نیویارک: دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا انسان ہو جسے ہمیشہ زندہ رہنے کی خواہش نہ ہو۔ اب اسی خواہش کے پیش نظر امیر کبیر لوگ کروڑوں روپیہ ایک ایسے کام پر خرچ کررہے ہیں کہ سن کر آدمی کی سوچ جواب دے جائے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق یہ لوگ مرنے کے بعد اپنا دماغ ہمیشہ کے لیے محفوظ کروا رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب سائنس اتنی ترقی کر جائے گی کہ سائنسدان مصنوعی انسانی جسم بنانے لگیں گے۔ تب ان کا دماغ کسی مصنوعی جسم میں لگا دیا جائے گا اور یہ دوبارہ زندہ ہو جائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق دماغ محفوظ کرنے کا یہ کام امریکی ریاست ایریزونا کے شہر سکاٹس ڈیل میں واقع ’ایلکر لائف ایکسٹینشن فاؤنڈیشن‘ کر رہی ہے۔ وہ ان امراء سے صرف دماغ محفوظ کرانے کے عوض 80 ہزار پاؤنڈ (تقریباً 1 کروڑ ساڑھے 26 لاکھ روپے) جبکہ پورا جسم محفوظ کرانے کے عوض 2لاکھ پاؤنڈ (تقریباً 3 کروڑ ساڑھے 16 لاکھ روپے) وصول کررہی ہے۔یہ قیمت 200 سال تک دماغ یا جسم محفوظ کرانے کی ہے۔ اس سے زیادہ عرصے تک محفوظ کرانے کے لیے زیادہ رقم ادا کرنی ہو گی۔ اب تک 1100 لوگ فاؤنڈیشن کے پاس رجسٹریشن کروا چکے ہیں۔ ان میں ایسے لوگ شامل ہیں جو کسی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہیں یا عمررسیدہ ہو چکے ہیں۔ تاہم بعد ایسے بھی ہیں جو عمر کی 50 کی دہائی میں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس فاؤنڈیشن کے سائنسدانوں کی 8 رکنی ٹیم کی قیادت برطانوی سائنسدان ڈاکٹر میکس مور کر رہے ہیں، جو لوگوں کے دماغ محفوظ کرنے کا کام کرتے ہیں۔ جب ان کے کلائنٹس میں سے کوئی موت کے قریب پہنچتا ہے تو ٹیم اس کے پاس موجود ہوتی ہے اور 24 گھنٹے الرٹ رہتی ہے۔ جونہی اس شخص کو طبی طور پر مردہ قرار دیا جاتا ہے یہ ٹیم اپنا کام شروع کر دیتی ہے۔ جو لوگ پورا جسم محفوظ کرواتے ہیں انہیں سٹیل کے بنے سلنڈروں میں الٹا رکھا جاتا ہے۔اب تک فاؤنڈیشن 149 لوگوں کے دماغ اور جسم محفوظ کر چکی ہے۔ ان لوگوں میں امریکہ کے بیس بال کے معروف کھلاڑی ٹیڈ ویلیمز بھی شامل ہیں۔
ڈیوڈ نامی 60 سالہ شخص نے بھی فاؤنڈیشن کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’میں جانتا ہوں کہ لوگ مجھے احمق سمجھیں گے لیکن آخر اس کو آزمانے میں کیا برائی ہے۔ اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا تو کچھ نقصان کا بھی تو خطرہ نہیں ہے۔ میرے بچے نہیں ہیں، میں نے شادی بھی نہیں کر رکھی اور اب اس عمر میں بچے ہونے کا امکان بھی نہیں۔ چنانچہ میرے پاس جو دولت ہے اگر اس کا کچھ حصہ اس کام پر خرچ کر دیا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ صرف میرے قریبی رشتہ دار جانتے ہیں کہ میں نے فاؤنڈیشن کی رجسٹریشن حاصل کر رکھی ہے اور انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تمہاری رقم ہے، تم جیسے چاہو خرچ کرو۔‘‘