علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی (ایم اے) سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال
عن عمر ابن الخطابرضی اللہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ انما الاعمال بالنیات وانما لامری مانوےٰ فمن کانت ہجرتہ الی اللّٰہ ورسولہ فھجرتہ الی اللّٰہ ورسولہ ومن کانت ہجرتہ الی دنیا یصیبھا او امراۃ یتزوجھا فھجرتہ الی ماھاجر الیہ۔(متفق علیہ )
ترجمہ’’امیر المومنین حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا !بارگاہ حق تعالیٰ میں کوئی عمل بغیر نیت مقبول و معتبر نہیں اور مرد کو صرف اس عمل کا ثواب ملے گا جس کی اس نے نیت کی ۔تو جس کا اپنے وطن کو چھوڑنا اللہ و رسول کی رضا اور ان کے احکام بجالانے کے لئے ہے تو اس کی ہجرت اللہ ورسول کے لئے ہے اور جس شخص کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا عورت سے نکا ح کرنے کے لئے ہو تو اس کی ہجرت اس طرف ہو گی جس کے لئے کی ۔‘‘
بعض روایتوں میں ہے ۔الاعمال بالنیات۔بعض میں الاعمال بالنیۃ۔اور بعض میں العمل بالنیۃ۔ہے ۔لیکن ان تمام عبارتوں سے مقصود مراد یہی ہے کہ کوئی عمل ،خواہ قلب کا ہو یا قالب کا ،’’احد ‘‘سے متعلق ہو یا ’’ترک ‘‘ سے ،قول ہو یا فعل ،عبادات سے ہو یا عادات سے ،بے نیت مقبول و معتبر نہیں اور اس پر ثواب کا نہیں ہے ۔ اکثر مصنفین علم حدیث نے اپنی کتابوں کی ابتداء اسی حدیث شریف سے فرمائی ہے اور بعض مشائخ متقدمین نے امورِ دین کے ہر امر کے آغاز اور دینی تالیف کی ابتداء میں اس حدیث شریف کی تقدیم کو مستحسن قرار دیا ہے ۔اس میں طالب علم حدیث نیز طالب علم دین کے لئے یہ تر غیت ہے کہ اس علم شریف کی طلب و تحصیل کے لئے حسنِ ارادہ اور خلوصِ نیت ضروری ہے اور اخلاص کا اغراض کے شائبہ سے خالی ہونا لازمی ہے ۔اس لئے کہ علم شریف کی طلب کی راہ میں آنا خدا اور رسول کی طرف ہجرت کرنے اور ان کی طرف مائل ہونے کے مترادف ہے ۔تو جس طرح راہِ خدا اور رسول میں آنے کے لئے خلوصِ نیت شرط ہے اس طرح یہاں بھی شرط ہے ۔
تمامی ائمہ حدیث اس بات پر متفق ہیں کہ یہ حدیث شریف ،کثرت فوائد کے لحاظ سے فضل و شرف میں بڑا اونچا مقام رکھتی ہے اور اصول دین سے ایک اصل عظیم ہے ۔ بعض نے تو اس کو نصف علم قرار دیا ہے ۔اس اعتبار سے کہ اعمال کی دو قسمیں ہیں :1) اعمالِ قلب 2) اعما ل قالب نیت ۔
ہر عمل قلب کی اصل ہے اور اگر اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے کہ جملہ اعمال خواہ عبادات سے ہوں یا عادات سے ،بے نیت بارگاہ الہیٰ میں مقبول و معتبر نہیں او ران پر کوئی ثواب مرتب نہ ہو گا ۔تو اس قول کی بھی گنجائش نکل آئے گی کہ یہ حدیث شریف تمام علم اور مجموعہ دین سے ہے ۔اس لئے کہ دین کا کوئی عمل نہیں جو بے نیت سود مند ہو۔
تمام علمائے دین اس حدیث کی صحت پر متفق ہیں ۔جب یہ معلوم ہو گیا کہ جملہ اعمال کے ثواب کا دارو مدار نیت پر ہے تو اب یہ کہنا حقیقت پر مبنی ہو گا کہ وہ اعمال جن کا مقصود صرف ثواب ہو ،وہ بغیر نیت غیر صحیح و ناجائز ہوں گے ۔اس لئے کہ جب ان اعمال سے ثواب کے سوا کوئی اور غرض نہیں اور حصول ثواب بے نیت نہیں تو پھر ان اعمال کا بغیر نیت کے عبث و نادرست ہونا ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے ۔ایسے اعمال کو ’’مقصودلذتہ ‘‘ کہا جاتا ہے ۔رہ گئے وہ اعمال جو ثواب کے علاوہ کوئی اور غرض بھی رکھتے ہوں اور جن سے کوئی اور مقصد بھی متعلق ہو ۔الحاصل وہ ’’بذاتہ ‘‘ مقصود نہ ہوں بلکہ دوسرے مقصود کا وسیلہ بنتے ہوں ،تو ایسے اعمال کا ثواب اگر چہ ’’مشروط بہ نیت‘‘ ہے ۔لیکن بے نیت بھی وہ جائز رہیں گے ،اگر چہ ثواب ان پر مرتب نہ ہو۔ چونکہ یہ اعمال مقاصد رکھتے ہیں تو ان کا وجود اپنے ہر ہر مقصد کے ضمن میں ہو جائے اب اگر ان کو کوئی ایک مقصد حاصل نہ ہوتو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا دوسرا مقصد بھی حاصل نہ ہو ۔ایسے اعما ل کو ’’مقصود لغیرہ‘‘ کہا جاتا ہے ۔
دوسرے لفظوں میں اسے ’’وسیلہ عمل دیگر‘‘ کہہ لیجئے مثلاً نماز ’’مقصود لذاتہ ‘‘ ہے اس سے صرف ثواب یعنی ’’تقرب الی اللہ ‘‘مقصود ہے اور ’’تقرب الی اللہ ‘‘ کے مقصد کا نام ’’نیت ‘‘ ہے تو اگر نماز میں یہ قصد نہ ہو ،بہ لفظ دیگر نیت نہ ہو ،پھر اس کا مقصد فوت ہو جائے گا اور وہ صحیح نہ ہو گی ۔
’’مقصود لغیرہ‘‘ کی مثال میں وضو کو لے لیجئے ،چونکہ وضوسے مقصود نماز ہے ۔لہٰذا یہ بے نیت بھی صحیح و جائز ہو گا ۔الحاصل ’’وضو بے نیت ‘‘ پر ثواب نہیں ،لیکن اس سے نماز ہو جائے گی ۔اس امرکی طرف اشارہ گزر چکا ہے کہ ’’نیت ‘‘ سے یہاں ’’قصد تقرب الی اللہ ‘‘مراد ہے ۔یعنی جو کام کرے خدا کے لئے کرے اور طلب رضائے الہٰی کو ملحوظ خاطر رکھے تو نیت دل کے کام کا نام ہوا ،زبان سے کہنا ضروری نہیں ۔فقہائے کرام کا ارشاد ہے کہ ’’مستحب ہے کہ زبان سے بھی کہہ لیا جائے ‘‘ تاکہ زبان دل کے موافق اور ظاہر باطن کے مطابق ہو جائے ۔اگر چہ تلفظ نیت صحت نماز کے لئے شرط نہیں ،مگر نیت کے معنی کا تعلق اس کا دل میں ذکرِ الفاظ سے آسان ہو جاتا ہے ۔ہاں الفاظ نیت کو بالجہر کہنا بالا تفاق نامشروع ہے ۔
جب ’’نیت‘‘ ارادۂ قلب کا نام ہے تو اگر کوئی شکل ایسی شکل ہو کہ زبان پر نہ ہو یا زبان سے کچھ اسکے خلاف نکل جائے تو کوئی حرج نہیں :وانما لامریء انویٰ۔’’مرد کو صرف اس عمل کا ثواب ملے گا جس کی اس نے نیت کی ۔‘‘
بعض روایتوں میں یوں ہے کہ انما لکل امری ء۔یعنی لفظ’’ کل‘‘ کا اضافہ ہے ۔یہ جملہ کلام سابق کی تاکید ہے ۔دونوں کا محل ایک ہے کہ عمل بے نیت صحیح و معتبر نہیں اور ہر عمل کے لئے ایک نیت مخصوص ہے تو ہر مرد کی قسمت میں اس عمل سے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی تو اگر کسی عمل سے متعدد نیتیں وابستہ ہو سکتی ہیں تو اس میں جس جس کی نیت کی جائے گی اس کا ثواب ملے گا۔مثلاً کسی ایسے فقیر کو کچھ دیا گیا جو اپنا قریب و خویش بھی ہو اور نیت صرف فقیر کی کی گئی ،قرابت کا لحاظ نہ کیا گیا۔ تو صدقہ کا ثواب ملے گا لیکن صلہ رحمی کا اجر نہ ملے گا ۔اور اگر قرابت کا خیال کیا اور فقیر کا لحاظ نہ کیا تو صرف صلہ رحمی کا ثواب میسر ہو گا ۔لیکن صدقہ کے ثواب سے بہرہ مندی نہ ہو گی ۔الحاصل ایک ہی شخص ،ایک ہی عمل خیر سے متعدد نیتوں کے واسطے سے بہت سارا ثواب اکٹھا کر سکتا ہے ۔مثلاً مسجد میں بیٹھنا ایک عمل ہے ،اس سے متعدد نیتیں متعلق ہو سکتی ہے اور ہر نیت پر ایک ثواب مرتب ہو تا ہے ۔مسجد میں بیٹھنے سے متعلق چند نیتوں کی طرف اشارہ کرتا چلوں:
۱: احادیث سے ثابت ہے کہ مسجد خانہ خدا ہے اور جو مسجد میں آتا ہے گویا اللہ کی زیارت کے لئے آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کریم ہے اور ہر کریم اپنے زائرین کی ضیافت کو اپنے ذمہ کرم پر رکھتا ہے ۔مسجد میں بیٹھنے کی ایک نیت یہ بھی ہے کہ اس فضیلت و کرامت کو پالیا جائے ۔
۲: حدیث صحیح ہے کہ جو نماز کا انتظار کرتا ہے تو گویا نماز ہی میں ہے اور اس نماز کو ادا کر رہا ہے جس کا وہ منتظر ہے ۔
مسجد میں نشست کی ایک نیت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نماز با جماعت کے انتظار کی سعادت حاصل کرنی ہے ۔
۳: ایک نیت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جب ہم مسجد میں رہیں گے تو ہماری آنکھیں و ناک نیز تما م اعضاء ان معاصی و منہیات سے محفوظ رہیں گے جو کوچہ و بازار میں ہوتے رہتے ہیں ۔
۴: ہر شخص کو چاہیے کہ جب جب مسجد میں آئے تو اعتکاف کی نیت کر ے کیونکہ مدت اعتکاف کم از کم ایک ساعت ہے ۔تو اعتکاف کی نیت سے مسجد میں بیٹھ کر اپنے آپ کو اس آسان ترین عبادت سے جس کی تحصیل سے عوام غافل ہیں مشرف کیا جاسکتا ہے ۔
۵: حضوررحمت اللعالمین ﷺ کی بارگاہ بے کس پناہ میں صلوٰۃ و سلام کا نذران�ۂ محبت پیش کرنے کے مقدس ترین عمل کی نیت سے مسجد کی مقدس زمین کا انتخاب کیا جا سکتا ہے اور اس کے علاوہ دوسری ان دعاؤں کی نیت سے مسجد کا رخ کیا جا سکتا ہے کہ جو مسجد میں داخل ہونے اور باہر ہونے سے متعلق مسنون و ماثور ہیں اور بے شمار فضلیت و ثواب کی حامل ہیں ۔
۶: مسجد میں بیٹھنے کی ایک نیت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ذکر الہٰی اور تلاوت قرآن یا سماعت قرآن کے لئے تنہائی حاصل ہو ۔یا ذکراللہ کی لوگوں کو ترغیب دی جائے اور مجاہد فی سبیل اللہ کا درجہ حاصل کیا جائے ۔اس لئے کہ احادیث میں ہے کہ جو مسجد میں ذکر کے لئے جاتا ہے وہ مجاہد فی سبیل اللہ کی مانند ہے ۔نیز روایتوں میں ہے کہ خانۂ خدا میں تلاوت کرنیوالے کے اردگرد ملائکہ کا اجتماع ہوتا ہے ۔
۷: بہ قصد حصول ثواب حج و عمرہ بھی مسجد میں آنا ہو سکتا ہے ۔جیسا کہ روایتوں میں ہے جو با وضو مسجد میں جائے اور نماز پڑھے اس کو حج و عمرہ کا ثواب ملتا ہے بالخصوص مسجد نبوی شریف میں ۔
۸: مسجد میں اس نیت سے بھی آیا جا سکتا ہے کہ مسجد میں لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے لہٰذا علم دین کے افادہ استفادہ اور امر معروف و نہی منکر کا اچھا موقع میسر ہوتا ہے ۔
۹: بہ قصد زیارت برادر دینی جوراہِ خدامیں مدد گار ہو مسجد کا رخ کیا جا سکتا ہے ۔
۱۰: اس ارادہ سے بھی مسجد میں جا سکتے ہیں کہ اس طرح سے مسجد میں رہنے والوں اور آنیوالوں کو سلام کرنے کا موقع میسر آئے گا ۔
۱۱: چونکہ مسجد میں جمعیت خاطرہوتی ہے ۔لہٰذا تفکر و مراقبہ و قوت فکریہ کی امور آخرت کی طرف توجہ اور تقصیرات سے استغفار کے ارادہ سے آسکتے ہیں ۔
۱۲: مسجدیں چونکہ اللہ تعالیٰ کی خاص تجلی گاہ ہیں اور خدا کی طرف ان کی نسبت ہے ،لہٰذا ان کی روحانیت سے ایک ایسے ذوق و نورانیت کا حصول ہو گا جس سے مشاہدۂ حق سے ایسے ذوق و مطلق کے سمندر میں استغراق کی کیفیت حاصل ہو گی ۔نیز باطن کا حضور اور دل کا سرور میسر ہو گا ۔مزید بر آں مسجد میں دخول تو خود اعمال آخرت سے ہے اور مسجد محل عبادت ہے ۔الحاصل اس نیت سے بھی مسجد میں دخول ہو سکتا ہے ۔
ان اعمال مذکورہ اور ان کے امثال و نظائر کو تو جانے دیجئے ،نیت خیر اگر اعمال طبعی و شہوانی سے بھی متعلق ہو جائے تو اس کا اجر و ثواب ملتا ہے ۔مثلاً خوشبو جمعہ کے دن یا کسی بھی دن لگانا۔
۱: بہ قصد اتباع سنت رسول اللہ ﷺ کہ آپ خوشبو کو محبوب رکھتے تھے ۔
۲: بہ قصد تعظیم مسجد اور بد بو کے دفع کے ارادے سے تاکہ اپنے یا دوسرے کو تکلیف نہ ہو ۔نیز جو لوگ یا ملائکہ اس کے جلیس و ہم نشین ہوں ان کو راحت و سکون حاصل ہو ۔
۳: بہ قصد سد باب غیبت یعنی بد بو کی وجہ سے جو اسکی غیبت کر کے معصیت میں مبتلا ہو سکتا تھا اب وہ اسکی معصیت سے محفوظ رہے گا ۔جب ا سمیں بد بو نہ رہے گی تو پھر کوئی اس کی بد بو کا ذکر بھی نہ کریگا ۔ اور گناہ مذکورہ کا ارتکاب بھی نہ کرے گا ۔
۴: بہ قصد معالج�ۂ دماغ تاکہ دماغ تازہ ہو ،فطانت اور ذکاوت زیادہ ہو اور علوم و معارف کاادرک حاصل ہو ،وغیرہ وغیرہ ۔
اس کے برخلاف اگر محض لذات جسمانی و شہوات نفسانی اور خود نمائی کے لئے خوشبو لگاتا ہے تو ثواب سے محروم رہیگا ۔بلکہ مستحق ملامت و عتاب ہو گا۔ ان تفصیلات سے یہ امر واضح ہو گیا کہ ہر کام کا دارو مدار اور ثواب کا حصول نیت پر ہے ۔
فوائد :نصوص شرعیہ جس کی حلت و حرمت کے بارے میں خاموش ہوں اور کہیں اس عمل کے حلال و حرام ہونے کی تصریح نہ ملے ایسے عمل کو ’’عمل مباح‘‘ کہیں گے جس کا کرنا نہ کرنا دونوں برابر ہیں ۔اسی مقام پر یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ تمام اشیاء کی اصل ’’ اباحت‘‘ ہے ۔اس کا مطلب یہی ہے کہ جس عمل کو اللہ و رسول نے حرام و حلال نہ فرمایا ہو اس عمل کو ’’مباح‘‘ کہیں گے ۔
الحاصل کسی عمل کو حلال یا حرام کہنا اس عمل کی اصل کے خلا ف ایک حکم دینا ہے اور اصل کے خلاف کوئی حکم لگانے سے پہلے دلیل کی ضرورت ہے ۔اس دلیل دینے کا ذمہ دار وہی ہے جو ایسا حکم لگائے ۔اگر نصوص شرعیہ میں اس کی کوئی دلیل نہیں تو وہ عمل اپنی اصل پر رہتے ہوئے ۔’’مباح ‘‘ رہے گا ۔یہیں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جو کسی عمل کو ،مباح کہے اس کے ذمہ کوئی دلیل نہیں ۔اب اگر اس سے کوئی دلیل کا مطالبہ کرے تو ہ کھلا ہوا فریب ہے ۔
’’عمل مباح ‘‘ سے ’’نیت خیر‘‘ بھی متعلق ہو سکتی ہے اور ’’نیت شر‘‘ بھی ۔اچھی نیت سے وہ عمل مباح مستحب و مستحسن ہو جاتا ہے اور نیت شر سے ناجائز و حرام ، الحاصل جس درجہ کی نیت ہو گی اس درجہ کا حکم دیا جائے گا ۔مثلاً کھڑا ہونا یہ ایک ’’عمل مباح‘‘ قیام مستحسن ‘‘ہو جاتا ہے ۔اور اگر اس نیت سے کھڑا ہو کہ طاق سے شراب کی بوتل اُتار کر آلودۂ معصیت ہونا ہے ۔تو ایسی صورت میں یہ ’’قیام مباح ‘‘ رہے گا جس کے کرنے سے کوئی ثوا ب نہیں اور اس کے نہ کرنے سے کچھ گناہ نہیں ۔
الحاصل عمل مباح سے متعلق کو کوئی حکم صادر کرنے سے پہلے نیت عمل کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے ۔اگر کوئی شخص فضول خرچی کرتا ہے اور بلا ضرورت روپیہ وغیرہ پانی کی طرح بہاتا ہے تو اس سے کہا جائے گا۔لا خیر فی الاسراف۔’’دیکھ فضول خرچی میں کوئی بھلائی نہیں۔‘‘لیکن اگر وہ کسی عظیم مقصد اور نیک نیتی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہاتھ کو کھولے ہوئے ہے تو اس سے کہا جائے گا:لا اسراف فی الخیر۔’’امر خیر اور عظیم مقصد کے حصول کے لئے کتنا بھی خرچ کر دیا جائے فضول خرچی نہیں ۔‘‘دیکھئے نیت کے فتور کا وہ نتیجہ تھا اور نیک نیتی کا یہ انجام ہے ۔فائدہ کے ضمن میں جو امور ہیں انکالب لباب یہ ہے ۔۱: ہر چیز کی اصل مباح ہونا ہے۔۲: ہر مباح چیز ،بہ نیت حسن ، مستحسن ہوجاتی ہے اور اس پرثواب مرتب ہوتا ہے ۔۳: امر مستحسن کے حصول کیلئے کتنا بھی خرچ ہوجائے وہ فضول خرچی نہیں ۔
لہٰذا فاتحہ ،ایصال ثواب ،تیجہ ،چالیسواں ،عرس ،آستانہ جات اولیاء کرام پر حاضری ،انکے مزارات مقدسہ پر صندل و چادر پوشی ،عطر پاشی و گل پوشی ،آستانے پر قبہ جات کی تعمیر ،بزم ذکر میلاد اور اس کی جملہ آرائش ،قیام تعظیمی ،وغیرہ ،من امثالھا ونظائرھا۔کوان کی حقیقت اور اصلیت پر نظر رکھتے ہوئے ،مباح ماننے کے باوجود ، امر مستحسن ، سے شمار کریں گے ۔اسلئے ان تمام کے ساتھ نیک نیتی اور عظیم مقاصد وابستہ ہوچکے ہیں ۔اب ان امور کے انجام دینے کے لئے کچھ بھی خرچ کیا جائے ۔ اسراف کے حکم میں نہ ہو گا ۔ بلکہ جتنی عظیم نیت کے پیش نظریہ اعمال انجام دیئے جائیں گے ،اتنے ہی عظیم فوائد اور ثواب ان پر مرتب ہوں گے ۔انما الاعمال بالنیات۔کی حقیقت تسلیم کر لینے والے کیلئے گنجائش نہیں کہ وہ مذکورہ بالا ،امورِ مستحسنہ ،کے انجام دینے والوں پر طعن و تشنیع کرے ۔ان حقائق کے واضح ہوجانے کے بعد یہ طعن و تشنیع ، حدیث رسول سے انکار کے مترادف ہے ۔معلوم ہوا کہ صرف اسی حدیث شریف کو سمجھ لینے کے بعد اختلافی مسائل کی بہت ساری گتھیاں سلجھائی جا سکتی ہیں ۔‘‘
حدیث مذکور کے پہلے حصے یعنی ۔انما الاعمال بالنیات و انما لامری ء مانویٰ۔’’میں نیت سے مرادِ ثواب ہونے کا ذکر بطریق اجمال اور بطور قاعدہ کلیہ ہے۔ اسی کو دوسرے حصے میں مثالِ جزئی دیکر سمجھایا ہے :’’تو جسکا اپنے وطن کا چھوڑنا اللہ و رسول کی رضا اور ان کے احکام بجا لانے کے لئے ہے ،تو اس کی ہجرت اللہ و رسول کے لئے ہے ۔یعنی اللہ و رسول کی بارگاہ میں مقبول ہے اور اس پر ثواب عظیم مرتب ہو گا۔ اور جس شخص کی ہجرت دنیا کی طرف ہے تاکہ اسے دنیا حاصل ہو ،یا کسی عورت کے لئے ہے کہ وہ اس سے نکاح کرے ۔ اور اس میں خدا اور رسول کی رضا اور انکے امر کی بجا آوری کا پہلو نہ ہو ،تو اسکی ہجرت اسکی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی ہے۔ یعنی دنیا یا کسی عورت سے نکاح کرنا ۔
لغت میں ہجرت ’’ترک وقطع ‘‘ کو کہتے ہیں اور عرف شرع میں ایک زمین چھوڑ کر طلب رضائے حق کے لئے دوسری زمین پر جا بسنے کو ہجرت کہتے ہیں ۔
اس حدیث شریف میں ہجرت سے مراد وطن سے غیر وطن کی طرف منتقل ہو جانا ہے ۔خواہ وہ مکہ ہو یا اس کے علاوہ مدینہ ہو یا اسکے سوا۔
اسلام میں دو طریقہ کی ہجرت واقع ہو چکی ہے ۔اول دارِ خوف سے دارِ امن کی طرف ،جیسے مشرکین مکہ کے شر و فساد کے خوف سے ابتدائے اسلام میں بعض صحابہ کا حبشہ کی طرف ہجرت کرنا یا بعض کا مکہ سے مدینہ کی طرف رسول اللہ ﷺ کی ہجرت اور امر اسلام کے استقرار سے پہلے منتقل ہو جانا۔
دوسرے دارِ کفر سے دارِ اسلام کی طرف ،جیسے حضورنبی اکرم ﷺ کے مدینہ شریف میں متمکن و استقرار کے بعد مسلمانوں کا مکہ شریف سے یا اس کے علاوہ کسی اور جگہ سے مدینہ شریف کیطرف ہجرت کرنا ،اس وقت با عتبار غالب ہجرت مکہ سے مدینہ کیطرف مخصوص کر دی گئی تھی ۔لیکن فتح مکہ کے بعد جب مکہ دارالاسلام ہو گیا ۔اس اختصاص کو ختم فرمادیا گیا ۔بعض حدیثوں میں :لا ھجرۃ بعد الفتح۔’’فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ۔‘‘
آیا ہے ۔اس سے مراد یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد مکہ سے ہجرت نہیں ہے ۔اس لئے کہ اب یہ دارِ الاسلام ہو گیا ہے ۔اب رہ گئی اصل ہجرت یعنی دارِالکفر سے منتقل ہونا تو اس کا حکم آج سے لیکر قیامت تک کے لئے باقی رکھا گیا ہے ،ہر اس شخص کے لئے جو اس پر قادر ہو ۔حضور نبی کریم ﷺ کے اس قول مبارک سے یہی مراد ہے فرمایا ہے :’’ ہجرت اس وقت تک منقطع نہ ہو گی اور اس کا حکم اس وقت تک بر طرف نہ ہو جائے گا جب تک تو بہ منقطع نہ ہو جائے ۔‘‘اور اس کا دروازہ نہ بند کر دیا جائے ۔
ہجرت کے ایک خاص معنی اور بھی ہیں جس کو ’’ہجرت حقیقی‘‘اور ’’ہجرت کبریٰ‘‘کہا جائے تو نامناسب نہیں ۔’’موطن طبیعت‘‘ سے ’’مدینہ شریف‘‘ کی طرف منتقل ہو جانا اور ’’منہیات و مکروہات شرعیہ ‘‘ کی دنیا سے اپنے آپ کو الگ کر کے ’’اطاعت مصطفوی ‘‘کے عالم میں بس جانا ۔حدیث میں آیا ہے :’’مہاجر حقیقی اور کامل ہجرت کرنیوالا وہ ہے جو ہر اس چیز کو چھوڑ چکا ہو جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہو۔‘‘تو جیسے ’’جہادِ نفس‘‘ ’’جہاد اکبر‘‘ہے تو اسی طرح ’’ہجرت ازخواہشاتِ نفس‘‘ ’’ہجرت کبریٰ ‘‘ہے ۔
حدیث میں آیا ہے کہ محض نیت اور اچھے ارادہ کو کامل نیکی میں شمار کر لیا جاتا ہے ۔نیز حدیثوں میں یہ بھی آیا ہے کہ اگر سونے والا یہ نیت کر کے سوئے کہ مجھے تہجد کی نماز کے لئے بیدار ہو نا ہے تو اس کے لئے تہجد کا ثواب لکھ لیا جاتا ہے ،اگر چہ غلبۂ خواب کے سبب وہ صبح تک بیدار نہ ہو سکے اور اس سے تہجد فوت ہو جائے ۔
نیت کا محل دل ہے اور دل مکان معرفت ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جو محل معرفت سے پیدا ہوا ور اس معدن و مخزن سے نکلے وہ اس سے فاضل اور شریف تر ہو گا جو اس کے غیر سے حاصل ہو ۔
حضرت سہیل بن عبد اللہ قشیری رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے :’’آپ نے فرمایا ہے کہ عرش سے فرش تک کوئی مکان اللہ تعالیٰ کے نزدیک بندہ مؤمن کے دل سے زیادہ عزیز نہیں ،اس لئے خدائے عزوجل نے پوری مخلوق کو جتنے عطیہ اور جتنی کرامتیں عطا فرمائیں ہیں اس میں اس کی معرفت سے بڑ ھ کر اور عزیز ترین مقام یعنی دل مومن کا انتخاب کیا اور اس میں یہ دولت بے بہا رکھی ۔اگر دل مومن سے زیادہ عزیز خدا کے نزدیک کوئی مقام ہو تا ۔تو وہ اپنی معرفت کو اسی مقام پر رکھتا ،یہاں نہ رکھتا ، نیت عمل سے بہتر ہے اس لئے کہ نیت پائیدار اور باقی رہنے والی چیز ہے اور عمل ناپائیدار اور فانی ہے ۔جنتیوں کا ہمیشہ جنت میں رہنا اور دوزخیوں کا ہمیشہ دوزخ میں رہنا ،نیت کے سبب ہے جو دائمی ہے ۔اگر مذکورہ بالا انجام بقدر عمل ہوتا ہے تو اسی زمانہ کے مقدار میں ہوتا ہے جتنے زمانہ تک عمل کیا ہے ۔
عمل میں ریاء عارض ہو جاتی ہے جسکی وجہ سے عمل فاسد اور بیکار ہو جاتا ہے بخلاف نیت خیر کے ،اسلئے کہ یہ امر باطن سے ہے جہاں ریاء کا گذر نہیں ۔
لہٰذا نیت کا خلوص بندۂ مومن کے لئے ا ز حد ضروری ہے تاکہ قرب خدا و رسول ﷺ میسر آسکے۔
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی (ایم اے)
سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال
E.Mail…peerowaisi@yahoo.com
0300-6491308/0333-6491308