سعودی ولی عہد کے اس دورے پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں… معاشی استحکام اور خوشحالی کی نوید قوم کو تواتر سے سنائی جا رہی ہے۔ اس دورے کو خوشحالی کی اس منزل کا سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ سنگ میل منزل کا اشارہ تو ضرور ہوتا ہے لیکن منزل کی ضمانت ہرگز نہیں۔ یہ دورہ پہلا اور کوئی انوکھا دورہ نہیں ہے۔ ماضی میں بھی شاہ فیصل وطن عزیز کے تین دورے شاہ فہد چار دورے اور سابق فرمانروا شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز بحیثیت کراؤن پرنس آف سعودی عریبیہ بھی ایک دورہ کر چکے ہیں۔ شاہ عبداﷲ کے تین روزہ دورے کے دوران شہر لاہور کو وفاقی دارالحکومت کا درجہ حاصل رہا۔ اس دوران صوبائی دارالحکومت ملک بھر کے اشرافیہ کا مسکن بھی بنا رہا۔ ان کے اعزاز میں ایک ایسے شاندار عشائیہ کا اہتمام کیا گیا جس میں غیر ملکی سفیروں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ شاہی قلعہ میں اس عشائیے کا اہتمام اور شاہ عبداﷲ کا شایانِ شان استقبال آج بھی یادگار اور ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اسی طرح سابق امریکی صدور بل کلنٹن، جارج ڈبلیو بش اور چینی صدر سمیت دیگر اہم ممالک کے سربراہان بھی پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں اور ہر دورے سے قبل عوام کو یہی بتایا اور سنایا جاتا رہا ہے کہ اب قوم کے دِن پھرنے والے ہیں۔ تجارتی معاہدوں، معاشی استحکام و خوشحالی کی خوشخبریاں سنائی جاتی رہی ہیں… لیکن نتیجہ آپ کے سامنے ہے… ہم آج بھی بیرونی قرضوں اور امداد کیلئے ”دستِ نگر‘‘ ہی ہیں۔
1974ء میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا اعزاز بھی وطنِ عزیز کو حاصل ہوا۔ 37 ممالک کے سربراہان کی میزبانی کوئی معمولی کام نہیں تھا۔ شاہ فیصل، یاسر عرفات، حافظ الاسد، معمر قذافی، شاہ حسن سمیت دیگر اہم اسلامی ممالک کے قد آور سربراہان شہر لاہور میں قیام پذیر رہے ہیں۔ اس اسلامی سربراہی کانفرنس کے غیر معمولی اعلامیے کے بعد کانفرنس کے انتہائی متحرک اور روحِ رواں ارکان کو کن حالات اور نتائج سے دوچار ہونا پڑا‘ یہ ایک الگ داستان ہے؛ تاہم بین الاقوامی شخصیات کا وطن عزیز کے دوروں کو خوشحالی سے مشروط کرنا فی الحال قبل از وقت ہے۔ اچھے لوگوں کا ہماری زندگی میں آنا نعمت خداوندی اور ہمارا نصیب تو ہو سکتا ہے‘ لیکن انہیں سنبھالنا اور ان کا اعتماد بحال رکھنا یقینا ہنرمندی کے زمرے میں آتا ہے۔ بد قسمتی سے ماضی کی تمام حکومتیں اس ہنر مندی سے محرومی کا شکار رہیں۔ اس ملک کی موجودہ صورتحال بالخصوص ”معاشی بد حالی‘‘ اس محرومی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کسی برادر ملک کے سربراہ کی آمد پر میلے ٹھیلے لگا لینا‘ اور اس کا شایانِ شان استقبال کر لینا ہی کافی نہیں‘ بلکہ اس کی آمد کو ملکی مفاد اور استحکام سے مشروط حکمت عملی تیار کر کے ہی مطلوبہ اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ مالی امداد ہو یا قرضے…
انفراسٹرکچر میں معاونت ہو یا کاروباری معاہدے… ان تمام سہولیات کا درست سمت میں استعمال اور ”رائٹ مین فار رائٹ جاب‘‘ کے تصور کے عین مطابق فیصلوں سے ہی خوشحالی کی منزل تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کی آرا جذبات سے عاری اور زمینی حقائق پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان آرا کو نظر انداز کرنا حقیقت پسندی سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔ وطنِ عزیز جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آج کل ”سی پیک‘‘ کے حوالے سے پاکستان دنیا کی توجہ کا مرکز ہے۔ اسے قدرت نے بے شمار ظاہری و پوشیدہ وسائل سے نواز رکھا ہے۔ بد قسمتی سے اُن سے تا حال استفادہ نہیں کیا جا سکا ہے‘ جو ہماری پستی، عدمِ استحکام اور معاشی بد حالی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ برادر اسلامی ممالک کا ”بھائی چارہ‘‘ اور مالی معاونت یقینا ہمارے لیے قابلِ قدر ہے… لیکن عالمی طاقتوں کے مفادات اور ترجیحات کی نا قابلِ تردید اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ ہمارے برادر اسلامی ممالک ان طاقتوں کے اثرات سے باہر نہیں ہیں‘ بلکہ با قاعدہ دباؤ کا شکار ہیں۔ سعودی وسائل اور ہوش ربا مہنگے ترین تحائف کے ”بینی فشری‘‘ اور دنیا کی سب سے بڑی اور مہنگی ترین ہتھیاروں کی ڈیل کرنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے سعودی مہربانوں کے بارے میں کس ڈھٹائی سے کہہ چکے ہیں کہ ”یہ ہمارے بغیر چند ہفتے نہیں نکال سکتے‘‘۔
وطن عزیز کے حوالے سے عالمی طاقتوں کے عزائم اور عناد کے باوجود سعودی عرب کا رویہ اور تعاون مایوسی کے اندھیروں میں امید کی روشن کرن سے کم نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موقعہ کو غنیمت اور نعمت تصور کیا جائے اور اس سے بھر پور استفادہ کرنے کے لئے غیر معمولی صلاحیتوں والے افراد پر مبنی ٹیمیں تشکیل دی جائیں جو سعودی ولی عہد کے اس دورے کو مملکت خدا داد کے حق میں زیادہ سے زیادہ فائدہ مند اور سود مند بنا سکیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عوامی فلاح کے ایسے عملی منصوبے اور ایسی جامع حکمت عملی وضع کی جائے جو آج کی خوش گمانی کو کل کی خوش حالی میں بدل کر رکھ دے۔ اور ہاں خیال رہے کہ ایسی کوئی غلطی یا فیصلہ نہ دہرا یا جائے جس کے نتیجے میں ہمیں بحیثیت قوم بدنامی… شرمندگی… یا جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑے۔ ماضی میں غیر ملکی امداد اور قرضوں کو ”اللوں تللوں‘‘ میں اڑا یا جاتا رہا‘ اور نتیجہ یہ کہ قرض کی قسط اتارنے کے لئے بھی قرضوں پہ قرضے لینے پڑ رہے ہیں… اور قرضے کی قسط تو ایک طرف ان پر واجب الادا سود ہی قوم اور ملک کی جان کا عذاب بن چکا ہے۔ ایسے موقعے بار بار نہیں ملتے۔ اس نادر موقعہ سے فائدہ اٹھا کر سعودی ولی عہد کے دورے کو خوشحالی کی منزل تک پہنچنے کا سنگ میل بنا یا جا سکتا ہے۔ رفتار کی کمی بیشی چل سکتی ہے لیکن ڈرائیور… گاڑی اور منزل کی سمت کے تعین میں کوتاہی منزل پر پہنچانے کے بجائے بھٹکانے کا باعث بن سکتی ہے۔ ویسے بھی ہم 72 برس سے بھٹک ہی تو رہے ہیں ‘کبھی بنام دیں‘ کبھی بنام وطن۔