تحریر : علی عمران شاہین
”محمد علی جناح بالکل ٹھیک تھے، اگر ہمارے بزرگوں نے پاکستان بننے کی مخالفت نہ کی ہوتی تو شاید آج پاکستان رقبے میں بڑا اور زیادہ طاقتور ہوتا۔ مجھے ہندوستانی ہونے پر شرمندگی ہے اور میرے خیال میں ہندوستان کے مسلمان بزدل ہیں۔ میں کشمیر کے مسلمانوں کو سلام پیش کرتا ہوں کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کی طرح بزدل نہیں۔”یہ الفاظ ہیںیعقوب میمن نامی ایک مسلمان کے، جسے بھارت نے30جولائی کی صبح تختہ دار پر لٹکا دیا۔بھارت کے شہر ناگپور کی جیل کی 30جولائی کی رات بھی عجیب تھی۔ کیا کبھی کسی نے سنا کہ پھانسی کا قیدی اپنی آخری رات پرسکون نیند سوئے گا۔ انسانی تخیل میں سب سے خوفناک تو موت ہی ہے۔ لیکن جس کی لو موت و حیات کے مالک سے لگ جائے پھر اس کی حالت کچھ مختلف ہو جاتی ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ ناگپور جیل میں سزائے موت کا وقت اور تاریخ مقرر ہونے کے باوجود ایک قیدی جس کا نام یعقوب میمن تھا، انتہائی پرسکون انداز میں رات کو سو گیا تھا۔ یہ شاید تاریخ انسانی میں پہلی بار ہوا ہو کہ موت کے پھندے کو سامنے دیکھ کر بھی کسی کو سکون کی نیند آ جائے۔
جیل حکام کہتے ہیں کہ ہم نے نصف شب کے بعد خود یعقوب میمن کو نیند سے بیدار کیا جس کے بعد میمن نے غسل کیا، اسے جو ناشتہ دیا گیا تھا، وہ اس نے پورے اطمینان سے کیا اور پھر طبی معائنے کے بعد اس نے نماز ادا کرنے کی اجازت چاہی۔ نماز ادا کی تو بعد میں اذکار میں مصروف ہو گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میمن کو سزائے موت سے دوچار کرنے کے لئے پھندے کے پاس لے جا کر اور پھر چہرے پر سیاہ کپڑا ڈال کر لیور کھینچ دیا گیا۔ پھانسی دیئے جانے کے بعد جیل حکام نے اس کے جسد خاکی کو آدھا گھنٹہ یقینا اسی لئے لٹکائے رکھا کہ جو قیدی اس قدر مطمئن و مسرور ہے اسے موت اتنی آسانی سے نہیں آئے گی۔ آدھے گھنٹے بعد یعقوب میمن کو جب پھندے سے اتارا گیا تو پتہ چلا کہ بھارت یعقوب میمن سے اس قدر خوفزدہ تھا کہ اس کی پھانسی کے پیش نظر ناگپور سنٹرل جیل کے 500 میٹر کے دائرے میں حکم امتناعی کا نفاذ کیا گیا تھا۔حالات کی ” نزاکت ”کے پیش نظر جیل کے اس حصے میں میڈیا کو بھی آنے سے روک دیا گیا تھا۔
اسے پھانسی دینے کے عمل میں تین ہٹے کٹے جوانوں نے حصہ لیا جنہیں صرف اس ایک پھانسی کیلئے کتنا عرصہ خصوصی تربیت دی گئی تھی۔ پھانسی کی خبر کے ساتھ ہی اس کے آبائی شہر ممبئی کے ایک بڑے حصے میں دفعہ144لگا دی گئی تاکہ کوئی شخص اس کی حمایت میں سڑک پر نہ آئے اور نہ کوئی اجتماع منعقد ہو سکے لیکن جب یعقوب میمن کی نعش ممبئی پہنچی تو شہر کی سڑکوں نے انسانی سروں کا وہ سیلاب دیکھا کہ جو اس سے پہلے کم ہی کبھی دیکھا گیا ہو گا۔ کہنے والے کہہ رہے تھے اور لکھنے والے لکھ رہے تھے کہ عرصہ 22سال بعد کسی مسلمان کی نماز جنازہ کے لئے اس قدر ازدحام دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جنازے کے شرکاء زیادہ تھے یا حفاظتی اقدامات کے تحت متعین کردہ پولیس اہلکار، اس کا بھی اندازہ مشکل تھا۔ بھارت کا خیال تھا کہ یعقوب میمن کو اس کی پیدائش کے دن پھانسی دینے سے شاید ان کا مقصد و منتہا زیادہ بہتر طور پر پورا ہو گا لیکن انہیں اس کا اندازہ نہیں تھا کہ اس کے بعد کے حالات کیا ہوں گے۔
کل تک بھارت سرکار فخر سے کہتی تھی کہ اس کے ہاں بسنے والے مسلمان اس کی ریاست کے سب سے بڑے محافظ ہیں۔ کہا جاتا تھا کہ اگر کہیں سے کوئی شدت پسندی (جہاد سے محبت) بھارت میں آئی تو بھارت کے سب سے بڑے مذہبی مراکز ہی اس سے نمٹ لیں گے لیکن وہی وزارت داخلہ اپنے ہاں بسنے والے مسلمانوں کے جذبات کی شدت کو دیکھ کر اب کہہ رہی ہے کہ مسلم نوجوانوں کے جذبات و احساسات کو دیکھ کراس نے اس مسئلہ پر غور کرنے کے لئے ایک اجلاس طلب کیا ہے تاکہ مسلم نوجوانوں کے بھڑکتے جذبات اور ان میں پیدا ہونے والے احساس بیگانگی اور کٹر پن کا کچھ تدارک کیا جائے۔ یہ کیسی پھانسی ہے کہ بھارت نے اپنے ہاں ہر روز مسلمانوں کو ظلم و ستم کی بدترین چکی میں پیسا لیکن اسے کبھی یہ فکر لاحق نہ ہوئی کہ بھارت کے مسلمان اس ریاست کے خلاف کبھی سوچ بھی سکتے ہیں۔
بھارتی حکام کہتے ہیں کہ افضل گورو کو پھانسی دینے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کشمیری ایک نئی تگ و تاز کے ساتھ تحریک آزادی کیلئے میدان میں اترتے ہوئے پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں تو یعقوب میمن کی پھانسی اب بھارتی نوجوانوں کو اس راہ کی طرف کھینچ رہی ہے جس کا خواب و خیال بھی بھارت کیلئے موت سے کم نہیں۔یعقوب عبد الرزاق میمن کی پیدائش 30 جولائی 1962 کو ہوئی۔بھارت نے شقاوت کی انتہا کرتے ہوئے اسے اسی دن پھانسی دی جو اس کا یوم پیدائش تھا۔
یعقوب میمن کو 12 مارچ 1993کو ممبئی شہر میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکوں کا مجرم قرار دیا گیا تھا اور ٹاڈا نے اس جرم میں اسے 27 جولائی 2007 کو سزا سنائی تھی۔ان سلسلہ وار دھماکوں میں ایک درجن سے زائد مقامات پر دھماکے، 260 افراد ہلاک، اور 700 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ پندرہ برسوں تک چلے مقدمہ میں خاص ٹاڈا جج پی ?ودے نے جولائی 2007ئ میں 12 لوگوں کو موت کی سزا سنائی تھی، جس میں سے ایک یعقوب میمن بھی تھا۔حیران کن بات یہ ہے کہ ان بارہ لوگوں میں سے صرف میمن کو ہی پھانسی دی گئی۔یعقوب میمن کو بھارتی خفیہ ادارے یہ جھانسہ دے کر بیرون ملک سے اپنے ہاں لائے تھے کہ اسے کچھ نہیں ہو گا جیسا جھانسہ وہ آج تک ہر بھارتی مسلمان کو دیتے آئے ہیں۔
یعقوب میمن کے اس طرح سے دنیا سے سفر کے بعد ہی توبھارتی مسلمان پہلی بار سوال اٹھا رہے ہیں کہ تقسیم ہند سے لے کر آج تک انہیں ہزارہا بار گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا لیکن کسی ہندو کو آج تک پھانسی نہیں ہوئی۔ بابری مسجد کی شہادت، اس کے بعد کے فسادات، گجرات قتل عام، مالیگائوں، مکہ مسجد دھماکے، مظفر نگر فسادات تو بڑی بڑی مثالیں ہیں کہ دونوں طرف سے کاٹنے والی چھری نے مسلمانوں ہی کو کاٹا۔ موت کا تو ایک وقت مقرر تھا، یعقوب میمن اس سے ہمکنار ہو گیا لیکن اس موت نے بھارت کے اعصاب پر جو رعشہ طاری کیا ہے اس کے کچھ اثرات تو دنیا دیکھ رہی ہے کہ جس نے بھی یعقوب میمن کا نام لیا بھارت اور اس کے نیتا اس سے کانپ اٹھے۔
اسد الدین اویسی نے جب آوازہ بلند کیا کہ پھانسیاں صرف مسلمانوں کیلئے ہیں تو پہلے کہا گیا کہ اویسی پاکستان چلا جائے…سبق ہے ہم جیسوں کے لئے جو ا ب بھی پاکستان اور آزادی کی قدر و قیمت سے ناآشنا ہیں۔اسد الدین اویسی کے اس بیان کے بعدان کے سر کی قیمت 10لاکھ روپے لگا دی گئی۔ یعقوب میمن کی پھانسی کے بعد اس پر سب سے زیادہ تکلیف کسی نے محسوس کی تو وہ کشمیری مسلمان تھے۔انہوں نے کتنے مقامات پر میمن کے غائبانہ جنازے بھی ادا کئے ساری حریت قیادت نے اپنے دلی جذبات کا کھل کر بلا خوف و خطر اظہار کیا۔یہ وہی کشمیری ہیں جنہیں دنیاسے جاتے میمن نے الگ سے سلام عقیدت پیش کیا۔
بھارت میں اس پھانسی کے بعد ہر سطح ہر بحث اورتبصرے جاری ہیںتو یعقوب میمن کے نام سے خوفزدہ بھارت کو انجام دکھائی دے رہا ہے تو نوشتہ دیوار بھی اس کے سامنے ہے اور ہاں بھارت والو! دنیا دیکھ رہی ہے۔ تاریخ میںرقم ہو چکا۔
تا حشر زمانہ تمہیں مکار کہے گا
تم عہد شکن ہو، تمہیں غدار کہے گا
نام اونچا زمانے میں ہر انداز رہے گا
نیزے پہ بھی سر اپنا سرفراز رہے گا
تحریر : علی عمران شاہین