’’تم نے ہم کو مدرز ڈے پر وِش نہیں کیا، ہم تم سے ناراض ہے۔‘‘ سوات کے دور افتادہ گاؤں کی ایک اَن پڑھ ماں کا اپنے بیٹے سے ٹیلی فونِک شکوہ۔ بیٹا کراچی کا ایک نوعمر نوجوان ہے جو معاش کے سلسلے میں کپڑوں کی دکان پر ملازم ہے۔
کچھ ہی عرصہ قبل امی کےلیے شاپنگ کرتے ہوئے مطلوبہ ورائٹی نہ ملنے پر اس نوجوان سے معلوم ہوا کہ مدرز ڈے کے باعث یہ سب ختم ہوگئی ہے۔ اس نے ’’مدرز ڈے‘‘ کے حوالے سے ہماری لاعلمی پر حیرت کرتے ہوئے اپنی ماں کا مذکورہ پیار بھرا شکوہ سنایا: ’’باجی پھر ہم نے کال پیکیج کرکے ماں سے اس کے دل کی خوب باتیں کیں۔‘‘
یوں ہمیں ’’مدرز ڈے‘‘ سے آگہی ہوئی؛ اور آگہی بھی ایسی کہ روز افزوں ہی ہے۔ اس حوالے سے سرمایہ داروں کی خدمات ہی زیادہ نظر آئیں۔ مدرز ڈے کی خوشی میں عورت کے نام پر ایک اور تجارت کا عنوان جگہ جگہ خواتین کی مصنوعات (خصوصاً ملبوسات) پر خصوصی رعایت کے پر کشش اشتہارات کی بھرمار، ان ہی میں ماؤں سے اظہارِ محبت اور ان کی قدردانی کی پوسٹیں بھی ہیں۔ کہیں کہیں کچھ مُفتیانہ قسم کے تنقیدی تبصرے بھی ہیں کہ یہ مغرب کی ضرورت ہے، ہم مسلمان ہیں، ہمارا کیا واسطہ اس ایک دن کے مدرز ڈے سے، وغیرہ۔
یہ سب کسی حد تک درست بھی ہے کہ مغرب میں ماؤں کے اولڈ ہومز میں ہونے یا گھروں میں مصروف ترین اولاد کی توجہ سے محروم ماؤں کے حقوق کی ادائیگی کا کچھ سامان ہوسکے۔ پھر چوں کہ اس کے پیچھے سرمایہ دارنہ ذہن بھی کارفرما ہے سو اس مدرز ڈے کا اہم مقصد خواتین کی مصنوعات کی تجارت بھی ہے۔ یوں تالی کےلیے دونوں ہاتھ سرگرم ہیں تو اس دن کا فروغ بھی روز افزوں ہے۔ مگر یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ وہاں یعنی مغرب کے سمجھ دار مسلمان اس دن کو اپنے دین کی حدود میں رکھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کےلیے بھی کوشاں ہیں۔
یہ یقیناً درست ہے کہ ہماری اسلامی تہذیب میں اس ایک دن کے مدرز ڈے کی گنجائش نہیں، جہاں پندرہ سو برس سے زائد قبل ماؤں کے حقوق تا قیامت طے کیے جاچکے ہیں۔ پھر ان حقوق کی ادائیگی کو اولاد کی دنیا و آخرت کی کامیابی کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے۔ سب سے اہم یہ کہ قرآن میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کے ساتھ جن بندوں کے حقوق رکھے ہیں وہ ماں باپ کے ہیں؛ اور ان کا تذکرہ ایک بار نہیں بلکہ بار بار ہے:
’’تمھارے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اللہ کی، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل)
’’اور تم سب اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو۔‘‘ (سورۃ النساء)
’’کہو! آؤ میں تمھیں سناؤں، تمھارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں۔ یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو۔‘‘ (سورۃ الانعام)
اہم بات یہ بھی کہ ماں کے حقوق کو باپ کے حقوق پر تین درجہ بڑھ کر فوقیت بھی دی گئی ہے:
ایک شخص نے معلوم کیا، ’’یارسول اللہ ﷺ، میرے حُسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا ’’تمھاری ماں۔‘‘ اس نے پوچھا اس کے بعد کون؟ آپﷺ نے فرمایا ’’تمھاری ماں۔‘‘ اس نے پھر پوچھا، اس کے بعد کون؟ آپﷺ نے فرمایا ’’تمھاری ماں۔‘‘ چوتھی بار پوچھا، پھر کون؟ تو آپﷺ نے فرمایا ’’تمھارا باپ۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الادب)
بِلاشبہ، ماں کا یہ مرتبہ اس کی ان تکالیف کی بِنا پر ہے جو وہ اولاد کی پیدائش، حمل، رضاعت اور پرورش کے دوران سہتی ہے۔
آج کی اولاد کے پاس اس مدتِ مشقت کا تصور اور احساس ہے؟
فقہاء کا کہنا ہے کہ زیادہ تر احادیث میں پہلے ماں کے حق کا ذکر ہے، اس کے بعد باپ کا ہے۔ اس لیے والدین کو کچھ دینا ہو تو پہلے ماں کو دے اور باپ سے تین گُنا زیادہ، یہاں تک کہ اگر دونوں ایک ساتھ پانی بھی مانگیں تو پہلے ماں کو پلانے کا حکم ہے۔
ایک موقعے پر آپﷺ نے فرمایا:
’’اللّٰہ تعالیٰ نے ماؤں کی نافرمانی تم پر حرام کر دی ہے۔‘‘ (صیح بخاری، کتاب الادب)
آج بِلاتکلف ’’امی میں یہ نہیں کرسکتا/ سکتی‘‘ کہنے والی اولاد کو اس فرمان کا کچھ پاس ہے؟
ماں کی فرمانبرداری اور خدمت اتنا عظیم اور بابرکت عمل ہے کہ اسے گناہوں کا کفارہ بتایا گیا ہے۔ ایک صحابی سے ایک بڑا گناہ سرزد ہو گیا۔ توبہ کی کوئی صورت معلوم کرنے پر آپﷺ نے ماں کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا۔
ماں باپ کے ساتھ کی گئی نیکیوں کو مشکلات کے حل کا سبب بھی بتایا گیا ہے۔ پیارے نبیﷺ کے مطابق ایک مرتبہ تین دوست غار کے منہ پر چٹان آجانے کے باعث اس میں بند ہوگئے اور نکلنے کا کوئی چارہ نہ رہا۔ انہوں فیصلہ کیا کہ ہم اپنے اپنے اہم ترین نیک کام کے واسطے سے اللّٰہ سے مدد کی درخواست کرتے ہیں؛ تینوں نے ایسا ہی کیا۔ چٹان غار کے منہ سے ہٹ گئی اور انہیں راستہ مل گیا۔ ان میں سے ایک نے ماں باپ کی خدمت کا حوالہ دے کر دعا کی تھی۔
آج مسائل سے بوجھل ماحول میں کیا اولاد کے پاس ماں کے ساتھ کی گئی خدمت کی کُنجی ہے کہ وہ آسانیوں کا دروازہ کھول سکیں؟
ماں باپ کی خدمت و اطاعت اولاد کےلیے اتنی سعادت مندی اور خوش بختی کی بات ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
’’جو اللہ کی اطاعت کے خیال سے ماں باپ کی فرمانبرداری کرتا رہے، اس پر جنت کے دو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ اور جو ماں باپ کے بارے میں خدا کے احکام سے منہ موڑے، اس کےلیے دوزخ کے دو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ کسی نے پوچھا، یارسولﷺ اگر ماں باپ اولاد کے ساتھ زیادتی کر رہے ہوں تب؟ فرمایا ہاں، اگر زیادتی کررہے ہوں تب بھی، اگر زیادتی کر رہے ہوں تب بھی، اگر زیادتی کر رہے ہوں تب بھی (تین مرتبہ)۔‘‘ (شعب الایمان)
کیا آج ماؤں کے سامنے ان سے بڑا وجود، ان سے زیادہ طاقت رکھنے والی اولاد، ماں کی زیادتیوں کو اپنی خطاؤں سے کم ماننے پر تیار ہے؟
پھر یہ دہلا دینے والا قرآنی حکم:
’’اگر تمہارے ماں باپ میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں ’’اُف‘‘ تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو۔‘‘ (سورہ بنی اسرائیل)
اس ’’اُف‘‘ کا ترجمہ کہیں ’’اُونہہ/ ہونہہ‘‘ بھی کیا گیا ہے۔ اس ’’اُف‘‘ کی تفاسیر کے مطابق، وہ کم سے کم ناروا بات، ناپسندیدہ عمل یا تکلیف ہے جو اولاد کی جانب سے ماں باپ اور فضیلت کے لحاظ سے خصوصاً ماں کو پہنچے۔
کیا آج ماؤں سے زیادہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، دن رات مشینی انداز میں ’’دنیا‘‘ کےلیے مصروف اولاد کے نزدیک اس ننھے سے لفظ کی جواب دہی ہے؟
ماں باپ کی نافرمانی حقیقتاً اتنا بڑا گناہ ہے کہ تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجائیں:
’’ایک بار آپﷺ، صحابہؓ کے درمیان تھے۔ اچانک اٹھ کر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: وہ ذلیل ہو، وہ ذلیل ہو، وہ ذلیل ہو۔ صحابہ کرامؓ نے گھبرا کر پوچھا، کون یارسول اللہﷺ؟ فرمایا، جس نے ماں باپ دونوں یا ایک کو بڑھاپے میں پایا اور ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہیں ہو گیا۔‘‘
ماں باپ کی نافرمانی کو گناہِ کبیرہ بتا کر ایسا سخت گناہ کہا گیا ہے کہ جس کی پوچھ اور سزا آخرت میں بھی ہے اور دنیا میں بھی۔
کیا آج طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا اولاد کو ماؤں کی جانب اپنی کوئی بے توجہی یاد رہتی ہے؟
ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والے رب نے اپنے بندوں کو بھی اپنی ماؤں سے محبت سکھائی ہے: ’’دعا کرو کہ پروردگار، ان (ماں باپ) پر رحم فرما جس طرح انہوں رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا۔‘‘
اللہ کے سب سے حسین انعام ’’جنت‘‘ کو ماں کے قدموں میں رکھ کر اس کے حصول کےلیے ماؤں کی اطاعت و خدمت لازم کردی گئی۔
اس سب کے جواب میں معاشرے میں ماں کے اعزاز و اکرام اور حقوق کی ادائیگی کی کربناک صورتِ حال، ماضی اور حال کے فرق کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔
ہمارا حال یہ ہے کہ چاہے نہ چاہے گلوبلائزیشن کا حصہ بھی بن رہے ہیں اپنے مطلوبہ ایام بھی منا رہے ہیں، اپنی مشرقی اقدار پر فخر کرتے ہوئے مغرب کے ایک دن کے ’’مدرز ڈے‘‘ پر تنقید بھی کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر منفی/ مثبت اظہارِ خیال بھی کرتے ہیں، سب سے بڑھ کر اس دن کے تجارتی مقاصد کی تقویت کا بھی (ضرورت کے نام پر) اہتمام بھی کرجاتے ہیں۔ اس کا ثبوت مدرز ڈے کے عنوان سے کاروبار کی سال بہ سال وسعت ہے۔
یہ دن کسی نہ کسی عنوان سے منایا ہی جارہا ہے اور جس انداز سے منایا جارہا ہے کہ اس کا مادی پہلو ہی غالب ہے۔ اس سے قبل کہ مادیت یا سرمایہ داری کا یہ غلبہ ہمیں بالکل ہی بے بس کردے، کیوں نہ اس کے غیراسلامی انداز سے بچتے ہوئے صرف اچھے پہلوؤں کو اسلامی شناخت کے ساتھ اختیار کیا جائے۔
نبی کریمﷺ نے دس محرم کا روزہ رکھا، مگر جب معلوم ہوا کہ یہود و نصاریٰ بھی اس دن کی تعظیم میں روزہ رکھتے ہیں تو آپﷺ نے ان سے مماثلت کو رد کرنے اور اپنی اسلامی شناخت کی خاطر دس محرم کے ساتھ نو محرم کا روزہ رکھنا بھی پسند فرمایا۔
الحمدللہ، اس گئے گزرے ماحول میں بھی مغرب کے مقابلے میں ہماری تہذیبی اقدار ابھی باقی ہیں۔ ہماری ماؤں کی اکثریت اولڈ ہومز یا علیحدہ رہائش کے بجائے اولاد کے ساتھ باعزت رہائش اختیار کیے ہوئے ہے۔ مغرب جیسی شدید مصروفیات کے باوجود بھی ماؤں کے حقوق کی ادائیگی میں دینی احکام کا پاس اور احساس ابھی باقی ہے۔
ہمارا میڈیا جس طرح ماؤں کے عدم احترام کی فضا بنانے میں سرگرم ہے، اس کی روک تھام کےلیے مدرز ڈے کے موقعے کو مہم کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ماؤں یا والدین کے حقوق، احترام یا خدمت کے جو اسباق بچوں کے نصاب میں شامل ہیں وہ فقط اس دنیا کے امتحان میں کامیابی کی غرض سے رٹے اور رٹوائے جاتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ماؤں کے حقوق کی آگہی اور ادائیگی کا احساس مہماتی طور پر ہو۔ آخر دنیا کے دیگر کاموں کو انگیز کرنے کےلیے بھی تو مہمات کی مدد لی جاتی ہے۔
اس اہم ترین کام کےلیے بھی کہ جس پر دنیا اور آخرت دونوں ہی کے اچھے یا برے نتائج کا انحصار ہے، کیوں نہ مہماتی منصوبہ بندی کی جائے۔ اس سے ہمارا مقصد کسی قسم کا کوئی دینی تہوار ہرگز بھی نہیں بلکہ قائدِاعظم ڈے، اقبال ڈے وغیرہ کی طرح قومی و ملی اہمیت کے دن کے طور پر ہی اس کا اہتمام کیا جاسکتا ہے (اگرچہ یہ ایام بھی اب اپنی اہمیت و اہتمام کے متقاضی ہیں)۔
اس غرض سے اسکولوں و دیگر تعلیمی اداروں میں ماؤں کے احترام، خدمت، حقوق کی آگہی اور احساسِ ادائیگی کےلیے مختلف دلچسپ سرگرمیاں ترتیب دی جا سکتی ہیں ان میں اسلامی اقدار و شناخت کا خصوصی لحاظ رکھتے ہوئے احترامِ والدہ کی آگہی کے حوالے سے ترانے، ٹیبلو، ڈرامے، تحریری و تقریری مقابلے اور خاندانی اجتماعات رکھے جاسکتے ہیں۔ پچھلے سال ایک بلاگ سائٹ نے مدرز ڈے کے حوالے سے بلاگنگ کے مقابلے کا اہتمام کیا تھا جو اس سلسلے کا ایک تعمیری اور خوش آئند قدم تھا۔
ہر کام میں تنقید برائے تنقید کے رویّے کو نظرانداز کرتے ہوئے اصلاح کے پہلو کی تلاش، معاشرے کی تعمیر کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ شر کے کھوٹ سے خیر کا کندن حاصل کرنا بھی کامیابی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔