے ہیں اور ان بین الاقوامی مالی اداروں کی پالیسی اور مقصد یہی ہوتا ہے کہ چیدہ چیدہ ملکوں کی معیشت کو آہستہ آہستہ مگر یقینی طور پرتباہ کر کے انہیں قرض کے ذریعے غلام بنا دیا جائے۔ آئیے حکومت کی معاشی پالیسی اور پہلے بجٹ پر مختصر تبصرہ کرتے ہیں۔ میں چونکہ مالی معاملات کا طالب علم ہوں اور نا ہی استاد و ماہر، ایک پڑھے لکھے شہری کی حیثیت سے جو کچھ سمجھ میں آیا ہے وہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔موجودہ حکومت کا پہلا باقاعدہ بجٹ 2019-20قومی اسمبلی سے پاس ہوچکا ہے اور منظور شدہ بجٹ پر عملدرآمد بھی شروع ہوگیا ہے۔ آئی ایم ایف سے چھ بلین ڈالر کے تین سالہ قرض اور اصلاحاتی پروگرام کی منظوری بھی مِل چکی۔ تا دمِ تحریر توقع یہ کی جارہی ہے کہ ایک بلین ڈالر کی پہلی قسط بھی جلد ہی مل جائے گی۔ دوست ممالک سے نقد رقوم اور ادھار تیل کی دستیابی بھی شروع ہوگئی۔ Asset Declaration Schemeکے تحت، خوف کے ماحول میں، 70بلین کے لگ بھگ محصولات بھی مِل گئے اور ایک لاکھ سے زیادہ ٹیکس گزاران کا اضافہ بھی ہوگیا۔ان تمام بظاہر تسلی بخش اقدامات اور حکومتی معاشی ماہرین کی سر توڑ کوششوں کے باوجود، وطن عزیز کا ہر طبقہ، مزدور اور کسان سے لے کر سرمایہ دار اور زمین دار، تنخواہ دار سے لے کر آجر، گرتی ہوئی اسٹاک مارکیٹ سے لے کر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی اترتی چڑھتی قیمت تک اور روزافزوں گرانی اور غیر یقینی صورتحال سے مضطرب اور پریشان ہے۔ آئے دن مختلف طبقات سے صدائے احتجاج سنائی دیتی ہے اور تمام تر سرکاری وضاحتوں کے باوجود مظاہروں اور احتجاج کی خبریں آرہی ہیں۔یہ ہماری قومی اور مِلّی بدقسمتی ہے کہ 1947میں آزادی کے بعد، گزشتہ سات دہائیوں میں، پاکستانی معیشت ہمیشہ ڈگمگاتی رہی اور ہم معاشی آزادی اور خود انحصاری نہ حاصل کر سکے۔ آزادی کے بعد اقتدار میں آنے والی مختلف حکومتیں، بیرونی طاقتوں اور بیرونی ملکوں کے قرضوں اور مالی مدد کی دست نگر رہیں۔ ان ستر سالوں میں عارضی معاشی ترقی کے چھوٹے چھوٹے دور تو آئے مگر حکومتی اقتصادی پالیسیوں میں خامیوں کی وجہ سے اقتصادی ابتری بڑھتی رہی یعنی مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ساٹھ کی دہائی میں متحدہ پاکستان 6.8فیصد کی اوسط شرح سے اقتصادی ترقی کررہا تھا۔ ستر کی دہائی میں یہ شرح بڑھنے کے بجائے گھٹ کر 4.8فیصد اوسط رہ گئی۔ دوسری طرف اِسی عرصے میں آبادی ساڑھے چھ کروڑ سے بڑھ کر ساڑھے آٹھ کروڑ ہوگئی۔ جس کی وجہ سے عوامی مشکلات اور بڑھ گئیں۔70کی دہائی ہی میں، مختلف سیاسی نعرے بلند ہوئے، بائیس خاندانوں میں ارتکازِ دولت کا غلغلہ اٹھا۔ بونس وائوچر ، لائیسنس راج، Multiple Exchange Rate، PICIC، IDBPکے سرمایہ کاروں کو قرضوں، جن کی وجہ سے صنعتیں قائم ہوئی تھیں، کرپشن کا تمام تر ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ ایوب خان کے دور کی تاریخی زرعی اور صنعتی ترقی کو صرفِ نظر کر کے پہلی مرتبہ وفاق میں برسرِاقتدار آنے والی سیاسی جماعت یعنی پاکستان پیپلز پارٹی نے معاشی بدحالی کی تمام تر ذمہ داری گزشتہ حکومت، پرائیویٹ سیکڑ اور نوکر شاہی پر ڈالی۔ اس سیاسی اور اقتصادی ماحول میں ملکی معیشت کو سنبھالنے کی ذمہ داری دسمبر 1971میں ڈاکٹر مبشر حسن کو سونپی گئی اور وہ اکتوبر 1974تک وزیر خزانہ کے اہم عہدہ پرفائز رہے۔ڈاکٹر مبشر حسن(جو اَب ماشاء اللہ ستانوے سال کے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں صحت و سلامتی عطا فرمائے، آمین) پنجاب یونیورسٹی سے 1947کے B.Scسول انجینئرنگ کے فارغ التحصیل، IOWA Uniسے ایم ایس سول انجینئرنگ اور غالباً Columbia Uniسے Hydraulic Engineeringمیں PhDہیں۔ وہUET Lahoreکے سول انجینئرنگ شعبہ کے مستند استاد رہے ہیں اور یہ مضمون بڑی لگن اور تندہی سے انجینئرنگ کے طلباء کو پڑھاتے رہے ہیں۔ تاہم معیشت کے مسائل سے اُن کا واسطہ 1967میں سوشلسٹ فلسفہ کے تحت، اُن کی پاکستان پیپلز پارٹی کی صورت میں ہوا۔ اور یہیں سے پاکستان کی اقتصادی پالیسیاں بنانے(یا بگاڑنے) میں ڈاکٹر مبشر حسن کا عمل دخل شروع ہوا جو 1977میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے اختتام تک رہا۔پاکستانی معیشت کی تاریخ کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے اور چشم دید شخص کی حیثیت سے مجھے وہ دن یاد ہے جب 1972میں فولاد اور کیمیکل سمیت بنیادی صنعتوں کو پرائیویٹ سیکٹر سے لے کر قومیا لیا گیا۔ صنعت کاروں اور سیاست دانوں کو جیلوں میں ڈالا گیا اور ایک طرف تو سول سرونٹس کو مختلف الزامات کی بنیاد پر ملازمتوں سے فارغ کیا گیا۔ دوسری طرف اِسی نوکر شاہی کو، پرائیویٹ سیکٹر کے قومیائے گئے اثاثے، سپرد کئے گئے۔ ان نئے عارضی مالکوں نے اِن اثاثوں کا بے جا استعمال کیا اور ملکی خزانے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ اقتصادی اصلاحات کے نام پر آٹے اور چاول چھڑنے کی مِلوں، کپاس بیلنے کی مِلوں اور تجارت کو بھی قومیا لیا گیا۔ اس کے اتنے منفی نتائج ایک دم برآمد ہوئے کہ مختصر عرصے کے بعد ہی یہ قدم واپس لینا پڑا اور آج تک یہ واضح نہ ہوسکا کہ اس پالیسی کا خالق، سیاسی حکومت تھی یا کسی معاشی ماہر کا مشورہ تھا۔اصلاحات کے نام پر کئے جانے والے اقدامات کا یہ نتیجہ نکلا کہ پیپلز پارٹی کا روٹی، کپڑا اور مکان کا ایک اچھا وعدہ دھندلا کر رہ گیا۔ سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا۔ نئی ملازمت پیدا ہونے کے بجائے ملازمتیں کم ہونا شروع ہوگئیں۔ پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کے کارخانے یا تو بند ہونا شروع ہوگئے یا پھر اُن کی پیداواری استعداد کم ہوتی گئی۔ اقتصادی ترقی کی شرح گرنے لگی۔