کراچی میں بلوچ کالونی پولیس اسٹیشن کے ساتھ کسٹم کا ڈائریکٹوریٹ ہے‘ آپ اگر ڈائریکٹوریٹ میں داخل ہوں تو آپ کو گیٹ کے اندر ایک بے یارومدد گار کنٹینر ملے گا‘ یہ بے یارومددگار کنٹینر دنیا کا قیمتی ترین کنٹینرہے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ ہزاروں سال پرانی مورتیوں‘ بتوں اور مجسموں سے بھرا ہوا ہے‘ یہ مورتیاں کسٹم نے مارچ 2013 میں سکھراور حیدرآباد سے پکڑی تھیں۔
پاکستان میں کیونکہ نوادرات کی عمر‘ قدر اور تعلق جانچنے کا کوئی سائنسی طریقہ بھی موجود نہیں اور حکومت آج تک یہ بھی طے نہیں کر سکی ریاستی ادارے اگر نوادرات پکڑلیںتو یہ کس کی تحویل میں دیے جائیں گے اور وہ محکمہ ان کا کیا کرے گا چنانچہ یہ مورتیاں چھ سال سے کراچی میں کنٹینر میں ذلیل ہو رہی ہیں‘ مقدمہ ہائی کورٹ میں ہے اور تین سال سے اس کی کوئی سماعت نہیں ہوئی‘ ذلت کے اس بھنور میں یہ مورتیاں اکیلی نہیں ہیں۔
حکومت کسٹم‘پولیس‘ ایف آئی اے‘ کوسٹ گارڈز‘ رینجرز‘اینٹی کرپشن اور عدالتوں سے ڈیٹا منگوا لے‘ آپ کو ایسے ہزاروں نوادرات مل جائیں گے‘یہ نوادرات اسمگل ہو رہے تھے‘ کسٹم انٹیلی جینس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اطلاع ہوئی اور یہ پکڑ لیے گئے‘ یہ نوادرات اس کے بعد کہاں گئے! کوئی نہیں جانتا۔
پاکستان میں نو سے ساڑھے نو ہزار سال پرانی تہذیب تھی‘ یہ تہذیب مہر گڑھ کہلاتی ہے‘ یہ بلوچستان میں دریائے مہران کے گرد آباد تھی‘ مہر گڑھ سے اب تک ہزاروں نوادرات برآمد ہو چکے ہیں‘یہ اسمگل بھی ہو چکے ہیں‘ ہڑپہ اور موئن جو داڑو کی سولائزیشن مصر اور میسوپوٹیمیا کے بعد دنیا کی قدیم ترین تہذیب تھی‘ یہ لوگ میسوپوٹیمیا اور مصریوں سے زیادہ تہذیب یافتہ تھے‘ کیسے؟ وجہ مٹی کی اینٹیں‘ ڈرینج سسٹم‘ کھیتی باڑی اور نیلا رنگ تھا‘ مصری اور میسو پوٹیمینز پتھروں سے گھر‘ گلیاں اور مندر بناتے تھے‘ وہ صرف گندم‘ کپاس اور چاول اگا سکتے تھے‘ ان کی نالیاں اوپن ہوتی تھیں اور وہ نیلے رنگ سے متعارف نہیں تھے جب کہ موئن جوداڑو اور ہڑپہ کے لوگوں نے نیل کے پودوں سے نیلا رنگ بھی نکال لیا تھا۔
یہ دالیں اور مسالے بھی اگا لیتے تھے اور یہ مٹی سے تین قسم کی پکی اینٹیں بھی بنا لیتے تھے چنانچہ یہ مصریوں اور میسوپوٹیمینز سے آگے کی نسل تھے‘ موئن جو داڑو سے بھی سو سال سے نوادرات نکل رہے ہیں‘ یہ اسمگل ہو کر یورپ پہنچ رہے ہیں اور کروڑوں ڈالروں میں بک رہے ہیں‘ ٹیکسلا اور کٹاس راج بھی نوادرات کی کانیں ہیں‘ پاکستان میں نوادرات کی ٹھیک ٹھاک بلیک مارکیٹ موجود ہے۔
یورپ کے تاجر سفارت کاروں کے ذریعے نوادرات اسمگل کراتے ہیں‘ جعلی کاغذات بناتے ہیں اور عالمی مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں‘ آپ المیہ دیکھئے ہمارے پاس آج کے دور میں بھی نوادرات کی ویلیو اور عمر جانچنے کے لیے کاربن ٹیسٹ کی سہولت موجود نہیں چنانچہ آپ کسٹم‘ پولیس‘ کوسٹ گارڈز اور ایف آئی اے کے کنٹینرز چیک کر لیں یاپھر آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے گودام آپ کو ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں نوادرات ذلیل ہوتے ہوئے مل جائیں گے اور یہ کھربوں روپے کے اثاثے ہیں لیکن ہم ان کے ساتھ وہ سلوک کر رہے ہیں جو اس کمہار نے کیا تھا جس کے صحن سے نولکھا ہار نکل آیا تھا اور اس نے وہ اپنے گدھے کے گلے میں لٹکا دیاتھا۔میں حکومت کو ایک سنجیدہ مشورہ دینا چاہتا ہوں۔
حکومت ملک میں موجود تمام نوادرات کی فہرست تیار کرائے‘مجھے یقین ہے حکومت یہ جان کر حیران رہ جائے گی صرف پشاور کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے گودام میں ٹیکسلا کے پچاس ہزار نوادرات پڑے ہیں اور یہ تمام نوادرات 22 ہزار روپے تنخواہ کے ایک ان پڑھ چوکیدار کے رحم وکرم پر ہیں‘ مہر گڑھ‘ ہڑپہ اور موئن جو داڑو بھی چوکیداروں کا رزق ہیں‘ حکومت فہرستیں بنائے اور اسلام آباد میں چار بڑے اور جدید آرکیالوجی میوزیم بنا کر یہ تمام نوادرات ان میں رکھ دے‘ حکومت اس کے بعد نوادرات کی انٹرنیشنل میڈیا کمپیئن کرے اور دنیا بھر کے شائقین کو پاکستان آنے اور دیکھنے کی دعوت دے‘حکومت اگر سنجیدہ کوشش کرے تو مجھے یقین ہے میوزیمز بنانے کے لیے یونیسکو جیسے ادارے ہمیں فنڈنگ بھی دے دیں گے۔
حکومت ان نوادرات کو پورپین اور امریکی یونیورسٹیوں کے آرکیالوجیکل ڈیپارٹمنٹس کے ساتھ منسلک بھی کر سکتی ہے‘ یونیورسٹیوں کے طالب علم آئیں اور ان پر ریسرچ کریں‘مجھے یقین ہے آپ پوچھیں گے یہ آرکیالوجیکل میوزیم اسلام آباد میں کیوں بنائے جائیں‘ یہ ان آثار قدیمہ کے نزدیک کیوں نہ بنائے جائیں جہاں سے نوادرات برآمد ہوئے تھے‘ اس کی دو وجوہات ہیں‘ مہر گڑھ‘ موئن جو داڑو‘ ہڑپہ اور ٹیکسلا دور بھی ہیں اور وہاں سہولیات کا فقدان بھی ہے‘ موئن جو داڑو میں ہوٹل بھی نہیں ہیں اور ریستوران بھی نہیں اور واش رومز بھی انتہائی ناقص ہیں۔
فلائیٹس بھی نہیں ہیں‘ مہر گڑھ اور ہڑپہ پہنچنا بھی آسان کام نہیں تاہم ٹیکسلا اسلام آباد کے قریب ہے لیکن وہاں بھی عالمی سیاحوں کے لیے سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں لہٰذا اسلام آباد آرکیالوجیکل میوزیم کے لیے بہترین مقام ہے‘ سیاح آسانی سے یہاں آ بھی سکیں گے‘ ہوٹلوں میں قیام بھی کر سکیں گے اور ان کے لیے ٹرانسپورٹ کا ایشو بھی نہیں ہوگا‘ دوسرا پاکستان کی آرکیالوجیکل سائیٹس پر حکومت کی رٹ موجود نہیں‘ آپ ڈیٹا نکلوا کر دیکھ لیں وہاں نوادرات چوری بھی ہوتے ہیں اور سیاحوں کے ساتھ بدسلوکی بھی چنانچہ نوادرات اگر اسلام آباد میں ہوں گے تو یہ محفوظ بھی رہیں گے اور ان پر ریاست کی نظر بھی رہے گی اور ہم اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر ہمارے پاس ایک دوسرا راستہ بھی موجود ہے۔
ہم کسی بین الاقوامی کمپنی سے تمام نوادرات کی عمر‘ قیمت اور مقامِ دریافت کا تعین کرائیں‘ حکومتی سطح پر آکشن ہاؤس بنائیں‘ عالمی مارکیٹ میں اشتہار دیں اور شفاف بولی کے ذریعے یہ تمام نوادرات بیچ دیں یوں ہمیں اربوں ڈالر بھی مل جائیں گے‘ ہم حفاظت کے تردد سے بھی بچ جائیں گے اور عالمی خریداروں کو بھی ہمارے نوادرات چوری اور اسمگل کرانا نہیں پڑیں گے۔
ہم انسان وقت کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں‘ ماضی‘ حال اور مستقبل‘ اگر دنیا کے ہر شخص‘ ہر معاشرے اور ہر تہذیب کا ایک حال ہوتا ہے تو پھر اس کا ماضی بھی ہوتا ہے اور مستقبل بھی‘ ہم ماضی سے کٹ کر زندہ رہ سکتے ہیں لیکن خوش نہیں‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نو ہزار سال کے ماضی سے نواز رکھا ہے‘ امریکا کوشش کر کے مایا اور ان کا سولائزیشن ڈویلپ کر رہا ہے‘ یہ اپنے لوگوں کو اس کے ساتھ جوڑنے کی سعی بھی کر رہا ہے جب کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے نو ہزار سال کی تاریخ دے رکھی ہے لیکن آپ بدقسمتی دیکھئے ہماری نئی نسل اس تاریخ سے واقف تک نہیں‘ ہم ماضی سے کٹے ہوئے لوگ ہیں اور اس کا صرف ایک ہی ذمے دار ہے اور وہ ذمے دار ہے ریاست‘ آپ یاد رکھیں کتا اپنے بچوں کو پالتا ہے‘ شیر اپنے بچوں کی پرورش کرتا ہے جب کہ انسان اپنے بچوں کی تربیت کرتا ہے‘ پالنے‘ پرورش اور تربیت میں کیا فرق ہوتا ہے‘ آپ یہ بھی جانئے‘ پالنا ایک مختصر عمل ہے۔
اس عمل میں جانور اپنے بچوں کو اس وقت ٹھڈا مار کر باہر نکال دیتے ہیں جب ان کے منہ میں دانت آ جاتے ہیں اور وہ خوراک اور مٹی میں تمیز کرلیتے ہیں‘ پرورش نسبتاً لمبا اور شکار کرنے والے جانوروں کا عمل ہے‘ یہ جانور اپنے بچوں کو اس وقت تک سکھاتے رہتے ہیں جب تک یہ شکار اور بچے پیدا کرنے کی عمر تک نہیں پہنچتے جب کہ تربیت اگلی دو نسلوں تک چلتی ہے‘ انسان صرف اپنے یا اپنے بچوں کے بارے میں نہیں سوچتا‘ یہ بچوں کے بچوں کا بندوبست بھی کر کے جاتا ہے‘ہم والدین خاندان کی تربیت کے ذمے دار ہوتے ہیں جب کہ ریاستیں معاشروں کی تربیت کرتی ہیں اور ہماری ریاست تربیت میں فیل ثابت ہو رہی ہے‘ تربیت کے پانچ بڑے اصول ہوتے ہیں‘ تہذیب‘ کلچر‘ قانون‘ کتاب اور کھیل اور ہم ان پانچوں میدانوں میں مار کھا رہے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ ہماری ریاست ان پانچوں شعبوں سے غائب ہے۔
یہ عوام کو اپنی ذمے داری ہی نہیں سمجھتی‘ میری حکومت سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر خود کو جانوروں سے ذرا سا بلند کر لیں‘ آپ تربیت کے موڈ میں آ جائیں اور آپ اس کا آغاز ماضی کے ساتھ کنکشن سے کریں‘ آپ ماضی کو اسکولوں کے سلیبس کا حصہ بنا دیں‘ آپ پہلی جماعت سے لے کر ایم اے تک تمام طالب علموں کے لیے پاکستان کی آرکیالوجیکل سائیٹس‘ میوزیمز‘ دس بڑے مشاہیر کے گھر اور چاروں صوبوں کے دورے لازمی قرار دے دیں‘ آپ بچوں کو پرائمری تک دوسرے اضلاع میں لے کر جائیں‘ ہائی اسکول تک دوسری ڈویژنز کے دورے کرائیں‘ کالج میں پورے صوبے کا وزٹ کرا دیں اور یونیورسٹی میں دوسرے صوبوں کے دورے کرا دیں۔
آپ ایم اے کی ڈگری کوآرکیالوجیکل سائیٹس سے بھی نتھی کر دیں‘ ہمارے طالب علم جب تک پاکستان کی پرانی سولائزیشن کا مطالعہ اور مشاہدہ نہ کر لیں حکومت انھیں ڈگری جاری نہ کرے‘ یہ پروگرام پاکستان میں اندرونی سیاحت بھی بڑھا دے گا‘ ہماری معلومات میں بھی اضافہ ہو گا اور جوہڑ بنتے اس معاشرے میں ہل جل بھی شروع ہو جائے گی‘آپ یقین کیجیے ہمارا ٹیکسلا میوزیم پیرس کے لوومیوزیم اور مصر کے قاہرہ میوزیم کے بعد دنیا کا قیمتی ترین میوزیم ہے اور ہماری موئن جو داڑو جیسی پوری دنیا میں کوئی دوسری آرکیالوجیکل سائیٹ موجود نہیں لیکن ہم میں سے کتنے لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں۔
ہم میں سے کتنے لوگ مہر گڑھ سے واقف ہیں اور کتنے کٹاس راج گئے ہیں؟وزیراعظم یہ سوال کابینہ کے ارکان سے پوچھ لیں یہ چند سیکنڈ میں ملک کی اصل ترجیحات تک پہنچ جائیں گے‘ یہ پاکستان میں سیاحت کے مستقبل سے واقف ہو جائیں گے‘ ہمارے ملک میں اگر کابینہ سیاحتی پوٹینشل سے واقف نہیں ہو گی‘ اگر ہمارے کھربوں روپے کے نوادرات کنٹینروں اور گوداموںمیں ذلیل ہوتے رہیں گے تو پھر ہم خاک ٹورازم بڑھائیں گے‘ ہم سیاحت سے خاک ریونیو کمائیں گے!۔