تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
آج جہاں یمن پر سعودی عرب کے درمیان انتہائی سے زیادہ کشیدہ ہونے والی صُورتِ حال نے دونوں کو آزمائش سے دوچارکردیاہے تو وہیں یقینا عالم ِ اسلام کی پہلی اسلامی ایٹمی ریاست پاکستان کو بھی خانہ کعبہ اور مسجدبنویﷺ والے مُلک سعودی عرب سے اپنے دوستانہ اور برادرانہ تعلقا ت کی بناپر کڑی آزمائشوں اور امتحانات سے دوچارکردیاہے ایک طرف حکومتِ پاکستان سعودی عرب کو درپیش اِس مشکل میں اِس کے شانہ بشانہ کھڑی ہوکر اِس کی ہر قدم اور ہر سانس میں ہر قسم کی مدداو رتعاون کرنے کو تیار اور بیتاب دِکھائی دیتی ہے تووہیں حکومت حامی و مخالف کچھ سیاسی اور مذہبی جماعتیں مسلکی اور فقہی جذبات رکھنے کی وجہ سے حکومت کی اِس قابلِ تسائش و لائقِ احترام خواہش و خواہشات پرکہیں …کھلے تو کہیں…. دبے لفظوں میں اپنے تحفظات کا اظہارکرتی ہوئی بھی نظرآرہی ہیں۔ گو کہ آج سعودی فرماںرواشاہ سلمان سے قریبی اور بھائیوں جیسے تعلقات رکھنے والے ہمارے وزیراعظم نوازشریف موجودہ حالات میں سعودی عرب کی مددکرنے کے لئے ہمہ وقت دل وجان سے تیارہیں تو وہیں اِنہیں اپنے اِس اچھے اقدام پراپنے یہاں اندر سے دبے اور کھلے لفظوں ہونے والی مخالفت سے بھی بہت سے اندشوں اور مخمصوں نے گھیررکھاہے جو اِنہیں کھل کرکوئی فیصلہ کرنے میں مشکل پیداکررہے ہیںابھی وزیراعظم نوازشریف اِس کش مکش میں مبتلاہی تھے کہ سعودی فرماں رواشاہ سلمان کا وزیراعظم نوازشریف کو فون آیااور ہمارے وزیراعظم نوازشریف نے مُلک کی اکثریتی اور پکی و سچی مسلم آبادی کی نمائندگی کرتے ہوئے سعودی فرماں روا شاہ سلمان کی خواہش پر لبیک کہتے ہوئے شاہ سلمان کواِس بات کا یقینادلادیاکہ” سعودی عرب کی سا لمیت کو خطرے کی صورت میں بھرپوردفاع کریں گے اور ہم اپنابھرپورتعاون کریں گے نہ صرف یہ بلکہ ہم اپنی پوری فوجی طاقت کے ساتھ مشکل کی اِس گھڑی میں اپنے دوست اور برادر مُلک سعودی عر ب کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم نوازشریف نے شاہ سلمان کے فون پر اپنی پوری فوجی طاقت کے ساتھ حاضر ہونے کی جو پیشکش کی ہے یہ ایک بہترین اقدام توضرور ہے مگراِس پر ہم یہاں اتناضرورکہیںگے کہ” کیا ہے اچھاہوتاکہ ہمارے وزیراعظم نوازشریف کی پہلے اِس بات کی کوشش ہوتی کہ وہ شاہ سلمان سے مسئلے کو افہام و تفہیم اور امن و سکون سے حل کرانے کی کوششوں کاکہتے اور جب اِس سے کوئی مثبت پیش رفت سامنے نہ آتی تو پھر ہر معاملے کو اُسی طرح حل کرنے میںتعاون کرنے کی یقین دہانی کرادیتے جیساکہ برادر مُلک سعودی عرب چاہتاتھا“۔ بہرکیف …!!دہشت گردی…. دہشت گردی ہی ہوتی ہے جوخواہ مذہب یا فرقہ واریت کے نام پر کی جائے… یا….کسی بھی حوالے سے ہواِس فتنے کو جڑ سے ہی ختم کردینے میں بھلائی ہے اَب دہشت گردطالبان کی شکل میں ہوں …یا…. حوثی باغیوں کی صورت میں ہوں…. یا داعش جیسے دہشت گرد ناسور ہی کیوں نہ ہوں…اِن میں کسی کو بھی کوئی فرق نہیں کرناچاہئے اور دہشت گردی کو دہشت گردی سے ہی گردانناچاہئے اور دہشت گردی جیسے ناسور کو بغیر کسی مسلکی و فقہی جذبات اور لگاو¿ کے جلد قلع قمع کردینے ہی میں بھلائی اور آشتی کا عنصر غالب رہناچاہئے۔ آج ہمارے یہاں جو سیاسی و مذہبی جماعتیں خواہ وہ حکومت کی اتحادی ہوں یا اپوزیشن کی حامی ہوں اِنہیں دہشت گردی کے معاملے میں مذہب اور مسلک کا سہارالے کر دہشت گردو ں کے خلاف سخت اقدام کرنے اور کرانے کے لئے ٹائم نہیں دیناچاہئے۔
بہرحال…!! آج وزیراعظم نوازشریف نے حوثی باغیوں کے خلاف اتحادی فوج کی کارروائیوں کی حمایت کرکے مشکل کی گھڑی میں سعودی عرب کا ساتھ دینے کی جو پیشکش کی ہے آج وزیراعظم نواشریف کے اِس فیصلے کو پاکستان کے خالص مسلمان اسے خوش آئندقراردیتے ہیں اور دُعاگوہیں کہ اللہ اِس فیصلے پر اِنہیں ثابت قدم رکھے اور پاکستان اور اپنے اتحادیوں کی مدد سے سعودی عرب اِس مشکل گھڑی سے جلد نکل جائے اور حوثی باغیوں اور دہشت گردوں کو نشانِ عبرت بنادے۔ اگرچہ اِس سے انکار نہیں کہ یمن کا مسئلہ پرانایا گھمبیر نہیں ہے… یا آج کوئی یہ بھی نہ سمجھے کہ یہ یکدم سے پیداہوکر سامنے آگیاہے..آج جس طرح یمن میں خانہ جنگی ہورہی ہے اَب اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِس کا منفی اثر مشرقی وسطیٰ سمیت دوسرے مسلم ممالک (بشمول پاکستان) میں بھی دیکھنے کو نہ ملے گا۔
اَب اِس ساری صُورتِ حال میں بس یہاں … ضرورت اِس بات کو سمجھنے اور سمجھانے کی ہے کہ عالمِ اسلام کو کسی کا آلہءکار بن کر آپس میں بٹ کر دست وگریباں ہوکراور اپنے جنگی سازوسامان کے علاوہ اپنے دوستوں یا ہم خیال ممالک اور لوگوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکاکر ہنگامی بنیادوں پر جنگی امدادلے کریک دوسرے پر اپنی بھرپورطاقت کا استعمال کرنے کے بجائے اور اپنے ہی بھائی کا سرپھوڑکر اپناتماشہ بنانے… اور اغیارکو خود پر ہنسنے اور مذاق اور طنزکرنے کا موقع فراہم کرنے کے بجائے یہاں ہمیں بس ایک بات اور ایک نقطہ یہ ضرورسوچناچاہئے کہ جس طرح یمن کا مسئلہ گھمبیر ہوکر بھی ابھی تک دبارہااِس فتنے کو ابھی اُسی طرح دبادیاجائے یاپھر ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے سینے چوڑ ے کریں اور سر جوڑ کرفوراََ بیٹھ جائیں اور اِس مسئلے کا فوری اور دیرپاحل نکلیں ہم جو ابھی تک نہیں نکال سکے ہیں آج ہماری اِس کمزوری کافائدہ ہمارے دُشمنوں نے دونوں کو اپنے اپنے گھناو¿نے عزائم کی تکمیل کے خاطر استعمال کرکے نکالناچاہ رہے ہیں۔
اَب چونکہ اِسی میں اُمتِ مسلمہ اور عالمِ اسلام کی بہتری اور اُمیدکی کرن موجود ہے ہم اپنے موجودہ مسئلے کا حل خود نکالیں اور آئندہ وقتوں میں آنے گھمسان کے رن سے محفوظ رہیں اوراگرپھربھی کسی بدگمانی اور خوش فہمی کی وجہ سے موجودہ حالات میں ہم نے آپس کے اِس مسئلے کا حل خود سے نہ نکلایاموجودہ ساری صُورتِ حال میں ہم افہام وتفہیم اور خندہ پیشانی سے کام لیتے ہوئے کسی نتیجے پر نہ پہنچ پائے تو پھر آج ہمیں اِس بات کا سوفیصدیقین کرلیناچاہئے کہ اَب اُمتِ مسلمہ کی ملی یکجہتی اور اتحاد ویگانگت کا وہ شیرازہ جس پرعالم اسلام کو فخر اور ناز تھا اِسے بکھیرنے سے کوئی نہیںروک پائے گا موجودہ لمحات میں یمن کی تیزی سے بگڑی صُورتِ حال اِس جانب واضح اشارہ دے رہی ہے اور ہمیں اِس کے لئے بھی تیاررہناچاہئے کہ آج اگر ہم نے انتہائی ہوش مندی اور دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یمن کی بگڑی ہوئی صُورتِ حال اور وہاں پیداہونے والی خانہ جنگی کو طاقت کے بیجااستعمال کے بجائے مثبت ٹیبل ٹاک اور بامقصدمذاکرات سے نہ کنٹرول کیاتو بہت جلد یمن کی آگ مشرقی وسطی سے نکل کر پورے عالمِ اسلام کو اپنی لپٹ میں لے لے گی اور یوںجب ہم اپنا سب کچھ لٹاکر تباہ وبربادکرچکے ہوںگے تب ہمیں ہوش آئے گاتو اُس وقت ہمارے ہاتھ میںسوائے افسوس اور ندامت کہ کچھ نہیں ہوگا۔ اِس موقع پر ہمیں یہ ضرورت سوچنااور غورکرناچاہئے کہ آج یمن کی دبی ہوئی چنگاری کو جس طرح ہوادے کر شعلہ بناکر پیش کیاگیاہے اوریمن کو خانہ جنگی کی دلدل میں دھکیلا گیاہے اِس ساری صُورتِ حال سے یہ اندازہ لگاناکوئی مشکل نہیں رہاہے کہ یمن کو خانہ جنگی کی نظرکرکے اسلام دُشمن قوتیں اُمتِ مُسلمہ کو پستی اور ندامت کے کس مقام پر پہنچا کر اِس کا کیساحشر کرناچاہتی ہیں آج ہمیں اِس نقطے پر بھی غوروفکرکرناہوگا۔
اَب جب کہ عالمی امن کو تباہ وبرباد کردینے والی عالمی سُپرطاقتیںیمن کے مسئلے کو اُبھارکر اپنے مقاصدحاصل کرنے کے لئے کمربستہ ہوگئی ہیں تو ایسے میں بالخصوص یمن و سعودی عرب اور اُمتِ مُسلمہ کو جوش کے بجائے ہوش سے کام لینے اور یورپ و امریکااور اسرائیل و ایران کی اُس سازش کو سمجھناچاہئے کہ یہ سب آپس میں گٹھ جوڑکرکے کھلم کھلا اور واضح طور پر مُسلمہ اُمہ میں سُنی اورشیعہ دوعلیحدہ علیحدہ اور مضبوط بلاکس تیارکرکے عالمِ اسلام کو فرقہ واریت کی ایک ایسی نہ ختم ہونے والی جنگ میں جھونک دیناچاہتے ہیں جو گلی کوچوں سے نکل کراَب ساری دنیا میں دومضبوط بلاکوں(سُنی اور شیعہ) کے درمیان لڑی جائے گی پھر یہی چھوٹی چھوٹی لڑائیاں بڑھتے بڑھتے عالمِ اسلام کی طاقت کو کمزورکردےںگی پھر جو بچے گا…اِسے یورپ و امریکااور اسرائیل اتحادبناکر اُس پر چڑھائی کردیںگے اور یوں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تیسری اور آخری عالمی جنگ یا صلیبی جنگ شروع ہوجائے گی اور ساری دنیانیست نابود ہوجانے کے قریب ہوجائے گی قبل اِس کے کہ ایسی کوئی نوبت آئے ہمیں یورپ و امریکااور اسرائیل و ایران کے حوثی باغیوں، طالبان اور داعش اور اِن جیسے مزیدآنے والے دہشت گردوں اور فتنوں اور سازشوں کو سمجھناچاہئے اور اِن بدبختوںسے آنے والی دہشت گردی اور ہولناکیوں سے بچنے کا سامان کرنا چاہئے۔
محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com