تحریر: حبیب اللہ
سعودی عرب نے یمن میں پانچ دن کیلئے جنگ بندی کا اعلان کیا اورمتاثرہ شہریوں کیلئے بڑے پیمانے پر امدادی سامان بھیجا گیا ہے ۔عدن کی بندرگاہ پہنچنے والے سب سے بڑے بحری جہازپر 2800 ٹن خوراک کے ایک لاکھ فوڈ پیکٹ شامل ہیں۔ امدادی سامان میں 450 ٹن کھجور، 90 ٹن ادویات اور طبی سامان لایاگیا ہے۔ یہ امدادی سامان عدن کے مختلف علاقوں میں متاثرین تک پہنچایا جائے گا۔سعودی عرب کی جانب سے جنگ سے متاثرہ یمنی عوام کے لیے اب تک کا یہ سب سے بڑا امدادی مشن ہے جسے ”بھلائی کا راستہ” کا نام دیا گیا ہے۔
برادر اسلامی ملک خشکی کے راستے، ہوائی جہازوں اور سمندری راستوں سے یمنی عوام کیلئے بھرپور امداد فراہم کر رہا ہے۔ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد کا ”فیصلہ کن طوفان” نامی آپریشن کامیابی سے جاری ہے۔عرب اتحاد نے صدر منصور ہادی حکومت کی بحالی، حوثی باغیوں کے سعودی سرحدوں پر حملوں اور حرمین شریفین پرقبضہ کی دھمکیوںکے پیش نظراس آپریشن کا آغاز کیا جو پچھلے تین ماہ سے زائد عرصہ سے جاری ہے۔ عدن پر رواں سال مارچ میں حوثیوںنے قبضہ کر لیا تھاجس کے بعد منصور ہادی اور ان کی کابینہ کے بیشتر وزراء کو سعودی عرب پناہ لینا پڑی تھی تاہم عرب ملکوں کی فضائی کارروائیوں کے باعث گذشتہ ہفتے صدر منصور ہادی نے باغیوں کے خلاف پیش قدمی کرتے ہوئے حوثی باغیوں سے یمن کے دوسرے بڑے شہر عدن سے قبضہ چھڑا لیا ہے۔
سعودی عرب کے نائب صدر خالد بحاح نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ایک پیغام میں اس بات کی تصدیق کی کہ ایک ہفتے کی لڑائی کے بعد باغیوں کو شہر سے باہر دھکیل دیا گیاہے۔حوثی باغیوں کے خلاف یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور اب وہاں یمن کی آئینی و قانونی حکومت کی دوبارہ عمل داری قائم ہو گئی ہے۔ یمن میںجاری اس لڑائی کے دوران سعودی فضائیہ کے ہوابازوں کی بہترین کارکردگی دیکھنے میں آئی ہے جنہوں نے فیصلہ کن طوفان آپریشن شروع ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی یمن کا فضائی کنٹرول سنبھال لیا اور پہلے مرحلہ میں ہی باغیوں کے ٹھکانوں پر عین ان مقاما ت پر بمباری کی گئی جہاں کئی حوثی باغی لیڈرموجود تھے جو اتحادی طیاروں کی شیلنگ کا نشانہ بنے اور مارے گئے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یمن میں ان کا انٹیلی جنس کا نظام بھی مربوط و منظم ہے۔ منصور ہادی کی وفادار ملیشیا اور باغیوں کے خلاف حالیہ چند ماہ میں ہونیو الی لڑائی سے اس تاریخی شہر کے ایک بڑے حصے کو نقصان پہنچا ہے اور غذائی بحران پیدا ہو چکا ہے۔
عالمی خوراک پروگرام (ڈبلیوایف پی) کے مطابق اس وقت ایک کروڑ انتیس لاکھ افراد کو خوراک اور دیگر اشیاء کی اشد ضرورت ہے ۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے صدر منصور ہادی نے سعودی عرب سے امداد کی درخواست کی تھی جس پر یہاں پانچ دن کی جنگ بندی کی گئی اورسعودی عرب کے نائب ولی عہد’وزیردفاع شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز نے خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی ہدایات پر یمن کے ساحلی شہر عدن میں امدادی سامان سے لدے مال بردار طیارے مہیا کرنے کا حکم دیا۔ عدن کے ہوائی اڈے کو چار ماہ کے بعد پروازوں کے لیے کھولا گیاہے جس پر سعودی عرب کی شاہی فضائیہ کے ملکیتی طیارے امدادی سامان لیکر وہاں پہنچے ہیں اور اب انسانی ہمدردی کی بنیاد پر وہاں امدادی سامان کی تقسیم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ سعودی عرب کے اس کردار کو مقامی یمنی عوام نے بہت زیادہ سراہا اور خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ حوثی باغی اگرچہ عدن سے پسپا ہو گئے ہیں لیکن علی عبداللہ صالح کی وفادار ملیشیااور باغیوں کی جانب سے خطرات ابھی کم نہیں ہوئے اور وہ مسلسل سعودی سرحدوں پر حملوں کی کوششیں کر رہے ہیں۔
حال ہی میں سعودی عرب کے جنوبی شہر الظہران کی یمن سے متصل راہداری پر یمنی باغیوں کی جانب سے بڑا حملہ کرنے کی کوشش کی گئی جسے سعودی سرحدی فورسز نے بروقت کاروائی کرتے ہوئے ناکام بنا دیا۔العربیہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق علی صالح کی ملیشیا کے دہشت گرد سولہ گاڑیوں کے ہمراہ سرحدی گزرگاہ کی جانب بڑھ رہے تھے کہ سعودی عرب کی سیکیورٹی فورسز نے کنٹرول ٹاورز اور دیگر جدید آلات کی مدد سے ان کی نقل وحرکت کا پتا چلا لیا جس کے بعد ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ باغیوں کے خلاف آپریشن چھ گھنٹے جاری رہا جس میں توپ خانے، ٹینکوں، اپاچی ہیلی کاپٹروں اور جنگی طیاروں نے حصہ لیا۔باغی فوج نے ان گاڑیوں کے ذریعے راکٹوں کی بڑی تعداد سرحدی گزرگاہ تک پہنچانے کی کوشش کی ‘ اگر وہ اس مذموم کاوش میں کامیاب ہو جاتے تو شدید تباہی پھیلائی جاسکتی تھی۔ اسی طرح یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ سعودی عرب کی جانب سے یمن میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پانچ روز کے لیے عارضی جنگ بندی کے اعلان کے پہلے ہی گھنٹے میں یمنی باغیوں نے اس کی خلاف ورزی شروع کردی تھی۔
حوثی باغیوں اور منحرف سابق صدر علی صالح کی وفادار ملیشیا نے جنگ بندی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سعودی عرب کے کئی علاقوں پر دہشت گردانہ حملوں کا منصوبہ تیارکیا تھا تاہم سعودی عرب کے سرحدی علاقوں میں بنے کنٹرول رومز اور دیگر انٹیلی جنس ذرائع نے باغیوں کی سعودی عرب پر حملوں کی سازش ناکام بنا دی۔ سعودی عرب کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے مطابق سوموارکی رات بارہ بجے سے حملے روکے جانا تھا۔
ان حملوں کے بند ہونے کے فوری بعد باغیوں نے سعودی عرب کے سرحدی علاقوں اور یمن کے اندر آئینی حکومت کی بحالی میں سرگرم مزاحمتی کمیٹیوں کے مراکز پر راکٹوں سے حملے کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی تاہم دہشت گردوں کی یہ سازش پکڑلی گئی اور اس کی بروقت پیش بندی کا بھی انتظام کرلیا گیا۔ سعودی عرب کی بارڈر سیکیورٹی فورسز نے کنٹرول ٹاورز اور جاسوس طیاروں کی مدد سے حوثی باغیوں اور علی صالح ملیشیا کی اس منصوبہ بندی کا نہ صرف پتا چلا لیا بلکہ اسے ناکام بنانے کے لیے متعلقہ حکام کو مطلع بھی کر دیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جازان اور نجران کے علاقوں میں سعودی سکیورٹی فورسز کو اپاچی ہیلی کاپٹروں کی بھی مدد حاصل ہے اور انہوں نے سرحد پار شدت پسندوں کے مراکز پرحملے بھی کیے ہیں۔ سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد کا یمن میں آپریشن کامیابی سے جاری ہے اور امید کی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس میں مزید ان شاء اللہ بہتری آئے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مسلم ممالک متحد ہو کر سعودی عرب کے ہاتھ مضبوط کریں تاکہ حوثی بغاوت کے فتنہ پر قابو پا کر حرمین شریفین کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
تحریر: حبیب اللہ