دنیا کی ہر زبان میں انسانی ہمدردی‘ اخلاقیات اور خدمت خلق کے حوالے سے ایسے جملے‘ اشعار‘ کہاوتیں اور اقوال پائے جاتے ہیں جن کا مفہوم الفاظ کے معمولی سے الٹ پھیر سے قطع نظر کم و بیش ایک جیسا ہی ہوتا ہے، مثال کے طور پر رحم‘ ایثار‘ قربانی اور بے سہاروں کی دستگیری ایسے موضوعات ہیں کہ کسی بھی زبان یا تہذیب کا دروازہ کھٹکھٹائیے، جواب ہمیشہ کسی مانوس آواز ہی میں ملے گا۔ جدید ٹیکنالوجی اور خاص طور پر انفرمیشن ٹیکنالوجی میں ہونے والی حیرت انگیز اور بعض صورتوں میں ناقابل یقین ترقی نے زمان و مکان‘ فاصلے اور چشم و گوش کی حسیات کے دائرہ عمل کو اس حد تک وسیع اور ہمہ جہت کر دیا ہے کہ اب ہزاروں میل کے فاصلے پر بیٹھے لوگ پلک جھپکنے کے وقفے میں وہ کچھ دیکھ اور سن رہے ہوتے ہیں جس کی بعض تفصیلات کا پتہ متعلقہ منظر میں شامل اور موقعے پر موجود کرداروں کو بھی ٹھیک سے نہیں ہوتا۔ آگ کیلی فورنیا کے جنگلات میں لگتی ہے اور اس کی تپش ایشیاء‘ افریقہ‘ یورپ‘ آسٹریلیا اور قطبین کے باسیوں کو اپنے ہاتھوں کے فاصلے پر محسوس ہوتی ہے۔ اعدادوشمار ہمیں ایک سیکنڈ میں بتا دیتے ہیں کہ اس وقت کہاں کہاں کتنے انسان بھوک سے مر رہے ہیں اور کس کس جگہ پر وافر اناج کو ضایع کرنے کے لیے کیا کیا منصوبہ بندی ہو رہی ہے؟
یوں تو کہنے کو ہر فلسفہ اور نظام حیات انسان کے بنیادی اور پیدائشی حقوق‘ تعلیم‘ صحت‘ چھت‘ ترقی کے مساوی مواقع اور معاشرتی انصاف کی بات کرتا ہے لیکن عملی طور پر پسماندہ اور ترقی پذیر معاشرے تو ایک طرف رہے خود سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ان کی مکمل ضمانت کا کوئی فول پروف انتظام نہیں ہے۔ کرہ ارض پر موجود اور معدوم قوموں اور تہذیبوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اس کے بیشتر حصے میں عام آدمی کی زندگی جنگلوں میں بسنے والے ان چھوٹے جانوروں سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتی جن کا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہوتا ہے اور جن کی عمر کی طوالت کا انحصار بڑے جانوروں یعنی حاکم طبقوں کی بھوک‘ ضرورت یا توجہ سے مربوط ہوتا ہے اور جن کی محنت یا صلاحیت کی اجرت انھیں ان کے حق کے بجائے بھیک یا بخشش کی صورت میں دی جاتی ہے لیکن اس تصویر کا ایک دوسرا رخ جس کی جھلک ہمیں مذہب‘ روحانیت اور مساوات انسانی کے موہوم سے تصور میں کہیں کہیں دکھائی دیتی ہے ایسا بھی ہے جسے دیکھنے اور سمجھنے کے لیے اس قادر مطلق اور خالق کائنات کو دل و جان سے تسلیم کرنا ضروری ہے جس کی منشا اور ارادے سے یہ سارا کھیل جاری و ساری ہے کہ اس ایمان کے بعد ہی وہ سارے راستے کھولتے ہیں ۔
جن کا نہ صرف رخ روشنی کی طرف ہے بلکہ جن پر چلنے سے زندگی اور موت دونوں کے معنی بدل جاتے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کا ظہور کب‘ کیوں‘ کہاں اور کیسے ہوا‘ اس کی تفصیل اور نوعیت کی بحث سے قطع نظر یہ بات اپنی جگہ پر ایک حقیقت ٹھہرتی ہے کہ انسانی مخلوق ایک معین طریقہ کار سے گزر کر نہ صرف وجود میں آتی ہے بلکہ اس سلسلے کو آگے بڑھانے میں خود زنجیر کی اگلی کڑی کا رول ادا کرنے لگ جاتی ہے اور پھراسی مخصوص اونر شپ سے وہ سب رشتے نمو پاتے ہیں جن سے ولایت خاندان‘ نسل اور محرمات کا تعین ہوتا ہے اور یوں معاشرے کا وہ تصور جنم لیتا ہے جس کی وجہ سے انسان باقی کی تمام مخلوقات سے مختلف اور منفرد نظر آتا ہے۔
سب سے اہم شعبہ جس کی طرف فوراً نظر جاتی ہے‘ ان بچوں کا ہے جن کے سروں سے والدین بالخصوص والد کا سایہ اٹھ جاتا ہے اور کوئی ان کی دست گیری کرنے والا نہیں ہوتا ۔گزشتہ کچھ برسوں میں مجھے تعلیم کے حوالے سے کچھ رفاحی اداروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے اور میں ان کے ساتھ ملک کے اندر اور باہر مختلف فنڈ ریزنگ پروگراموں میں شامل بھی ہوتا رہتا ہوں اور میں نے محسوس کیا ہے کہ غربت‘ جہالت اور تعلیم کے ضمن میں حکومتی اداروں کی بے حسی اور روز افزوں کاروباری ذہنیت نے لاکھوں کروڑوں بچوں کو اپنے اس بنیادی حق سے محروم کر رکھا ہے اور سب سے زیادہ ظلم یتیم بچوں کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے کہ ان کے پیچھے ہی نہیں آگے بھی اندھیرا ہے۔ الفلاح اسکالر شپ اسکیم‘ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ اور الخدمت فاؤنڈیشن کے خصوصی طور پر یتیم بچوںکے لیے بنائے گئے ’’آغوش‘‘ گھروں سمیت کئی دیگر چھوٹے بڑے ادارے ان یتامی کی کفالت اور تعلیم کے لیے بہت محنت‘ تسلسل اور سلیقے سے کام کر رہے ہیں مگر یہ مسئلہ اتنا بڑا اور گمبھیر ہے کہ اس پر جنتی بھی توجہ دی جائے وہ کم ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے شارجہ سے برادرم سعید انور حیات اور دبئی سے عزیز دوست رزاق سندھو مسلسل رابطے میں تھے کہ دونوں نے پاکستان میں اپنے احباب سے مل کر یتیم بچوں کی کفالت اور تعلیم کے لیے باقاعدہ ادارے بنا رکھے ہیں اور اس ضمن میں میری مدد اور مشورے کے خواہش مند تھے جس کے لیے میں نے دونوں سے وعدہ کر رکھا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ ایک وعدہ وفا کرنے کا موقع گزشتہ اتوار کو مل گیا اور میں نے ’’جنت الفردوس ٹرسٹ‘‘ کے منتظمین اور بچوں کے ساتھ رائے ونڈ روڈ پر علی رضا آباد میں ایک بہت معیاری یتیم خانے میں کچھ وقت گزارا جسے میں اپنی خوش بختی تصور کرتا ہوں کہ یتیموں سے محبت اور رفاقت اللہ اور اس کے رسولؐ دونوں کو بہت پسند اورمحبوب ہے۔
’’جنت الفردوس ٹرسٹ‘‘ کا آغاز 2004 میں انگلستان میں مقیم ایک صاحب دل خاتون شمیم محمود نے قلعہ گوجر سنگھ لاہور میں ایک چار مرلے پر مشتمل چھوٹی سی عمارت سے کیا جس میں دس بارہ یتیم بچیوں کی رہائش اور تعلیم کا انتظام کیا گیا۔ تیرہ برس کی قلیل مدت میں اب یہ ٹرسٹ پاکستان کے مختلف حصوں میں پانچ مقامات پر یتیم خانے‘ اسکول سیلاب میں تباہ شدہ گھروں کی تعمیر نو‘ صاف پانی کے پمپ اور 200 سے زیادہ یتیم بچیوں کی شادیوں کے اخراجات سمیت تقریباً ایک ہزار یتیم بچوں کی تعلیم اور کفالت کی ذمے داری نبھا رہا ہے۔ لاہور کے علاقے علی رضا آباد میں تعمیر کردہ جنت الفردوس کیمپس میں فی الوقت 42یتیم بچے اور بچیاں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز کے برابر خصوصیات کے ساتھ نہ صرف رہائش پذیر ہیں بلکہ ادارہ ان کو اچھے انگلش میڈیم اداروں میں تعلیم بھی دلوا رہا ہے۔ بچوں اور بچیوں کے علیحدہ علیحدہ بلاکس میں ڈائننگ روم‘ لائبریری‘ کمپیوٹر لیب‘ بستر‘ الماریوں‘ کتابوں‘ کپڑوں اور کھانے سمیت اسپورٹس اور تفریحی ٹورز کا انتظام بھی کیا گیا ہے اور ہر موسم کی مطلوبہ سہولتیں بھی مہیا کی گئی ہیں۔ سابق پرنسپل اور ماہر تعلیم ڈاکٹر شاہدہ خورشید اور ڈائریکٹر ایڈمن محترمہ صائمہ محسن کے علاوہ بورڈ کے کچھ ٹرسٹیز سے بھی ملاقات رہی جب کہ اس سارے انتظام میں رزاق سندھو ہر قدم پر ساتھ تھے۔ انھوں نے بتایا کہ بہت سے نوجوان بطور والنٹیرز ہی اس مشن میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں جن میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اسی ادارے کی مدد سے اب اپنے پاؤں پرکھڑے ہو چکے ہیں۔ یہاں قیام کے دو تین گھنٹوں میں علامہ صاحب کے اس مصرعے کی طرف بار بار دھیان گیا کہ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اب کریم ان بچوں اور ان کی کفالت کرنے والے تمام نیک دل لوگوں پر اپنا خاص فضل فرمائے اور ہم سب کو بھی توفیق دے کہ ہاں بھلا کر ترا بھلا ہو گا کہ اس رمز لطیف کو سمجھ اور سمجھا سکیں۔