لاہور (ویب ڈیسک) کھیل کھیل ہوتا ہے اسے نفرت کا عنوان یا جنگ کا میدان نہیں بنایا جا سکتا لیکن نومولود مورخین کرام جو حرکتیں کر رہے ہیں یہ گوارا نہیں کی جا سکتیں۔ این جی اوز کے کارندے تو اپنے ایجنڈے پر ہیں ، سادہ لوح محققین اور نومولود مورخین کے دماغِ عجز ِ عالی سے نامور کالم نگار آصف محمود اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خواہ مخواہ دھواں اٹھ رہا ہے ۔ رونی صورت بنا کر یہ حضرت ناصح بنے پھرتے ہیں اور ہمیں سمجھاتے ہیں کہ دیکھیے صاحب افغان تماشائیوں کا رد عمل اصل میںپاکستان کی پالیسیوں کے خلاف افغان عوام کا غم و غصہ ہے اس لیے ہمیں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ یہ وہ ملامتی سوچ ہے جو این جی اوز کے فکری لشکریوں کے ذریعے اہتمام سے اس ملک میں پھیلائی جا رہی ہے کہ خطے میں کہیں کوئی مسئلہ ہے تو اس کا ذمہ دار پاکستان ہے میچ کی باتیں تو نظر انداز کی جا سکتی ہیں لیکن فکر کی دنیا میں اس واردات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اپنے فکری مغالطے دور کر لینے چاہئیں۔ 1۔ نومولود مورخین کی ترک تازی کا حاصل یہ ہے کہ پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف جنگ اور اس کے بعد جو رویہ رکھا اس کی وجہ سے افغان عوام ہم سے نالاں ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے یہ تاریخ قیام پاکستان سے شروع ہوتی ہے سوویت یونین کے خلاف جنگ سے نہیں۔ افغانستان وہ ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا اور اسے بطور ملک تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔1947 سے لے کر سوویت یونین کے خلاف جنگ کے زمانے تک افغانستان نے پاکستان کے لیے کون سی مصیبت ہے جو کھڑی نہیں کی۔ بین الاقوامی تعلقات کی غزل ، کسی کا خیال ہے کہ محض مطلع کا نام ہے تو وہ غلطی پر ہے۔ 2۔ پشتونستان کی تحریک کا سیاق و سباق بھی ہمیں جان لینا چاہیے۔ پشتون قوم پرستوں کی یہ تحریک اصل میں گاندھی کے اشارے پر چلی تھی اور اسے بھارت اور افغانستان کی مکمل آشیر باد رہی۔باچا خان صاحب کانگریس کے ساتھ متحدہ ہندوستان چاہتے تھے۔ اس وقت انہیں لر او بر یو افغان یاد نہیں تھا۔ قیام پاکستان ناگزیر ہو گیا تو ان کی خواہش تھی پاکستان کی بجائے بھارت کے ساتھ مل جائیں۔ جب یہ بھی نہ ہو سکا تو انہوں نے پشتون ریاسست کا نعرہ لگا دیا۔ابولکلام آزاد نے لکھا ہے کہ جب تقسیم کا فارمولا گاندھی نے قبول کر لیا تو غفار خان پر سکتہ طاری ہو گیا اور کئی منٹ وہ ایک لفظ نہ بول سکے۔ 3۔ آج ہم پر احسان جتایا جاتا ہے کہ باچا خان صاحب نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کر دیا تھا اور بھارت کے حق میں بھی ووٹ نہیںدیا تھا۔اگر وہ بھارت کو ووٹ دیتے تو صوبہ سرحد پاکستان کا حصہ نہ ہوتا۔حقیقت یہ ہے کہ جب ریفرنڈم میں انہیں اپنی ناکامی نوشتہ دیوار کی صورت نظر آئی تو گاندھی نے انہیں خط لکھ کر مشورہ دیا کہ ریفرنڈم میں آپ کی شکست یقینی ہے آپ اس کا بائیکاٹ کر دیں۔ اس بائیکاٹ سے پاکستان کو اخلاقی شکست ہو گی۔گاندھی نے مائونٹ بیٹن کو بھی ایک مراسلہ لکھا کہ عبد الغفار خان آزاد پٹھانستان کی تحریک میں ناکام ہو گئے ہیں اور اب یقینی شکست کے پیش نظر وہ ریفرنڈم کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔آج ملامتی دانشور سوال اٹھاتے ہیں قائد اعظم نے ڈاکٹر خان کی وزارت بر طرف کیوں کی۔ سوال یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد کانگریسی وزارت کے باقی رہنے کا جواز ہی کیا تھا؟ 4۔ جب قیام پاکستان یقینی ہو گیا تو روایت ہے کہ خان عبد الغفار خان صاحب میرا جان گوڈا خیل کے ساتھ کابل گئے اور افغان حکومت کے ساتھ مل کر مسلح جدوجہد کی بات کی۔باچا خان ہی کے کارکن سید جمال شاہ کے مطابق سردار نجیب کے ساتھ مل کر ایک مسلح تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا نام پشتون زلمے تھا۔ طے پایا کہ پاکستان بنتے ہی مسلح تحریک شروع کی جائے اور ساتھ ہی افغانستان کی فوج پاکستان میں گھس آئے۔ اس میٹنگ میں افغان چیف آف سٹاف سردار دائود اور وزیر دفاع شاہ محمود موجود تھے۔ 5۔ چنانچہ افغانستان کی طرف سے کھیل شروع ہو گیا۔ جس ڈیورنڈ لائن کی افغانستان کے نصف درجن حکمرانوںنے توثیق کی تھی اس پر سوال اٹھادیا گیا۔صوبہ سرحد کو افغانستان کا حصہ کہا جانے لگا۔افغانستان نے دو ڈویژن فوج بارڈر پر لگا دی۔پشتونستان نیشنل اسمبلی بنا دی گئی۔ پشتونستان کا پرچم بن گیا۔چنانچہ لیاقت علی خان کو دھمکی دینا پڑی کہ افغانستان یہ نہ سمجھے ہم صرف امن کی اپیلیں کرتے رہیں گے۔چند ہفتے بعد افغان سفیر نے انڈین نیوز کرانیکل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کچھ ہی دنوں میں پشتونستان کی مرکزی حکومت بن جائے گی۔بھارت میں سرکاری سرپرستی میں یوم پختونستان منایا جانے لگا۔جون میں چمن سب ڈویژن میں پاکستانی سرحد پر پہلا حملہ ہوا اور افغانستان نے تین سو گز اندر جا کر چوکی بنا دی۔ پاکستان کے چار فوجی شہید ہوئے۔ 28 اگست 1950ء کو افغان بادشاہ ظاہر شاہ کی موجودگی میں پشتونستان کا پرچم لہرایا گیا۔ افغانستان کے لوئی جرگے نے اعلان کر دیا صوبہ سرحد پاکستان کا حصہ نہیں۔ گاندھی کی طرح ان کا بھی خیال تھا پاکستان ناکام ہو جائے گا اور اس کے حصے بخرے ہو جائیں گے لیکن ان کے یہ ارمان پورے نہ ہو سکے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کے ہر دشمن کو افغانستان نے پناہ دی۔غفار خان کے اپنے ساتھی کی کتاب فریب نا تمام ہی پڑھ لیجیے۔حقیقت وا ضح ہو جائے گی۔پاکستان کے خلاف یہ گندا کھیل جاری رہا اور اب بھی جاری ہے۔قوم پرستوں کی نفرت اور مغالطے ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔ان کی وحشتوں کا یہ عالم ہے کہ ان کی ٹیم کا کپتان کہتا ہے :’’ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘۔نفرت کے ان قوم پرست بیوپاریوں کی پشت پر کل بھی بھارت تھا آج بھی بھارت تھا۔ یہ کل بھی ناکام ہوئے تھے یہ آج بھی نامراد ہو ں گے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو رشتہ ہے اسے چند جنونی قوم پرستوں کی نفرت نہ کل ختم کر سکی تھی نہ آج کر سکے گی۔