counter easy hit

یعقوب میمن کی پھانسی میں اتنی عجلت

Yakub Memon

Yakub Memon

تحریر: عابد انور
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں کس قدر تعصب، امتیاز، نفرت، غصہ اور ذلیل کرنے کا جذبہ موجزن ہے اس کا اندازہ یعقوب میمن کی پھانسی کی تاریخ طے کرنے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جب کہ یعقوب میمن کیوریٹو (Curative) پٹیشن سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھی اس کے باوجود حکومت مہاراشٹر کا پھانسی کی تاریخ کافیصلہ کرنا اور ڈیٹھ وارنٹ جاری ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ اس طبقے کو مسلمانوں کو کتنی نفرت ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا آنے والا تھا۔ اگر نہیں معلوم ہے تو پھر یعقوب میمن کی پھانسی کی سزا کیسے طے کی گئی تھی۔ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے اور سپریم کورٹ میں بھی مداخلت کے مترادف ہے۔ کیا اس پر سپریم کورٹ کوئی ایکشن لے گی یا بی جے پی حکومت کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے یعقوب میمن کو پھانسی پر لٹکانے کی سزا برقرار رکھے گی؟۔ آخر حکومت مہاراشٹر کو اتنی جلد کیوں ہے کیا پھانسی دینے کے لئے صرف یعقوب میمن ہی بچا ہے۔ پھانسی کی سزا پانے والوں کی قطار ختم ہوگئی ہے۔ افضل گرو کے معاملے میں بھی بی جے پی نے اسی طرح کا شور مچایا تھا اور اس وقت کے بی جے پی کے صدر اور موجودہ مرکزی نتن گڈکری نے افضل گرو کو کانگریس کے داماد ہونے کاتک طعنہ دیا تھا۔اس کے بعد کانگریسی وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ افضل گرو کو پھانسی پر لٹکا دیا اور اس کی خبر اس کے اہلہ خانہ تک کو نہیں دی۔

قانون ماہرین نے اسے انصاف کا قتل قرار دیا تھا۔ کیوں کہ سپریم کورٹ نے قرائنی شہادت (جن بھاونا جن چیتنا) کی بنیاد پر پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان میںاب بیشتر فیصلے قرائنی بنیاد پر ہونے لگے ہیں۔ گزشتہ دنوں گڈفرائی ڈے کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی نے سپریم کورٹ کے ججوں اور چیف جسٹس کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ججوں کو چاہئے کہ فیصلہ کرتے وقت عوام کے جذبات کا لحاظ کریں ۔ عوامی جذبات کیا ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اس کا مظاہرہ امت شاہ کی کلین چٹ سے شروع ہوا تھا اور گجرات فسادات کے ملزمین اور عشرت جہاں، سہراب الدین پرجاپتی انکاؤنٹر کے خاطئیوں کو ایک ایک کرکے یا تو بری کردیا گیا پھر انہیں ضمانت دے دی گئی ہے۔ یہی نہیں گجرات کے موداسا دھماکے کے بھگوا دہشت گردوں کو صاف شفاف قرار دیتے ہوئے قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) نے اس دھماکے کیس کو بند کردیا۔ کیوں کہ اس میں مبینہ طور پر بھگوا دہشت گردی ملوث تھی۔ اسی طرح اس ایجنسی نے جس طرح مالیگاؤں دھماکے خاطیوں کے تئیں نرمی برتے جانے کے لئے روہنی سالین پر دباؤ ڈالا تھا وہ بھی جگ ظاہر ہے۔ اس کیس سے روہنی سالین کو ہٹا دیا گیا ہے۔ اس نتیجہ بھی جلد سامنے آجائے گا۔ اسی طر ح اجمیر دھماکے کے گواہان جس طرح منحرف ہورہے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاںکا عدالتی نظام عوامی خواہشات کا کس قدر احترام کر رہاہے۔مودی کی میعاد تک بہت ممکن ہے کہ بھگوا دہشت گردی کے سارے کیس بند کردئے جائیں یا پھر کچھ بے قصور مسلمانوں کو اس میں گرفتار کرلیا جائے۔ کسی بھی ملزم کے حق میں کس طرح حالات کو خراب کیا جاتا ہے اوراستغاثہ اپنے حق میں عوامی رائے عامہ کو کس طرح ہموار کرتا ہے وہ اجول نکم کی جھوٹ سے سامنے آگیا ہے جس میں اجمل قصاب کے بارے میں پہلے جھوٹی خبر پھیلائی کہ وہ بریانی طلب کر رہا ہے۔جب کہ اجول نکم نے گزشتہ دنوں میں یہ اعتراف کیا کہ وہ بریانی والی بات جھوٹی ہے جب کہ ایک پارٹی نے اس جھوٹ کے سہارے برسراقتدار آئی۔ یہ ان ذہنوں کا استعارہ ہے جس کی پرورش سنگھ پریوار نے کی ہے۔

کسی کوناحق سزا دینے کے لئے ”دام، سام ، ڈنڈ بھید” اپنائے جانے کی بات ساشتروں سے ماخوذ ہے۔ اس طبقے کو اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ یعقوب میمن کی پھانسی کی سزا اسی نظریہ سے متاثر نظر آتا ہے۔سزا دینے سے پہلے حالات اور احوال کو کوائف پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔ اگر مجرم کوئی ہے تواسے سزا ہونی چاہئے لیکن کا جرم کا پیمانہ مذہب نہیں ہونا چاہیئے۔ ممبئی دھماکے میں 257افراد مارے گئے تھے اور 250کروڑ روپے کا نقصان ہوا جب کہ ممبئی فسادات میں 2500افراد کو قتل کیا گیا تھا اور 2500 ہزار کروڑ کا نقصان ہوا تھا لیکن فساد انجام دینے والے، قتل کرنے والے اور مسلمانوں کا مال و متاع اور عزت و آبرو لوٹنے والوں کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔ آخر کیوں نہیں ہوئی ہے یہ سوال ہندوستانی جمہوریت سے سارے ستون سے پوچھے جانے چاہئے اور سارے ستون کو اس کا جواب دینا چاہئے۔

یعقوب میمن کو حکومت مہاراشٹر نے30 جولائی کو پھانسی دینے کی تاریخ مقرر کی ہے اور اس کے 22لاکھ روپے کا بجٹ مختص کیا ہے۔مشہور وکیل اور راجیہ سبھا کے رکن مجید میمن نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس عرضی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہو اس کی پھانسی کی سزا کی تاریخ طے کرنا مضحکہ خیز ہے اور اس سے حکومت کی نیت کا پتہ چلتا ہے۔انہوں نے مزید کہا تھا کہ اس سے ملک کی بدنامی ہوئی ہے ۔ سب کے سامنے سوال یہی ہے کہ آخر اتنی جلد کی کیا ضرورت ہے۔ کیا مرکزی حکومت اس کا فائدہ بہار اسمبلی انتخابات میں اٹھانا چاہتی ہے۔ یا شدت پسند ہندوؤں کو خوش کرنا چاہتی ہے کہ دیکھو حکومت میں آنے کے باوجود اس کے نظریات اور خیالات کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وہ خاکی نیکر پر دھبہ نہیں لگنے دیں گے۔ٹاڈا کورٹ کے جج پی کوڈے نے جب یعقوب میمن کو سازش رچنے کے لئے سزائے موت دی تھی تو ان کے فیصلے نے یعقوب کے وکیل ستیش کانسے سمیت کئی لوگوں کو حیران کر دیا تھا۔کچھ سال پہلے کانسے نے ریڈف ڈاٹ کام کی شیلا بھٹ کو بتایا تھا، ”یعقوب نے کبھی پاکستان میں فوجی تربیت نہیں لی”۔ انہوں نے کوئی بم یا آر ڈی ایکس نہیں لگایا تھا، نہ ہی ہتھیار لانے میں کوئی کردار ادا کیا تھا۔جن لوگوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی، وہ ان خطرناک سرگرمیوں میں سے کسی نہ کسی طرح سے شامل تھے۔ یعقوب کے خلاف ان میں سے کسی بھی معاملے میں الزام نہیں تھے۔

Yakub Memon,Mumbai Blasts

Yakub Memon,Mumbai Blasts

مشہور صحافی مسٹر جگن ناتھن نے ”فرسٹ پوسٹ ڈاٹ کام” میں اپنے ایک مضمون میں مضبوط دلیل دی ہے کہ کیوں حکومت کو یعقوب مینن کو پھانسی نہیں دینی چاہیے.وہ دلیل دیتے ہیں کہ راجیو گاندھی اور پنجاب کے وزیر اعلی بیت سنگھ کے قتل کے مقدمات میں جنہیں پھانسی دی جانی تھی، انہیں ابھی تک پھانسی پر نہیں لٹکایا گیا ہے۔تمل ناڈو اسمبلی کی رحم اپیل کے بعد راجیو کے قتل کرنے والے ستھن، مرگن اور پیرارکولن کی پھانسی کی سزا کو کم کر دی گئی تھی۔بینت سنگھ کے قاتل بلونت سنگھ راجاونا اور بھلر نے بڑے فخر سے اپنا جرم قبول کیا تھا اور انہوں نے خود کو پھانسی دئے جانے کی مانگ کی تھی۔لیکن انہیں ابھی تک زندہ رکھا گیا ہے۔ شاید اس کی وجہ پنجاب اسمبلی کی کوششیں ہیں۔جگن ناتھن نے لکھا ہے،”ایک چیز سب کو صاف نظر آتی ہے۔ جہاں ایک سزایافتہ قاتل یا شدت پسند کے پاس مضبوط سیاسی حمایت ہوتی ہے وہاں نہ تو حکومت اور نہ ہی عدالت منصفانہ انصاف دینے کی ہمت کرپاتی ہے”۔ اب دیکھئے، جب قاتلوں کی مختلف قسم کا معاملہ آتا ہے جیسے اجمل قصاب، افضل گرو اور اب یعقوب میمن، تو کیسے وہی مرکزی حکومت، ریاستی حکومتیں اور عدالتیں ”قانون کا احترام” کرنے میں دلچسپی لینے لگتی ہیں۔جگن ناتھن کے مطابق، ”پھانسی پر لٹکائے جانے والے مسلمانوں میں اور ایک بات ہے۔ ان سب کے پاس سیاسی حمایت کی کمی ہے”۔میں اتفاق کرتا ہوں اور اس وجہ سے میں سوچتا ہوں کہ میمن کو پھانسی دے دی جائے گی۔

مسلمان بابری مسجد کی شہادت کا غم منابھی نہیں پائے تھے کہ ملک گیر سطح پر مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ فسادات برپا کرکے نہ صرف مسلمانوں کو قتل کیا گیا بلکہ مالی طور پر بدتر کرنے کے لئے دکانوں، مکانوں اور تجارتی اداروں کو آگ کے حوالے کردیاتھا۔ ممبئی میں تو دو مرحلوں میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ پہلا مرحلہ7 دسمبر سے 27 دسمبر1992 تک چلا تھا اور فساد کا دوسر ا مرحلہ7 جنوری سے 25 جنوری 1993تک چلا تھا۔ اس فساد کو آزادی کے بعد بھیانک ترین فسادات میں شمار کیا جاتاتھا۔ گجرات قتل عام کو چھوڑ دیں تو یہ فساد یقینا منظم طور پر برپا کیاگیا تھا جس میں سیاست، حکومت کے افسران، پولیس اہلکاروں میں کانسٹبل سے ڈی آئی جی رینک کے افسران فسادات میں ملوث پائے گئے تھے جس کا ذکر شری کرشن انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں بھی موجود ہے۔ ممبئی فسادات کے دوران شیو سینا، بی جے پی اور آرایس ایس کے کارکنوں نے مسلمانوں کی جان و مال عزت و آبرو سے جم کر کھیلواڑ کیا تھا۔ ممبئی ایسا شہر بن گیا تھا جہاں پر کئی اسپتال نے مسلمانوں کا علاج کرنے سے منع کردیا تھا۔ان اسپتالوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی پھر بھی ہم شان سے کہتے ہیں ہمارا ملک کثیر جمہوری ملک ہے۔ممبئی کا فساد کس قدر یکطرقہ اور حکومتی اہلکار کے زیر سرپرستی انجام دیا گیا ۔ اس پر پوری دنیامیں آواز گونجی تھی۔ تمام انسانی حقوق کی تنظیموں نے حکومت سے انصاف کرنے کی گزارش کی تھی۔ 6 دسمبر 2002 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بابری مسجد کی شہادت کی دسویں برسی پر شری کرشن انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو نافذ کرنے کی حکومت مہاراشٹر سے اپیل کی تھی اور کہا تھا کہ 1998میں رپورٹ کی پیشی کے باوجود ابھی تک حکومت نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔1788 افراد اس فساد ہلاک ہوئے تھے۔

بی جے پی اور شیو سینا کی حکومت نے اس کمیشن کو توڑ دیا تھا جب کہ کانگریس اور این سی پی حکومت نے اپنی آنکھیں موند لی ہیں۔ کانگریس کی قیادت والی مہاراشٹر حکومت کی کبھی خواہش ہی نہیں رہی کہ ممبئی فسادات کے خاطیوں کو سزا دی جائے۔ اس کی نیت کا پتہ اس کی اس عرضی سے چلتا ہے جو انہوں نے سپریم کورٹ میں داخل کی تھی۔ مہاراشتر حکومت نے 24نومبر 2002کو سپریم کورٹ سے 1993 کے ممبئی بم دھماکے سے تعلق شری کرشن انکوائری کمیشن کی رپورٹ اس بنیاد پر مسترد کئے جانے کی اپیل کی تھی کہ اس واقعہ کو طویل عرصہ ہوگیا ہے اور اس سے نیا تنازع پیدا ہوسکتا ہے۔رپورٹ میں فسادات کے لئے پولیس افسران اور اس وقت کی شیو سینا ۔بی جے پی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ مہاراشٹر حکومت کے وکیل اشوک دیسائی نے اس وقت کے چیف جسٹس جے بی پٹنائک، جسٹس کے جی بالا کرشنن اور جسٹس ایس بی سنہا کی ڈویژن کے سامنے کمیشن کی رپورٹ کو نافذ کرنے کے لئے دائر کی گئی مختلف عرضیوں کی سماعت کے دوران یہ اپیل کی تھی۔مہاراشٹر حکومت نے ممبئی بم دھماکہ کے بارے میں یہ بات کیوں نہیں کہی تھی۔ممبئی فسادات کے دوران شیو سینا ایم پی مدھوکر سرپوتدار کو اسلحہ کے ساتھ فوج نے گرفتار کیا گیا تھالیکن اس کا بال باکا نہیںہوا۔ سنجے دت کو سزا ملی لیکن سرپوتدار کو ایک دیگر پارٹی ورکر کے ساتھ بہت شور مچانے کے بعد بہ مشکل 10جولائی 2008 کو ایک سال کی سزا ملی تھی سزا ملتے ہی انہیں ضمانت پر رہا کردیاگیا تھا۔ یہ ہے انصاف کرنے کا حکومت کا پیمانہ۔اسے امتیاز ، تعصب اور دوہرا معیار نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے۔جس طرح کے حالات پیدا کئے جارہے ہیں اور خوف و ہراس کا ماحول گھنے سیاہ بادل کی طرح چھا رہا ہے اس میں کسی انصاف کی توقع کرنا عبث ہے۔ اس کا جواب صرف سیاسی عزم سے دیا جاسکتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کے انتشار و افتراق اور مسلکی اختلافات نے مسلمانوں کو کسی لائق نہیں رکھا۔کسی مذہبی پروگرام لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوجائیں گے لیکن کسی ظلم ، ناانصافی اور حقوق کے لئے کبھی اکٹھے نہیں ہوں گے۔

اس طرح میں حالات میں مسلمانوں کے ساتھ برا نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا۔ اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستانی جمہوریت کے سارے ستون زعفرانی رنگ میں سرابور ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ آج میڈیا بڑے زور شور سے چلا رہا ہے بمبئی بم دھماکوں کے گناہ گار کو پھانسی دی جائے لیکن یہ چلاتے وقت میڈیا کبھی یہ کیوں نہیں کہتا کہ شری کرشنا کمیشن کو نافذ کیا جائے، ممبئی فساد کے خاطیوں کو عبرتناک سزا دی جائے۔ کیا ممبئی فسادات کے دوران قتل ہونے والے مسلمان انسان نہیں تھے۔ کیا ان کے لئے ہندوستان میں کوئی انسانی حقوق نہیں ہے۔ یہاں کا نظام عدل مسلمانوں کے لئے تنگ کیوں ہے؟۔ ہندوستانی جمہوریت کے چاروں ستون مسلمانوں کے لئے زنگ آلود کیوں ہے؟ اتنے بڑے پیمانے پر ناانصافی کرکے یہاں کی حکومت آخر کیا پیغام دینا چاہتی ہے۔ کیا مسلمانوں کو انصاف اور ترقی کے معاملے میں نظر انداز کرکے ملک کو ترقی دی جاسکتی ہے۔اس واقعہ پوری دنیا میںیہی پیغام جائے گا کہ یہاں انصاف میں امتیاز برتا جاتاہے۔ اس کے علاوہ یہاں جانچ ایجنسیوں کے وعدے پر بھی بھروسہ نہیں کیا جائے گا۔

Yakub Memon Hanging

Yakub Memon Hanging

یعقوب میمن کی پھانسی کی سزا کا دن جوں جوں کی قریب آرہا ہے اس سے متعلق نئی نئی انکشافات ہورہے ہیں۔ بہت سے قانونی ماہرین پھانسی کی سز پر ہی سوال اٹھارہے ہیں۔یگ موہت چودھری کا کہنا ہے کہ جس قانون کے تحت یعقوب میمن کوپھانسی کی سزا دی گئی ہے اس قانون یعنی ٹاڈا کو ہندوستان کی پارلیمنٹ نے رد کردیا ہے۔اس قانون کے تحت سزا کیسے دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون کو یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ مذکورہ جرم میں مجرم کا کیا رول تھا۔ماہرین تفتیشی ایجنسی کے نئی دہلی سے گرفتار کرنے پر بھی سوال اٹھارہے ہیں کہ یعقوب میمن پاکستان سے نئی دہلی اسٹیشن کیسے پہنچا۔ اگر یعقوب میمن خود سپردگی نہیں کرنے آیا تھا تو وہ پوری فیملی کے ساتھ ہندوستان کیسے آگیا۔ آنجہانی آئی بی افسر مسٹر رمن سنگھ نے 2007میں لکھا تھا جو اس وقت ریڈیف ڈاٹ کام پر شائع کیا گیا ہے۔ اس میں انہوں نے ڈیل کی بات کہی ہے۔جب ڈیل ہوئی تھی تو پھر پھانسی کی سزا کیسے دی گئی۔ عدالت تو ثبوت اور دستاویزات کے مطابق سزا کا تعین کرتی ہے لیکن یہ ذمہ داری تفتیشی ایجنسی پر ہے کہ وہ کیس کو کس طرح پیش کرتی ہے۔ جیل میں یعقوب سے ملاقات کر کے نکلنے والے خاندان والوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یعقوب نے خود یہ بات کہی ہے کہ مجھے اپنے بھائی کے گناہوں کی سزا مل رہی ہے۔خاندان والوں کے مطابق ان سے ہوئی ملاقات میں یعقوب میمن نے کئی راز سے پردہ اٹھایا ہے، جنہیں وہ جلد ہی لوگوں کے سامنے پیش کریں گے۔صحافیوں سے بات کرتے ہوئے خاندان کے ایک رکن نے بتایا کہ یعقوب نے انہیں بتایا کہ سرینڈر کرتے وقت اس وقت کے وزیر داخلہ نے ان کو یقین دلایا تھا کہ انہیں پھانسی نہیں ہوگی۔یعقوب کے خاندان کو نہیں پتہ کہ وہ پھر یعقوب سے مل پائیں گے یا نہیں، لیکن ان کا دعوی ہے کہ ان کے پاس کہنے کے لئے کافی کچھ ہے، جسے وہ جلد ہی سامنے لے آئیں گے. خاندان کے مطابق یعقوب نے ابھی تک امیدیں نہیں چھوڑی ہیں۔اگر یعقوب کو مذہبی بنیاد پر پھانسی پر جلد بازی نہیں کی جارہی ہے تو اس سے پہلے پھانسی کی سزا پانے والوں پھانسی کیوں نہیں دی گئی ہے۔ ممبئی فسادادت میں سے کسی ایک بھی سزا کیوں نہیں دی گئی ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو واضح کرتی ہیں یہاں سزا مذہبی بنیاد دی جاتی ہے۔

ممبئی بم دھماکے ملزمین کو سزا دینے میں کسی کو اعتراض نہیں ہے لیکن اس بات پر اعتراض ضرور ہے ممبئی فسادات کے ملزمین کو بھی سزا دی جانی چاہئے ۔کیا انہیں اس لئے سزا نہیں دی جارہی ہے کہ وہ ہندو ہیں۔ یا فرقہ پرست پارٹیوں سے ان کا تعلق ہے۔ فسادات میں ملوث پولیس افسران کو محض اس لئے سزا نہیں دی گئی کہ اس سے ان کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ٹی وی نیوز چینلز اخبارات میں چلنے والی بحث میں ہر کسی نے بم دھماکے کے متاثرین کے لئے آنسو بہائے لیکن کسی کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ممبئی فسادات متاثرین کے لئے بھی آنسو بہاتے یا ان کے دکھ درد جاننے کی کوشش کرتے ۔ توکیا اس مطلب یہ ہوا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو انسان کے زمرے میں نہیں رکھا جاتا؟۔انصاف بھی ہندو اور مسلمان کا چہرہ دیکھ کر کیا جاتاہے۔ جب کہ ممبئی فسادات کے متاثرین کا درد بم دھماکوں کے متاثرین سے بڑا ہے ۔ اگر انسانی جانوں کا اتلاف ہی کسی بڑے جرم کاپیمانہ ہوتا ہے تو ممبئی فسادات کسی بڑے جرم کے زمرے میں کیوں نہیں آیا محض اس لئے مرنے والا مسلمان تھا۔

تحریر: عابد انور
ڈی۔ 64فلیٹ نمبر 10، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا ، نئی دہلی۔ 110025
abidanwaruni@gmail.com
9810372335