تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا
یمن کے حوثی باغیوں پر سعودیہ عرب اور سعودی اتحادیوں کی فوجی یلغار حرمین شریفین کی حفاظت، مکہ مدینہ سے عقیدت و احترام کی وجہ سے ہیں۔اسکو علاقے میں سعودیہ عریبہ کی بالا دستی کی جسارت اقرار نہیں دیا جا سکتا۔ حوثی باغیوں کے خلاف فوجی کاروائی کوفرقہ واردیت کی لڑائی کہنا حماقت ہے۔ یہ سچ ہے کہ اسلامی بردار ملک یمن کے باغی گروپ کا تعلق حوثیوں فرقہ سے ہے ۔ جس نے یمن میں آئینی و قانونی حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اور سعودی عرب پر چڑھائی کا طبل بجا کر سعودی عرب اور سعودی اتحادی کو مکہ مدینہ کی حفاظت کی خاطر (جو ہر مسلمان کی ایمان کا لازمی جز ہے)فوجی کاروائی پر مجبور کر دیا۔
دنیا میں جتنے بھی مہذب ہیں ہم انکو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ نمبر ایک مسلمان ، نمبر دوئم غیر مسلمان ، اور تیسرے نمبر پر منافق لوگ یہ بات تو اعلیٰ درجہ کے مومن سے لیکر ادنیٰ درجہ کے مسلمان بھی جانتا ہے ۔ مقدس مقامات کی زیارت اور حفاظت اسلام میں ایمان کا ایک حصہ ہے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے ؟؟ آخر حوثی گروپ سعودی عرب پر چڑھائی کے خواب کس کے کہنے پر دیکھ رہا تھا؟؟ حرمین شریفین کے خلاف بکواس کیوں بک رہا تھا؟؟ جب یمن کے باغیوں حوثی گروپ نے یمنی حکومت جو قانونی و آئینی تھی کو یرغمار بنا کر پورے یمن پر قبضہ کر لیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو
امریکہ کے سفارت خانے پر قبضہ نہیں کیا۔۔۔۔۔ جس سے امریکی سفارت خانے سے پیار تو ظاہر ہو ہی رہا ہے مگر یہ بات بھی ڈحکی چھپی نہیں رہی کہ۔۔۔ حوثی باغیوں کے پیچھے امریکہ ، کا دست شفقت ہے۔
یہ اور بات ہے کہ امریکہ بہادر نے حوثی باغیوں کو ٹرینیگ اور اسلحہ بھی مہہیا کیا ہوا ہیں۔ یہ امریکہ کی چال ہے جو سعودی عرب سے بھی اپنا اظہار عشق کر رہا ہے اور اسم عشق ادا بھی کر رہا ہے۔ امریکہ کی بات ہو رہی ہے تو مجھے ایک گاؤں کے چوہدری کا واقعہ یاد آگیا ہے۔۔۔
ایک گاوں تھا اس میں ایک بڑے چوہدری صاحب تھے ۔ ایسے ہی جیسے دینا ایک گاوں ہو اورامریکہ ایک گاوں کابڑھا چوہدری۔۔
چوہدری کاایک باغ تھا۔۔ باغ میں آموں کے ہرے بھرے درخت تھے ۔ آموں کا موسم تھا۔۔ گاوں کے لڑکوں نے پروگرام بنایا اور باغ سے آموں کو کھانا شروع کر دیا۔۔ آم کھاتے کھاتے لڑکوں کو بہت مزا آرہا تھا۔لڑکے گپ شپ لگاتے اور آموں کے مزے لوٹ رہے تھے۔۔۔۔ کہ اچانک بڑے چوہدری صاحب نمودار ہوئے ۔۔۔ چیخے۔۔۔ رعب دار نمرودی آواز میں گرجے۔۔۔۔۔۔ چوہدری نے وقت کی نذاکت کو پرکھتے ہوئے سب لڑکوں کے چہروں کو غور سے دیکھا اور دل میں ٹھان لی کہ ان سے آموں کا بدلہ ضرور لیا جائے جب اس نے لڑکوں کی یکجہتی اتحاد کو دیکھا تو جان لیا کہ ان سے ایک ایک کر کے بدلہ لیا جا سکتا ۔۔۔ اگر یہ سارے اسی اتفاق و اتحاد سے میرے ساتھ لڑے تو میری ہڈی پسلی بھی ایک کر دیں گئے اور مجھے جان سے بھی مار دیں گئے۔۔۔
امریکہ کی طرح چوہدری نے بھی اپنی شیطانی چالوں کا جال بچھایا اور بولہ۔۔۔۔ سب لڑے مزے سے آم کھاو ۔۔ گامے موچی کے لڑے کو یہ کہ کر مارنا شروع کردیا کہ عید پر گامے نے میری جوتی نہیں بنائی تھی۔۔۔ وہ مار کھاتا رہا دوست آموں سے لطف انداز ہوتے رہے۔۔۔ جب ادھ مویا ہوا تو اسکو چھوڑرکر دوسرے کو پکڑا اور بولہ تم ناجی درزی کے بیٹے ہو۔۔۔۔ یہ کہ کر اپنا غصہ اس پر نکالنا شروع کر دیا اور کہا میرے بچوں تم آموں کے مزے لو میں درزی کے بچے سے نپٹ لوں۔۔۔۔ ناجی نے میرے کپڑے سلائی نہیں کئے تھے۔۔۔۔ قصہ مختصر۔۔۔ ایک ایک کر کے چوہدری نے سب کی پٹائی کر دی ۔۔۔۔ یہ حال امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ہے وہ بھی ایک ایک کر کے تمام مسلمانوں کے ممالک کو نست و نمود کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ بات کر رہے تھے یمن کے حوثی باغیوں کی جنکے پیچھے اصل ہاتھ امریکہ اور یہودو نصریٰ ہیں۔
یہودی لابی اپنے مکرو فریب کی سہانی چالوں سے حرمین شریفین کے گرد اپنے تین اڈے پہلے ہی قائم کر چکی ہے اور اب اس کا مطلب ۔۔۔ بحر احمر پر قبضہ جمانا ہے ۔کیونکہ بحر احمر کے مشرق کے کنارے دونو عظیم الشان اسلامی مراکز نور و ہدائیت کا منبہ یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ شریف ہیں۔ تاریخ اوراق کی ورق گردانی بتاتی ہے کہ ایک عیسائی بادشاہ ابرہہ نے بحر احمر کو عبور کر کے بیت اللہ شریف پر چڑھائی اور دہشت گردی کی ناپاک کوشش کی تھی۔۔۔ جو قیامت تک عبرت کا نشان بن گیا۔مگر افسوس اسلام کے دشمنوں اور منافقوں نے اس سے کوئی عبرت نہ پکڑی۔
ایک جگہ پڑھا ہے کہ۔۔۔۔ قیامت سے پہلے حبشہ سے جو کافر بیت اللہ شریف پر حملہ آور ہونگے وہ بھی بحر احمر سے گزر کر آئیں گئے۔
اسرائیل کے کئی بار یہ بیان بھی آچکے ہیں کہ وہ بحر احمر کو بحر اسرائیل یا بحر یہود بنا کر رہے گا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سازش ہے جو پہلے عراق کویت۔۔ ایران عراق ۔۔۔ شام افغانستان بحرین۔۔ تمام مسلمان ممالک کو ختم یا کمزور کرنا تا کہ مسلمانوں کا قبلہ کعبہ سعودی عرب کو تین حصوں میں تقسیم کرنا۔۔۔ اور سعودیہ کی تقسیم کا فارمولہ اس وقت تک استعمال نہیں کیا جا سکتا جب تک براہ راست امریکہ سعودیہ عریبیہ میں اتر کر کمانڈ اینڈ کنٹرول نہ حاصل کر لے۔
پالیسی سازوں نے جو منفی سازشوں چالوں کا جال بچھایا ہوا ہے اس کے مطابق۔۔۔ جب ایران یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت میں سعودیہ کو نشانہ بنائے گا تب اسرائیل اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے۔۔ ایران کو نست و نمود کرنے کے لئے حمل کرے گا۔ دوسری طرف روس بھارت ایران کی حمایت کے لئے سعودی عرب پر چڑھائی کر دے گا۔۔۔۔ اور پھر دنیا کا نام نہاد امن کا ٹھیکیدار امریکہ سعودی عرب کی حمایت کے لئے سعودی عرب میں اتر کر اپنا پنجہ جمائے گا۔۔ امریکہ اور اسکے اتحادی سعودی عرب کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں ۔نمبر ایک حصہ منطقہ شرقیہ دمام حفوف اور خطیب کے اہم شہر نمبر دوئم حصہ جدہ ، ریاض اور حجاز وغیرہنمبر تین مکہ مکرمہ اور مدینی شریف کو ملا کر ایک الگ اسٹیٹ بنائی جائے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ امت محمدیہ کو صبر و تعمل کے ساتھ اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی ہوگی۔ سیاسی اور فرقہ واردیت سے بالا تر ہو کر اسلام اور اسلام کے مقدس مقامات ، اور اسلام کے مقدس اثاثہ جات کے تحفظ کے لئے ایک ہونا ہوگا۔ اگر ہم بحثیت مسلم قوم ایک نہ ہوئے تو پھر رسوائی تبائی اور بربادی ہمارامقدرہوگا۔۔
رہا مسلئہ اللہ کے گھر کی حفاظت کی تو وہ ابابیل سے ہاتھیوں کے لشکر تباہ برباد کر دیتا ہے۔ اور اگر اللہ نمرودی افواج سے نمٹنا چاہے تو مچھروں سے دینا کی سپر پاور افواج کونست و نمود کروا دیتا ہیں اس لئے ضرورت اس امر کی ہے حرمین شریفین کی حفاظت بھی کی جائے اور یہود و نصریٰ کی چالوں سے حکمت و دانش مندی سے نمٹا بھی جائے۔
تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا