لاہور (ویب ڈیسک) ملک میں جب احتساب شروع ہو جاتا ہے تو یہ این آر او کے ذریعے تمام فائلیں بند کردیتے ہیں اور جب این آر او ہو جائے تو یہ بند فائلیں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں‘ یہ پہلے پرویز مشرف کو ہیرو بناتے ہیں پھر افتخار محمد چوہدری ان کا ہیرو ہوتا ہے اور آخر میں پتہ چلتا ہے افتخار محمد چوہدری اور پرویز مشرف دونوں نے ملک تباہ کر دیا‘ یہ جنگ کے دوران امن ریلیاں نکالتے ہیں اور امن میں جنگ کی دھمکیاں دیتے ہیں‘ نریندر مودی چل کر آ جائے تویہ لانے والے کو غدار کہتے ہیں اور پھر ’’آپ ایک قدم بڑھاؤ‘ ہم دو قدم بڑھائیں گے‘‘ جیسی منتیں کرنے والے کو نوبل انعام کا حق دار سمجھتے ہیں‘ آئی ایم ایف قرضے دے تو یہ ٹھکرا دیتے ہیں‘ نہ دے تو منتیں کرتے ہیں‘ یہ لوگ پوری زندگی اپنے بچوں کے سلیبس‘ لباس اور کھانوں کا فیصلہ نہیں کر پاتے‘ یہ لوگ لسی کے گلاس میں کافی پیتے رہتے ہیں اور جینز ادھیڑ کر دھوتی بناتے رہتے ہیں‘ یہ پوری زندگی رزق میں وسعت کی دعا کرتے ہیں لیکن دولت اور دولت مندوں سے نفرت کرتے ہیں۔یہ اپنے بچوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ کامیاب لوگوں کو گالی دیتے ہیں‘ یہ خود ایک پیسہ ٹیکس نہیں دیتے لیکن کسی کی فیکٹری پر چھاپہ پڑ جائے تو یہ تالیاں بجاتے ہیں‘ یہ ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں لیکن مخالف فرقے کے کسی شخص کو اپنی مسجد میں نماز نہیں پڑھنے دیتے‘یہ بل گیٹس کی خیراتی پولیو ویکسین لے لیتے ہیں لیکن یہ یہودی ارب پتیوں کو گالی دیتے ہیں‘ یہ یورپی ملکوں کے ویزوں کے لیے ذلیل ہوں گے لیکن یہودونصاریٰ کو قابل موت سمجھیں گے‘ یہ پراپرٹی میں سٹے بازی سے لاکھوں کو کروڑ بنا لیں گے لیکن سود حرام ہے‘ یہ کچھ نہ کرنے والوں کو کچھ نہیں کہیں گے لیکن کرنے والوں کو گلیوں میں گھسیٹیں گے ور یہ اذان کے وقت شادی کا بینڈ بند کرا دیں گے لیکن خودکبھی مسجد نہیں جائیں گے۔ آپ کسی دن اپنے دائیں بائیں موجود لوگوں کو دیکھیں‘ شیشے میں اپنا چہرہ دیکھیں اور پھر دنیا کا نقشہ پھیلا کر 245 ملکوں کا جائزہ لیں‘ آپ کو کتا فلاسفی کے شکار لوگ اور ملک دونوں سڑکوں کے درمیان کھڑے ملیں گے‘ یہ کبھی دائیں جا رہے ہوں گے اور کبھی بائیں‘ کبھی آگے دوڑ رہے ہوں گے اور کبھی پیچھے حتیٰ کہ ملک ہوں یا لوگ یہ کسی نہ کسی گاڑی (آفت) سے ٹکرا کر ختم ہو جاتے ہیں‘ آپ اس کے بعد اپنے اور اپنے ملک کے بارے میں سوچیں اور یہ سوال کریں ہم بھی کہیں یہ غلطی تو نہیں کر رہے‘ ہم بھی کہیں سڑک کے درمیان کھڑے ہو کر کبھی آگے‘ کبھی پیچھے تو نہیں دوڑ رہے‘ ہم بھی کہیں ترقی اور پسماندگی کے درمیان کنفیوژ تو نہیں ہیں‘ مجھے یقین ہے آپ نے جس دن ٹھنڈے دل اور دماغ سے یہ سوال پوچھ لیا آپ اور یہ ملک اس دن ٹھیک ہو جائے گا‘ ہم اس دن دائیں یا بائیں‘آر یا پار لگ جائیں گے‘ ہم اس دن بچ جائیں گے‘ ہم آج مہاتیر محمد کو ہیرو سمجھتے ہیں‘ ہم انھیں 21 توپوں کی سلامی بھی دیتے ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے لیکن ہم مہاتیر محمد کی فلاسفی کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ مہاتیر نے 1980ء کی دہائی میں فیصلہ کیا تھا ہم کسی ملک کے ساتھ لڑیں گے اور نہ کسی لڑائی میں کسی ملک کی حمایت کریں گے‘ یہ آج بھی اپنی فلاسفی پر قائم ہیں‘ آپ تازہ ترین مثال دیکھ لیجیے‘ یہ 21مارچ کو تین روزہ دورے پر پاکستان آئے‘ یہ دورے کے اختتام پر سوالوں کا جواب دے رہے تھے‘ ایک رپورٹر نے ان سے پوچھا’’آپ پاکستان اور انڈیا کی ٹینشن میں کس کا ساتھ دیں گے‘‘۔ جواب میں مہاتیر محمد نے پاکستان کی سرزمین پر کھڑے ہو کر کہہ دیا’’ ملائیشیا پاک بھارت تنازع میں کسی ایک فریق کا ساتھ نہیں دے گا‘ہم جنگیں نہیں چاہتے‘ہمیں دہشت گردوں کو روکنا چاہیے‘ ہم دو فریق میں سے کسی کی طرف داری نہیں کرنا چاہتے مگر ہمیں ان مسائل کا ادراک ہے جس کا انھیں سامنا ہے‘‘ قوموں کو یہ وژن اور یہ کلیئریٹی چاہیے ہوتی ہے‘ یہ لڑتی ہیں یا پھر نہیں لڑتیں‘ یہ لڑوں یا نہ لڑوں جیسی کیفیات میں نہیں رہتیں‘ یہ جہاز گرا کر مذاکرات کی دعوت نہیں دیتیں‘ ہمیں اب اپنے آپ کو کلیئر کرنا ہوگا‘ بلی کی طرح کلیئر ورنہ ہم انسان ہوتے ہوئے بھی حرام موت مارے جائیں گے۔