تحریر : عابدہ رحمانی
Abida Rehmaniقاہرہ ایئرپورٹ پر جب جہاز لینڈ ہواتو میں اور میرا بیٹا عاطف کچھ گومگو کے عالم میں تھے۔ مصر کے متعلق بہت کچھ سنا تھا اور بہت کچھ پڑھا تھا لیکن پھر بھی نیا ملک اور نیا شہر۔ چند روز پہلے ہی لکژور Luxor کے مقام پر سیاحوں پر فائرنگ بھی ہو چکی تھی جس سے کئی سیاح ہلاک ہو چکے تھے۔ کئی لوگوں نے منع بھی کیا کہ محفوظ نہیں ہے۔ تو ہم نے کہا محفوظ تو پاکستان بھی نہیں ہے۔ اللہ مالک ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے مصر کے بارے میں کچھ ابتدائی معلومات حاصل کیں اور پھر بھائی فاروق سے جو کہ چند سال پہلے وہاں ہو کر آئے تھےمزید تفصیلات اکٹھی کیں- طیران مصرEgypt Air جس سے ہم سفر کر رہے تھے ان سے پوچھا کہ کچھ پمفلٹ یا بروشر مل جائیں گے لیکن ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ کراچی سے قاہرہ کی پرواز تھی – مصر میں دس دن گزار کر ہمیں عمرے کی ادائیگی کے لئے جا نا تھا اور پھر واپس قاہرہ سے مجھے امریکہ اور بیٹے کو واپس کراچی جا نا تھا – اسے امریکہ کا ویزہ نہ مل سکا تو کافی دل برداشتہ تھا – لیکن مصر اور عمرے کی اپنی کشش تھی– قاہرہ پہنچے اور لاؤنج میں داخل ہوئے تو ہمارے ہم سفر زیادہ تر ٹرانزٹ مسافر تھے۔امیگریشن والے عاطف سے نہ جانے کیا کیا پوچھتے رہے ، مجھے ایک طرف بٹھا دیا تھا -آخر مجھ سے برداشت نہیں ہوا -” بھئی ہم سیاح ہیں – کیوں پریشان کرتے ہو؟” وہ غور سے جائزہ لیتے ہوئے بولا -” میڈم بہت سارے تخریب کار پاکستان سے ہی تربیت پا کر آتے ہیں “ٓ- مصر میں سیاحی کرنے والے اور رکنے والے بس ہم ہی تھے۔ اتنے میں ایک خندہ رو نوجوان نے آگے بڑھ کر اپنا تعارف کرایا۔ میرا نام میگڈ ہے ہم آنے والے سیاحوں کی مدد کرتے ہیں ہوٹل وغیرہ کی اگر آپ کو ضرورت ہو تو بتائیے۔
ہماری کسی ہوٹل میں پہلے سے بکنگ نہیں تھی۔ رات کا وقت تھا اس لیے اس پر بھروسا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس کی جیب کے اوپر اس کی کمپنی کا شناختی کارڈ آویزاں تھا اور اس نے اپنی کمپنی کے چند دیگر افراد سے بھی ملایا۔ ہم نے اسے اپنی ضرورت بتائی تو اس نے ایک ہوٹل دکھانے کو کہا۔” چالیس ڈالر یومیہ ہوں گے آپ لوگ دیکھ لیں اگرپسند آیا۔ شہر کے وسط میں ہے۔” کرنسی کی تبدیلی، امیگریشن اور کسٹمز کے بعد ہم نے اللہ کی ذات کے بعد میگڈ پر بھروسا کیا (اس دوران اس نے اپنے منیجر سے بھی ملایا) ایک وین میں سامان وغیرہ لاد کر اس کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ میگڈ نام سے یوں محسوس ہوا کہ شاید وہ کرسچن ہے لیکن معلوم یہ ہوا کہ مصر میں ج کو گ کہتے ہیں اس لیے ماجد کو میگڈ کہا جاتا ہے حالانکہ لکھتے ج میں ہیں۔ جمال عبدالناصر کو گمال عبدالناصر کہتے ہیں اور جدہ کو گدہ، یہ ایک عام تلفظ ہے۔ کھلی شاہراہوں، فلائی اوورز اور رنگ روڈز سے گاڑی گزر رہی تھی۔ قاہرہ شہر جس کو عروس مشرق بھی کہا جاتا ہے کا منظر قابل دید تھا۔ جن مقامات سے ہم گزر رہے تھے انتہائی صاف ستھرے اور دیدہ زیب دکھائی دے رہے تھے۔یوں بھی یہ سیاحوں کا شہر اور ملک ہے۔ پوری دنیا خاص کر مغربی دنیا کے سیاح تو مصر اور اس کی قدیم تہذیب پر جان دیتے ہیں۔ سیاحت مصر کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن بھی ہے۔ ایک عمومی حساب سے سالانہ دو بلین ڈالر کی آمدنی سیاحت سے ہوتی ہے۔ میگڈ سے ہم مختلف عمارات کا پوچھتے رہے۔ یہ دائیں ہاتھوں پر مملوکوں کے مقبرے اور مساجد ہیں یہ قاہرہ ٹاور ہے۔ جامعہ الازہر اور یہ حسین مسجد ہے۔ حسین مسجد میں حضرت امام حسینؓ کا روضہ مبارک ہے۔ صحیح سے معلوم نہ ہو سکا کہ اتنی دور ان کی تدفین کس طرح ہوئی کسی نے کہا کہ یہاں سر مبارک دفن ہے کسی نے کہا کہ کہ جسم مبارک مدفون ہے۔ مجھے اس پر حیرت ہوئی اس لیے کہ میں سمجھ رہی تھی کہ حضرت امام حسینؓ کا مقبرہ کوفے،دمشق یا بغداد میں ہو گا۔ فائیو سٹار ہوٹلوں کی چمک دمک سے دریائے نیل جھلملا رہا تھا۔ دریائے نیل اور اس سرزمین سے وابستہ کتنی داستانیں چشم تصور سے گزریں۔ اسی نیل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سرکنڈوں کی ٹوکری میں بہتے ہوئے فرعون کے محل میں جا پہنچے۔ اللہ تعالی نے انکی پرورش کا کیا خوب بندوبست کیا– حضرت یوسفؑ ان سے بھی بہت پہلے مصر میں داخل ہوئے اور یوں انکے ساتھ بنی اسرائیل مصر میں وارد ہوئے۔ فرعونوں کا ہزاروں سال کا دور حکومت، تاریخ کے کتنے ادوار، کتنے عروج و زوال اس دریا اور اس سرزمین نے دیکھے ہیں اور سب سے بڑھ کر تو مصر کو ’’تحفہ نیل‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسلئے کہ مصر کی تمام زرخیزی اور زراعت دریاے نیل کی مرہون منت ہیں-ہوٹل پہنچے، کمرہ دیکھا تو انتہائی مناسب معلوم ہوا، کچھ ریٹ کم کرنے کی کوشش کی کیونکہ یہ بات ہم نے گرہ میں باندھ لی تھی کہ مصر میں ہر چیز میں بھاؤ تاؤ ہے لیکن پھر اسی کو غنیمت جان کر بکنگ کر لی۔آہستہ آہستہ ہم پر اعتماد ہوتے گئے کہ ہم ایک محفوظ ملک اور اپنوں کے درمیان ہیں۔
ہمارا ہوٹل چھبیس جولائی سٹریٹ پر تھا۔ یہاں پر سڑکوں اور شہروں کے نام مختلف تاریخوں پر ہیں۔ ایک صنعتی شہر چوبیس اکتوبر کے نام سے ہے اس تاریخ کو مصر اور اسرائیل کی مشہور جنگ ہوئی تھی۔ اگلی صبح ہم نے ایک ٹیکسی کرائے پر لی اور اہرام مصر دیکھنے ’’جیزہ‘‘ گئے جسے مصری گیزا کہتے ہیں۔زبان کا کافی مسئلہ تھا چونکہ ہمیں عربی زبان پر عبور نہیں ہے تھوڑے بہت الفاظ کی شُد بُد ہے ہم انگریزی تو فر فر بولتے اور سیکھتے ہیں لیکن عربی بول چال سے نابلد۔ عربی جانتے ہیں تو بس اتنی کہ قرآن پاکی کی تلاوت کر لی یا نماز ادا کر لی اور دعائیں مانگ لیں۔یہاں کی عام زبان عربی ہے انگریزی بولنے والے لوگ خال خال ملتے ہیں اور جو بولتے ہیں وہ بھی بس کام چلانے والی۔ ڈرائیور کمال سے ہماری گفتگو کچھ انگریزی، کچھ عربی اور باقی اشاروں کی زبان میں ہوتی رہی۔ بڑے اونچے اہرام کے ساتھ چھوٹے دو اور ہیں -بڑا اہرام خوفو کا ، دوسرا بیٹے چیپرسن کا ہے تیسرا چھوٹا اہرام خوفو کے پوتے کا ہے۔ اس کا تاریخی تعین کوئی پانچ ہزار سال قبل مسیح ہے۔ اس پورے علاقے میں کھنڈرات پھیلے ہوئے ہیں۔ مندر، کنوئیں جن میں عام کارکنوں کی لاشیں دفنائی جاتی تھیں یہ سب کچھ ایک وسیع علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ پھر ان سب کے پیش منظر میں ابوالہوال کا مجسمہ جسے یونانی اور انگریز Spinx کہتے ہیں۔ موجود ہے یہ عظیم الجثہ مجسمہ جس کا سر فرعون کا اور جسم شیر کا ہے کافی بلندی پر ہے۔ اس کی مرمت کا کام جاری تھا۔ نیچے ابوالہول کا مندر ہے جو کہ کافی مضبوط ستونوں،سنگ مر مر اور گرینائٹ کے فرش کا ہے۔ کنارے پر ہاتھ منہ دھونے کے لیے اس قسم کے چھوٹے تالاب تھے جس طرح ہمارے ہاں مساجد میں وضو کی جگہ بنائی جاتی ہے۔یہاں پر قدم قدم پر گائیڈ ملتے ہیں جو کہ بخشش حاصل کرنے کی دھن میں سیاحوں کو دم نہیں لینے دیتے۔ کچھ تو پہلے بتا دیتے ہیں کہ وہ گائیڈ ہیں جبکہ دوسرے یونہی ذرا گپ شپ کے لیے آگے بڑھیں گے، کچھ معلومات بہم پہنچا کر پھر ٹپ کا مطالبہ کریں گے۔اس سے یہ اندازہ ہوا کہ دوسرے ممالک میں TIP کا مطالبہ ہمارے ملک سے بھی زیادہ شدید ہے۔ اونٹ، گھوڑے اور تانگے بھی سواری کے لیے دستیاب ہیں۔ ٹانگے کو فرعونوں کی سواری کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ ’’آؤ فرعونوں کی سواری کا مزہ لو‘‘ میڈم آئیں اونٹ کی سواری کر لیں ایک تصویر ہو جائے۔ یہی ان کا ذریعہ معاش ہے۔
ہمارے ساتھ ایک حضرت ہو لیے کہنے لگے ’’میں اس علاقے کا چوکیدار ہوں‘‘ کچھ معلومات بہم پہنچا کر کہنے لگے کہ آپ لوگ مجھے کتنی بخشش دیں گے۔ ہم ان سے بچتے بچاتے اس علاقے کو دیکھتے رہے کافی وسیع علاقے میں پہاڑ کی اترائی تک اثرات اور کھنڈرات پھیلے ہوئے تھے۔دسمبر کی یخ بستہ ہوا میں اونچائی پر بلا کی کاٹ تھی۔ ہواکی تیزی کے ساتھ صحرا کی ریت وہاں پر موجود ہر شخص اورہر چیز پر چھا گئی تھی اور ہر شخص اور ہر چیز اس گرد میں اٹا ہوا لگ رہا تھا۔ یہ اہرام بھی ہزارہا سال سے ان ریتیلی طوفانوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ فرعونوں کے یہ مدفون جن میں ان کے جسموں کی ممیاں بنا کر تمام سازو سامان مال و اسباب کے ساتھ رکھی گئی تھیں کہ جب وہ دوبارہ زندہ ہوکر اٹھیں گے تو انکو کسی چیز کی قلت درپیش نہ ہو-انکے پالتو جانوروں کتوں اور بلیوں کو ممیایا گیا -چوروں نے ان اہرام کو خوب لوٹا — عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ان اہرام کی تعمیر میں ان لاشوں کی حفاظت اور حیات بعدالموت کے لئے کسقدر تیا ریا ں کی گئیں -ان اہرام کا ایک ایک پتھر کئی ٹن وزنی ہے اور تقریبا ایک ہی سائز ہے انکوجس مہارت سے ایک کے اوپر ایک جمایا گیا ہے -آیا اس زمانے میں ایسی مشینیں تھیں اور کیا انسان اتنے طاقتور تھے -فی زمانہ ہم اس معمے میں الجھ جاتے ہیں- داستان گو کہتے ہیں کہ یہ جنات اور دیو کا کام ہے – یہ تعمیرات ابھی بھی ہمارے لیے بیحد دلچسپی اور عبرت کا نمونہ ہیں۔ اس موقع پر انور مسعود کا ایک شعر بہت شدت سے یاد آ رہا ہے۔ ہڑپا کے آثار میں کلچر نکل آیا ہے منوں کے حساب عبرت کی ایک اینٹ میسرنہ آ سکی قرآن پاک میں انتہائی تفصیل سے فراعنہ مصر ، ان کی سفاکی، نافرمانی اور مظالم کو بیان کیا گیا ہے جو کہ اپنی طاقت، دولت اور اقتدار کے نشے میں اتنے دھت ہو جاتے ہیں کہ خود خدائی کا دعویٰ کر بیٹھتے ہیں۔پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آمد، فرعون کو خدائے واحد کی تبلیغ، اس کی ہٹ دھرمی، پھر بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلنا، فرعون کااور آل فرعون کا غرق ہونا۔ اس کے بعد بنی اسرائیل جو کہ ایک پسی ہوئی مغلوب، مظلوم اور مقہورقوم تھی اس کو اللہ نے دنیا کی امامت پرفائز کیا۔ پھر اس کی پے در پے نافرمانیاں۔ اللہ نے پھر امت مسلمہ کو اس عہدے پر سرفراز فرمایا۔ اللہ کا ارشاد ہے کہ زمین میں چلو ، پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کاانجام کیا ہوا۔
ابوالہوال کے مجسمے کے پس منظر میں اہرام کامنظر قابل دید ہے۔ جابجا چھوٹی چھوٹی دکانوں میں پپائرس پہ بنی ہوئی تصویریں بک رہی تھیں پپائرس مصر کا قدیم کاغذ جو کہ فرعونوں کی ہی ایجاد تھا۔ اس کے اوپر فرعونوں کی شبیہات اور اہرام سے متعلق دیگر اشیاء۔ یہ طوطن خامن ہے ، یہ نفریتی ، یہ رامسیس اور یہ نفراتیتی ، ہم رفتہ رفتہ فرعونوں سے شناسا ہو رہے تھے اورکچھ چیزوں کے دام کم کر کے ہم نے خرید لیں۔ مصری بہت ماہر فن کاریگر ہیں اور باتیں کرنے کا فن بھی خوب جانتے ہیں پھر کافی خوش مزاج لوگ ہیں۔ وہاں سے نیچے اترے تو دو رویہ بڑی بڑی دکانیں تھیںPapyerusپپائرس گیلری کابورڈ نظر آیا تو اس میں داخل ہو گئے۔ ہمارے سامنے ایک سٹال پر محمود خان نامی صاحب نے اپنا تعارف کرایا اس نے ایک گلدان میں سجے ہوئے پپائرس کے پودے اور پھول سے ہمیں روشناس کیا اس پھول کی شکل سورج کی کرنوں سے مشابہ تھی جبکہ پھول کی لمبی ڈنڈی ہری تکونی شکل کی تھی پھول سفیدی مائل تھا۔ جس طرح ہمارے ہاں للی Lily کا پھول ہوتا ہے۔ اس ڈنڈی کی تکونی شکل اہرام کی تکون سے مشابہ تھی جبکہ سورج فرعونوں کا دیوتا تھا۔ اسی تکونی ڈنڈی کی پتلی پتلی پرتیں کاٹ کر لوہے کے دو وزنی شکنجوں میں ایک کے اوپر بچھا کر اس طرح دبایا جاتا تھا کہ کچھ عرصے کے بعد وہ ایک دوسرے کے ساتھ چمٹ کر ایک کاغذ کی شکل اختیار رتے پھر اس کو دھوپ میں خشک کیاجاتا اس عمل میں ایک دو دن لگ جاتے۔ آج کل یہ کام کیلے کے پتے سے بھی لیا جاتا ہے۔ اصل پپائرس مہنگا ہے جبکہ کیلے والا قدر سستا اورکمزور ہے۔ فرعونوں کارسم الخط بھی کسی آرٹ سے کم نہیں۔ مختلف قسم کے جانوروں کی تصاویر آڑی ترچھی لکیریں۔ موجود ہ علوم کا بھی کمال دیکھیے کہ اس رسم الخط کو پڑھ بھی لیا گیا ہے اور اس کے معانی و مطالب نکالے گئے ہیں۔ اپنے وقت میں فرعون کافی ترقی یافتہ تھے بلند اور مضبوط عمارات بنانے کے علاوہ دیگرفنون میں بھی بے حد ماہر تھے۔ دنیاوی لحاظ سے بیحد ترقی پانے کے بعد وہ موت کو مسخر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اہرام میں اس قدر زروجواہر ممی کے ساتھ رکھے جاتے تھے کہ بیشتر اہرام میں نقب لگا کر چور اسے اڑا لے جاتے۔ ان اہرام کی تعمیر میں انسانی قوت کا اندازہ لگانا کافی مشکل ہے اس لیے کہ کچھ پتر کئی ٹن وزنی ہیں اور ان کو اتنی بلندی تک پہنچانا کافی مشکل کام لگتا ہے۔ اس گیلری میں پپائرس کی بڑی بڑی شیٹوں پر بہت خوبصورت اور نفیس کام بنا ہوا تھا۔ اس میں پینٹ کیا ہوا اصل پپائرس مہنگا ہے جبکہ ٹاپے والا کیلے کا پپائرس کافی سستا ہے۔ جگہ جگہ لڑکے بالے پپائرس پپائرس کی صدائیں بلند کر رہے تھے اس پر فراعنہ مصر کی اور ان کے دیوی دیوتاؤں کی بھانت بھانت کی تصاویر تھیں ان کو دیکھتے دیکھتے ان کے بارے میں معلومات میں بھی اضافہ ہو گیا۔ یہ نفریتی ہے یہ نفرایتتی، یہ کلوپطرہ ہے اس کے علاوہ طوطعن، خامون، رامیس اور دیگر۔ ہاتھ سے پینٹ کی ہوئی اصلی پپائرس کی تصاویر مہنگی ہیں جبکہ کیلے اور ٹاپے والی کافی سستی ہیں۔ فرعون کو غرق ہوئے اور ان ادوار کو بیتے ہوئے ہزاروں سال گزر چکے ہیں لیکن اول تو ان کے یہ اثار و تعمیرات اور دوئم سیاحوں کا ذوق و شوق ان کو ابھی تک زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ارد گرد کے علاقے میں صحرا نوردی کی تو کچھ شناسائی پیدا ہوئی۔
رات کوآٹھ بجے اس عمارت کی چھت سے لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو Light & Sound Show دیکھاجا سکتا ہے۔ اس کے ٹکٹ فی کس بیس مصری پاؤنڈ تھے۔ مووی اور ویڈیو کیمرےکی الگ الگ سے ادائیگی تھی۔ ٹکٹ لے کر ہم پھر اوپر بڑے اہرام کے پاس آئے۔ یہی اہرام سیاحوں کے لیے کھولا گیا ہے اسے دیکھنے کا یعنی اندر سے دیکھنے کے ٹکٹ لے کر اوپر کی جانب سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دسمبر کی یخ بستہ صحرائی ہوا کی زبردست کاٹ تھی۔ دروازے سے داخل ہو کر ترچھائی میں اوپر کی جانب سیڑھیاں چڑھنی شروع کیں۔ کچھ سیڑھیاں سیدھی چڑھنے کے بعد باقی کمر جھکا کر چڑھنی پڑتی ہے یہ سب کوئی تین سو پچاس سیڑھیاں ہیں۔ اگر کسی کا قد لمبا ہو اور گھٹنوں میں تکلیف ہو تو بس اللہ حافظ۔ ایک جذبے اور لگن سے چڑھائی شروع کی کہ نہ معلوم کس ہوشربا منظر کا سامنا ہو گا۔ اہرام کی مخروطی ساخت کے پیش نظر اوپر کا حصہ تنگ ہوتا جاتا ہے۔ کچھ مغربی سیاح مختلف کتابیں اٹھائے ہوئے ایک ایک پتھرکا جائزہ لے رہے ہیں یہ لوگ حقیقتاً اس قدیم تہذیب کے دیوانے ہیں اور اس کے متعلق مستقل جستجو اور تحقیق کررہے ہیں بلکہ علم کاایک شعبہ Egyptology کے نام سے قائم ہے۔ چڑھنے کی جدوجہد میں پسینے سے شرابور ہو گئی۔ خدا خدا کر کے منزل مقصود پر پہنچے تو ایک چوکور خالی کمرہ اوراس میں گرینائیٹ کا بنا ہوا ایک خالی Sarcophagus سارکوفگیس قبر کی مانند ہوتا ہے۔ یہ بھی پہلے پتھر یا گرینائٹ اور بعد میں تو سونے کے بھی بننے لگے۔ اس کے اندر پھر تابوت ہوتا۔ تابوت میں پھر لکڑی کا یا دھات کا ممی ہی کے جسامت اور سر کی کاٹ وغیرہ کا ایک اور تابوت ہوتا اس کے اوپر مرنے والے کی شکل بنا دی جاتی تھی۔ اور زیورات وغیرہ رکھ دیے جاتے تھے۔ اس میں ممی رکھ دی جاتی تھیں۔ اپنے طورپر ان کے ہاں آخرت اور تدفین کا یہ تصور تھا۔ اتنی محنت اور شدید مشقت کے بعد یہ خالی کمرہ اور یہ تابوت جی چاہ رہا تھا کہ جس نے اسے کھولا ہے اس کو اسی میں بند کیا جائے یا اسکےسر پر مارا جائے لیکن اگر نہ دیکھتے تو شاید افسوس ہوتا۔ عاطف جا کر اس کے اندر لیٹ گیا کہ میری تصویر لے لیں اس کی دیکھا دیکھی دوسرے سیاح بھی باری باری جا کر اس کے اندر لیٹ کر تصویریں کھنچوانے لگے۔ اور یوں ایک دلچسپی پیدا ہو گئی۔ واپسی کا مرحلہ اتنا مشکل نہ تھا راستے میں ایک افریقن امریکن آدھے راستے سے واپس جاتی ہوئی نظر آئیں کہنے لگی ’’میں تو مر جاؤں گی میرا دم گھٹ جائے گا مجھے اس طرح بند جگہوں سے بہت گھبراہٹ ہوتی ہے‘‘ جب میں نے اس کو بتایا کہ اوپر کوئی خاص چیز نہیں ہے تو وہ بےحد خوش ہوئی اور کہنے لگی کہ میں نے صحیح کیا۔
تحریر : عابدہ رحمانی