لاہور (ویب ڈیسک) شمالی وزیرستان کے علاقے بویہ میں خار کمر چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے مشتبہ سہولت کاروں کو چھڑانے کے لیے دباؤ ڈالنے کی غرض سے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں نے چیک پوسٹ پر حملہ کیا ہے۔ اس حملے کے نتیجے میں پانچ فوجی اہلکار جب کہ دس حملہ آور زخمی ہوئے ہیں۔ نامور کالم نگار محمد اکرم چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ حملہ آوروں کی قیادت علی وزیر اور محسن جاوید کر رہے تھے۔ علی وزیر کو آٹھ ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ محسن جاوید فرار ہونے میں کامیاب ہوا ہے۔ شمالی وزیرستان میں پشتون تحفظ موومنٹ کے نام پر وطن دشمنوں کا ایک گروہ عرصے سے سرگرم ہے۔ یہ علاقے کے معصوم افراد کو ڈھال بنا کر، انکی معصومیت کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ اب اس واقعے کے بعد بھی افواج پاکستان کی طرف سے تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرنا کیا اپنے معصوم شہریوں سے محبت کا ثبوت نہیں ہے۔ کیا ان حالات میں جب ملک کے اندر ہی ایسے افراد جو خود کو پاکستان کا شہری کہلوانے پر شرم محسوس کریں، جو پاکستان میں رہتے ہوئے دشمنوں کے نقطہ نظر کو عام کریں، ایسے شرپسند جو ملک میں رہتے غیروں کے نظریے پر کام کریں، ملک کی جغرافیائی سرحدوں کو بدلنے کی منصوبہ بندی کریں، ملک دشمنوں کے ساتھ مل کر پاکستان کو کمزور کرنے کی سازشوں کا حصہ بنیں اور بڑھتے بڑھتے وہ اس حد تک آ جائیں کہ افواج پاکستان پر حملہ کر دیں، وطن کے محافظوں کا خون بہانا شروع کر دیں ۔ دشمن کے ہاتھوں کھیلنے والے مہرے بے نقاب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پی ٹی ایم کی قیادت ملک دشمنوں کے ایجنڈے پر ہے،پی ٹی ایم کی قیادت پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کو نقصان پہنچانے کے لیے متحرک ہے۔کیا افواج پاکستان کی چیک پوسٹ پر حملہ کوئی محب وطن کر سکتا ہے، کیا ہم فوج کے جوانوں کا خون بہانے والوں کو اپنا دوست کہہ سکتے ہیں، کیا ایسے افراد کو سیاسی عمل کا حصہ ہونا چاہیے، کیا ایسے افراد کو قانون سازی کا اختیار ہونا چاہیے، کیا ایسے افراد کو قوم کے مستقبل کے فیصلوں کا اختیار دیا جانا چاہیے، کیا ایسے شرپسند اور مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد کے ساتھ کوئی رعایت ہونی چاہیے۔ مورخ لکھ رہا ہے کہ افواج پاکستان کے جوان کس طرح مادر وطن کی حفاظت کے لیے اپنا خون دے رہے ہیں، کس طرح اپنوں کے الزامات کا سامنا کرتے ہوئے سینہ تانے کھڑے ہیں، اپنی جوانیاں لٹا رہے، اپنا سر پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان کی حفاظت کے لیے اپنا خون دے رہے ہیں۔ یہ وقت مشکل ہے ایک طرف ہمیں اندرونی اور بیرونی طور پر دشمنوں کے حملوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف ہماری سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات کے لیے ہر مسئلے میں اپنے سیاسی فائدے کی تلاش میں رہتی ہیں۔ کیا نام نہاد قائدین نہیں جانتے کہ پی ٹی ایم والے کس کے ایجنڈے پر ہیں، کیا مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین نہیں جانتے کہ پشتون تحفظ موومنٹ درحقیقت پاکستان توڑو موومنٹ ہے۔ یہ سیاسی اداکار ملک دشمنوں کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے، ان کا دفاع کرتے ہوئے مادر وطن کا قرض کیسے بھول جاتے ہیں۔ کیا پی ٹی ایم والے نہیں جانتے کہ کس طرح افواج پاکستان نے شمالی وزیرستان کو دہشت گردوں سے نجات دلانے کے لیے کام کیا ہے، یہ اس وقت کہاں تھے جب مقامی لوگوں کے سر کاٹے جاتے تھے، اس وقت کہاں تھے جب وہاں مقامی لوگوں کے جان و مال کا کوئی تحفظ نہ تھا، یہ اس وقت کہاں تھے جب وزیرستان نو گو ایریا بن گیا تھا، یہ اس وقت کہاں تھے جب وہاں زندگی کے آثار ختم ہو رہے تھے اور علاقے میں پاکستان کے دشمن بڑی تعداد میں تھے، یہ اس وقت کیوں سامنے آئے ہیں جب وزیرستان میں امن بحال ہو رہا ہے، وہاں کھیل کے میدان آباد ہو رہے ہیں، کرکٹ سٹیڈیم بن رہے ہیں، بنیادی ڈھانچہ مضبوط ہو رہا ہے، عوام کی زندگی میں سکون آ رہا ہے، لوگ معمول کی زندگی میں واپس آ رہے ہیں، کیا یہ اس امن کے دشمن ہیں، کیا یہ سکون کے دشمن ہیں، کیا یہ وزیرستان کی ترقی کے دشمن ہیں، یہ خیرخواہ ہیں تو امن عمل کو سبوتاژکیوں کر رہے ہیں، یہ خیرخواہ ہیں تو چیک پوسٹوں پر حملے کیوں کر رہے ہیں؟؟؟ در حقیقت یہ امن، ترقی، خوش حالی کے دشمن ہیں۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ وزیرستان میں امن کی بحالی، بارودی سرنگوں کا خاتمہ کرنے کے مشن میں ایک سو ایک جوانوں نے جام شہادت نوش کیا ہے، اتنی بڑی تعداد میں جوانوں کی شہادت کیا وزیرستان میں امن قائم کرنے کی گواہی کے لیے کافی نہیں ہے،کیا پی ٹی ایم کی قیادت چاہتی ہے کہ دوبارہ وزیرستان کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے، لوٹ مار کا بازار گرم ہونے دیا جائے؟؟؟ گم شدہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرنے والے کیا یہ نہیں جانتے کہ ایک کمشن اس مسئلے کے حل کے لیے دن رات کام کر رہا ہے۔ ایس پی طاہر داوڑ کے اغوا اور شہادت میں پی ٹی ایم کا منفی کردار کیا اہلیان وطن فراموش کر چکے ہیں۔ جنازوں اور دھرنوں کے لیے بھارت اور افغانستان سے امداد لینے والے کیا پاکستان کے حمایتی ہیں۔ یہ پاکستان کے دشمن ہیں، یہ ہماری ریاست کے دشمن ہیں، یہ ہمارے ملک کی آزادی کے دشمن ہیں، یہ ہمارے ملک کے مستقبل کے دشمن ہیں، یہ ہماری نوجوان نسل کے دشمن ہیں، ایسے تمام عناصر کو آزادی دینا اور دیتے چلے جانا ہی باعث نقصان ہے۔ ہماری سیاسی حکومتیں کیوں ایسے مسائل کو بروقت حل نہیں کرتیں، کیوں ایسے عناصر کو پنپنے کی آزادی دی جاتی ہے، کیوں بروقت بیخ کنی نہیں کی جاتی، کیوں انہیں کھلا چھوڑا جاتا ہے، پاکستان کے مستقبل اور وسیع تر قومی مفاد میں انہیں پوری قوت کے ساتھ کچلا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ حکومت ہوش کے ناخن لے ایسے کئی عناصر بلوچستان میں جنم لے رہے ہیں وہاں کی سیاسی قیادت کو جلد از جلد ساتھ ملایا جائے اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ اختر مینگل کے چھ نکات پر عمل کیا جائے اور انہیں جائز مقام، مرتبہ دیتے ہوئے سیاسی قیادت اور عوام کے مسائل حل کرنے کے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔