نام حسین اور شبیر رکھا۔آپ کی کنیت ابوعبداﷲ اور سبط رسول اﷲ ہے۔آپ کو بھی آپ کے بڑے بھائی امام حسن ؓکی طرح جنتی نوجوانوں کا سردار بنایا گیا ۔آپ کو اپنے ان دونوں نواسوں سے بے انتہا محبت تھی۔آپ انہیں اپنے گلدستے کہتے تھے۔
آپ کی ولادت کے ساتھ ہی آپ کی شہادت کی خبر بھی آنحضور ﷺکو مل چکی تھی کہ آپ کے فرزند حسین ؓزمین طف میں شہید کئے جائیں گے اور یہ اس مقتل کی خاک ہے جہاں وہ شہید کئے جائیں گے طف کوفہ کے قریب ایک مقام کانام ہے جسے کربلا کہتے ہیں اس طرح سب کو معلوم ہوگیا کہ آپ کا مشہد کر بلا ہے۔حضرت امام حسین ؓبڑے ہوتے گئے جذبہ جانثاری میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا یہ شہادت کا کمال ہے ایسا اعلان ہوا کہ اپنے پرائے سب جان گئے مقام سے آگاہ ہوگئے حق کا طالب مولا کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہے کبھی وحشت پریشانی اس کے قریب نہیں آئی کبھی اس مصیبت سے خلاصی کی دعا نہیں کرتا انتظار کی ساعتیں شوق سے گزارتا ہے۔یزید بہت تند خو،فاسق ،شرابی،بدکار،گستاح اور بے دین تھا۔اس نے تخت پر بیٹھتے ہی اطراف کے ممالک میں اپنی بیعت کے لیے مکتوب روانہ کئے۔مدینہ منورہ کا عامل جب بیعت کے لئے حضرت امام حسین ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس کے فسق وظلم کی بنا پر بیعت سے انکار کردیا۔اما م حسین ؓنے اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیا اور بیعت سے انکار کر دیا اور اسی شب ہی آپ کو مدینہ سے مکہ منتقل ہونا پڑا ۔یہ واقعہ 4شعبان 60ھ کا ہے ۔مدینہ سے ہجرت کرنا آپ کے لئے نہایت ہی غم واندوہ کا باعث تھا۔یزید کی بیعت صرف اہل شام نے جہاں وہ تخت نشین تھا کی۔اہل کوفہ حضرت امام حسین ؓ کو اپنے ہاں آنے کیلئے درخواستیں بھیج رہے تھے لیکن حضرت امام حسین ؓنے صاف انکار کر دیا۔یزید کی تخت نشینی کے بعد اہل عراق کی تمام جماعتوں نے متفق ہوکر اپنی نیاز مندی عقیدت اور اخلاص کا اظہار کرتے ہوئے آپ پر اپنے جان و مال قربان کرنے کی تمنا کی اور تما م فرقوں کی طرف سے تقریبا”ڈیڑھ سو کے قریب درخواستیں آپ کی خدمت اقدس میں پہنچیں آپ کب تک اغماض برتتے آخر کار آپ نے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیلؓ کو کوفہ کے حالات جاننے کیلئے روانہ کیا اور کوفیوں کو لکھا کہ آپ لوگوں کی درخواست پر مسلم بن عقیل ؓ کو بھیج رہا ہوں اور ان کی نصرت و حمایت تم پر فرض ہے۔اس سفر میں مسلم بن عقیل ؓکے دونوں عمر فرزند محمد اور ابراہیم بھی ان کے ہمراہ تھے۔کوفہ پہنچ کر حضرت مسلم بن عقیلؓ نے مختار بن عبید کے گھر قیام کیا ۔کوفیوں نے نہایت جوش و خروش اور محبت کا اظہار کیا اور تقریبا12ہزار لوگوں نے آپ کے دست مبارک پر حضرت امام حسینؓ کی بیعت کی۔یہ جوش و جذبہ اور محبت دیکھ کر حضرت مسلم بن عقیل ؓنے حضرت امام حسین ؓ کو یہاں کے حالات کی اطلاع دی کہ آپ جلد تشریف لائیں تاکہ حق کی تائید ہو ان دنوں حکومت شام کی جانب سے نعمان بن بشیر کوفہ کے گورنر تھے۔اس معاملے میں انہوں نے کسی قسم کی دست اندازی نہ کی۔یزید حضرمی اور عمارہ بن ولید بن عقبہ نے یزید کو اطلاع دی کہ حضرت مسلم بن عقیل ؓ تشریف لائے ہیں اور اہل کوفہ کے ہزار آدمی ان کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں اور نعمان بن بشیر نے ابھی تک ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔یزید نے یہ اطلا ع پاتے ہی نعمان بن بشیر معزول کر دیا اور عبداﷲ بن زیاد کو کوفہ روانہ کر دیا۔عبداﷲ بن زیاد بہت مکار تھا وہ اپنی فوج کے ساتھ بصرہ روانہ ہوا۔اس نے قادسیہ میں اپنی فوج کو چھوڑ اور خود حجازیوں کا لباس پہن کر مغرب اور عشاء کے درمیان اس راستے سے کوفہ میں داخل ہوا جس راستے سے حجازی قافلے کوفہ میں داخل ہوتے تھے۔اس مکاری سے اس کا مقصد یہ تھا کہ اس وقت اہل کوفہ بہت جوش میں ہیں اور کوفہ میں اس طریقے سے داخل ہونا چاہئے کہ وہ پہچان نہ سکیں اور یہی کچھ ہوا۔جب وہ کوفہ میں داخل ہوا تو لوگوں نے یہی سمجھا کہ حضرت امام حسینؓ کوفہ میں تشریف لے آئے ہیں ۔شب کی تاریکی میں وہ نعرے ہائے مستانہ بلند کرتے مرحبا کہتے ہوئے اس کے گرد جمع ہوگئے۔یہ مردود چلتا تو رہا لیکن مصلحت سے خاموشی اختیار کئے رہا کہ اس کا فریب نہ کھل جائے۔جب وہ دارالاماۃ میں داخل ہوا تو اس وقت لوگوں پر یہ حقیقت کھلی رات گزرنے کے بعد ابن زیاد نے صبح تمام اہل کوفہ کو جمع کیا اور یزید کی مخالفت سے انہیں ڈرایا دھمکایا اور اس طرح مسلم بن عقیلؓ کی جماعت کو منتشر کر دیا۔حضرت مسلم بن عقیل ؓنے بانی بن غزوہ کے مکان میں اقامت فرمائی۔ابن زیاد نے محمد بن اشعت کو ایک دستہ فوج بھیج کر اس کو قید کروالیا اورکوفہ کے عمائدین کو بھی قلعہ میں بند کردیا۔حضرت مسلم بن عقیلؓنے یہ خبر سنی تو انہوں نے ندادی چالیس ہزار کے قریب لوگ آپ ؓ کے گرد جمع ہوگئے اورقصر شاہی کا احاطہ کر لیا۔اگر حضرت اسی وقت حکم دیتے تو اس وقت قلعہ فتح ہوجاتا کیونکہ کوفیوں کی بد عہدی .ابن زیاد کی فریب کاری اور یزید کی عداوت ثابت ہوچکی تھی پھر بھی آپؓ نے لشکر کو حملہ کا حکم نہ دیا کہ مسلمانوں کی خونریزی نہ ہوسکے اور گفتگو سے صلح کی کوئی صورت نکل آئے ۔دشمن نے اس کا فائدہ اٹھایا اور قلعہ میں قیدروسا کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اپنے رشتہ داروں کو مسلم بن عقیلؓ کی حمایت سے باز رکھیں اور ایسا ہی ہوا۔حضرت مسلم بن عقیلؓ کا لشکر منتشر ہوتے ہوئے مغرب کی نماز کے بعد کوئی بھی ان کے ساتھ باقی نہ تھا۔اس مسافر ت میں وہ تنہا رہ گئے طوعہ نامی ایک عورت نے اس لیے آپ کو اپنے گھر میں فروکش کیا لیکن اس کے بیٹے نے کوتوال شہر محمدابن اشعت کو خبر کردی۔وہ مکاری سے ان کو مصالحت کے بہانے عبید اﷲ بن زیاد کے پاس لے کرروانہ ہوا۔تیغ زن دروازے کے دونوں پہلو میں چھپے ہوئے تھے جو نہی وہ دروازے میں داخل ہوئے تلواروں کے وار سے بنی ہاشم کے مظلوم کو شہید کر دیا گیا اور ساتھ ہی ان کے دونوں صاحبزادوں کو بھی تیغ ستم سے شہید کردیا گیا۔اسی روز مکہ سے حضرت امام حسینؓ کوفہ کی طرف روانہ ہوئے صحابہ کرام اس سفر کو ملتوی کرنے کیلئے اصرار کرتے رہے مگر کوفیوں کی درخواست کو رد کرنا اور ان کی دل شکنی آپ ؓ کو گوارہ نہ ہوا اورحضرت امام عالی مقام نے 3ذی الحجہ 60ھ کو اپنے اہل بیعت موالی وخدام کل بہتر نفوس کے ہمراہ عراق کا سفر اختیار کیا آپؓ کو کوفیوں کی بد عہدی اور حضرت مسلم بن عقیلؓ کی شہادت کی خبر ملی تو اس وقت بنو عقیل نے جوش میں آکر کیا خدا کی قسم ہم سر زمین کوفہ کو اس وقت تک نہ چھوڑیں گے جب تک اپنے بھائی مسلم کے خون کا بدلہ نہ لیں گے یہ سن کر امام حسینؓنے واپسی کا ارادہ ترک کر کے سفر جاری رکھا جب کوفہ دو منزل رہ گیا تو یہاں حربن زید ریاحی ایک ہزارمسلح افواج کے ساتھ آپ ؓ کو گرفتار کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ظہر کے وقت آپ نے اذان کا حکم دیا نماز کے بعد آپ دستہ حر کے سامنے لے گئے اور فرمایا؛اے لوگو؛میں تم لوگوں سے معذرت کرتا ہون لیکن میں خود یہاں نہیں آیا بلکہ میرے پاس تمہارے خطوظاور قاصد پہنچے کہ ہمارا کوئی امام نہیں آپ آئیں ممکن ہے کہ آپ کے ذریعے اﷲ ہمیں راہ ہدایت پر لگادے اگر تم لوگ اپنے عہد اور بیعت پر قائم ہوتو میں تمہارے شہر میں داخل ہوں ورنہ یہیں سے واپس چلا جاوں۔حرکے دل میں خاندان نبوت اور اہل بیعت کی عظمت ضرور تھی مگر وہ زیاد کے حکم کے ہاتھوں مجبور تھا جسکی وجہ سے وہ اپنی بات پر اڑارہا یہاں تک کہ حضرت امام حسینؓ کو کوفہ کی راہ سے ہٹا کر کربلا میں نزول فرمانا پڑا۔یہ محرم 61ھ کی دوسری تاریخ تھی۔آپ ؓ نے اس مقام کا نام دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اس مقام کو کربلا کہتے ہیں ابھی خیمہ زن ہی ہوئے تھے کہ حضرت امام حسینؓ کی خدمت میں ابن زیاد کا مکتوب پہنچاجس میں یزیدکی بیعت طلب کی گئی تھی آپ ؓ نے قاصد کو جواب دیا میرے پاس اس خط کا کوئی جواب نہیں اس جواب سے ابن زیاد کا طیش اور زیادہ بڑھ گیا اس نے مزید فوج عمروبن سعد جو گورنر تھا کی سپہ سالاری میں روانہ کر دی۔یہ تمام لوگ حضرت امام حسینؓ کی عظمت وفضیلت کو اچھی طرح پہچانتے تھے اس نے حضرت امام حسینؓ سے مقابلہ سے گریز کرنا چاہا مگر ابن زوزیاد نے اسے مجبور کیا اور حکومت کے لالچ نے اس کو آمادہ کر دیا۔72آدمی عورتیں،بچے سبھی شامل ہیں جن کے پاس نہ سامان حرب ہے نہ ارادہ جنگ ہے ان کے لئے 22ہزار کی جرار فوج مقابلے کے لئے موجود ہے۔7محرم کو فرات کا بے حساب پانی ان سیاہ باطنوں رسالت پر بند کر دیا بھوک و پیاس سے سب سے تاب و ناتواں ہوگئے تین دن گزر گئے مگر مصائب کا ہجوم ان کی عظمت کو متزلزل نہ کرسکا 10محرم تک یہی حجت رہی کہ امام حسینؓ بیعت کر لیں گے مگر آپ نے مسلمانوں کی تباہی و بربادی کو گوارہ نہ کیا اپنا گھر لٹانااور خون بہانا منظور کر لیا مگر اسلام کی عظمت میں فرق آئے یہ آپ ؓ کو برداشت نہ تھا اب امام حسینؓ کو یقین ہوگیا کہ مصالحت کی کوئی صورت باقی نہیں رہی نہ یہ لوگ شہر میں داخل ہونے دیتے ہیں نہ واپس جانے دیتے ہیں نہ ملک چھوڑنے دیتے ہیں اس لئے اب جنگ کو روکنے کا کوئی طریقہ باقی نہیں رہا اس وقت حضرت امام حسینؓ نے اپنے خیموں کے گرد ایک خندق کھودنے کا حکم دیا خندق کھودی گئی اور اس کی صرف ایک راہ رکھی گئی جہاں سے نکل کر دشمن سے مقابلہ کیا جائے۔خندق میں آگ لگا دی گئی تاکہ اہل خیمہ دشمنیوں کی ایذا سے محفوظ رہ سکیں۔10محرم کا قیامت خیز دن طلوع ہوا جمعہ کا دن تھا حضرت امام عالی مقامؓ نے اہل بیعت اور تمام رفقاء کیساتھ فجر کی نماز ادا کی نماز کے بعد اپنے خیمے میں تشریف لائے اہل بیعت تین دن سے بھوک سے نڈھال ایک قطرہ آپ میسر نہیں پھر بے وطنی تیز دھوپ گرم ریت صحرا کی ہوا جو رو جفا کے پہاڑ توڑنے کے لئے سامنے22ہزار کا لشکر مگر عزم وہمت اور پائے استقلال میں لرزش نہیں جنگ کا نقارہ بجا دیا گیا امام حسینؓ نے اس وقت ایک خطبہ بھی ارشاد فرمایا تاکہ حجت تمام رہے پھر جنگ کا آغاز ہوگیا علی المرتضیؓ کے خاندان کے بہادروں نے کربلا کی تشنہ لب زمین کو دشمنوں کے خون سے لالہ زار کر دیا اس طرح خاندان امام حسینؓ کے نوجوان اپنی بہادری کے جوہر دکھا دکھا کر امام ؓ پر قربان ہوتے چلے گئے تمام شہزادے شہید ہوتے چلے گئے اب امامؓ کے سامنے علی اکبر ؓ دشمنوں پر حملہ آور ہوگئے شہزادہ اہل بیعت کا حملہ نہیں عذاب الہی تھا ایک ہی وار میں کئی کئی دیو پیکر گرا دئیے پیاس کی شدت دھوپ کی تمازت اور لشکر جرار نے یک بارگی چاروں طرف سے گھیر لیا تیر کے زخموں نے تن نازنین کوزخموں سے چور کر دیا۔حضرت امام حسین ؓ میدان میں جا پہنچے اور ان کو خیمہ میں لے آئے ان کا سر گود میں ،فرمایا؛آسمان کے دروازے کھلے ہیں،بہشتی حوریں شربت کے جام لئے انتظار کر رہی ہیں؛یہ کہااور جان جان آفریں کے سپرد کر دی اہل بیعت کے قافلے میں سناٹا چھا گیا پھرامام حسینؓ معرکہ جنگ و جدل کے لئے تیار ہوئے عمامہ رسول خدا ﷺ سر پرباندھا مصری قبا پہنی امیر حمزہ کی سپرپشت پر رکھی حیدر کرارؓ کی تلوار حمائل کی اور گھوڑے پر سوار ہوئے۔رضائے الہی پر صابر وشاکر سب کو سپرد خدا کر کے میدان کی طرف رخ کیا۔ایک بار پھر اتمام حجت کیا مگر بے سود ایک ایک مقابل آیا امام نے تیغ خٰون آشام نے سب کا کام تمام کر دیا زمین کربلا کوفہ کے بہادروں اورصف شکنوں کے خون سے سیراب ہوگئی نعشوں کے انبار لگ گئے لشکرمیں شور مچ گیا ہزاروں نوجوان دوڑ پڑے اور حضرت امام حسینؓ کو گھیر کر تیر برسانا شروع کر دئیے گھوڑا زخمی ہوگیا ہر طرف سے تیر آرہے تھے تن ناز پر ور تیروں کے نشانے پر ہے۔نورانی جسم لہولہان ہے ایک تیر پیشانی اقدس پر لگا جو حضور ﷺ کی بوسہ گاہ تھی حضرت ؓ کو چکر آگیا نورانی پیکر خون میں نہا گیا اور آپ ؓ شہید ہو کر زمین پر گر پڑے۔حسینؓ نے حق پر ثابت قدم رہتے ہوئے کس طرح فسق و فجور کا مقابلہ کیا اور آنے والی نسلوں کے لئے عزم وہمت کی بے نظیر مثال قائم کر دی آپؓ یا آپؓ پر آنے والے مصائب کو سن کر چند آنسو بہا لینے سے امام پاکؓ سے سچی محبت ہے تو امام حسینؓ کی پیروی کرتے ہوئے حق صداقت کے پرچم کو بلند کریں اور جس عظیم مقصد کے لئے امام حسینؓ نے اپنا گھر بار جان سب کچھ قربان کر دیا اس کو اپنا مقصد اولین بنا لیں۔