لاہور (ویب ڈیسک) 29 اپریل کی ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس چونکا دینے والی ضرور تھی تاہم بہت خوش آئند بھی تھی۔ پہلی خوش خبری یہ تھی کہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کا سارا پول جو قبل ازیں صرف GHQ کو (بتوسط آئی ایس آئی) معلوم تھا پاک فوج کے اعلیٰ ریٹائرڈ افسر اور نامور کالم نگار لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب سارے پاکستان اور اس کے علاوہ ساری دنیا پر آئینہ ہو گیا۔ انڈیا اور افغانستان یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے کرتوت جو بوسیلہ ء NDS اور RAW بروئے عمل جا رہے تھے۔ شائد پاکستانیوں کی نظروں سے اوجھل رہیں گے۔ لیکن پاکستان نے تو باقاعدہ تواریخ اور مقامات کی تفصیل بتا کر مشتریوں کو ہوشیار کر دیا ہے۔ کابل، قندھار، جلال آباد اور نئی دہلی میں پاکستان کے خلاف پی ٹی ایم کی آڑ میں جو سازشیں کی جا رہی تھیں، ان کے ڈانڈے واشنگٹن(اور لندن) تک ملے ہوئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان نے جن ملکوں پر ویزے کی پابندیاں نرم نہیں کیں ان میں امریکہ، برطانیہ، انڈیا اور افغانستان شامل ہیں۔ کوئی بھی تحریک ہو اس کا فروغ پیسہ مانگتا ہے۔ بھوکا شخص زیادہ دیر تک نہیں لڑ سکتا اور بھوکی تحریک زیادہ دیر تک فاقہ کشی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ RAW، NDS اور MOSSADکو چھوڑیں کہ یہ سب CIA کے بغل بچے ہیں۔ جونہی جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس ختم ہوئی، CNN نے پاکستانیوں کے لئے ایک سوالنامہ جاری کر دیا کہ آیا پاک فوج کا موقف درست ہے یا پی ٹی ایم کا اور ایک ڈیڑھ گھنٹے کے اندر اندر CNNکے آقاؤں کو معلوم ہو گیا کہ پاکستان کی 89فیصد آبادی کس کے ساتھ ہے۔CIA کے کیل (NAIL) کی ٹوپی پر جو ضرب لگنے والی ہے، اس کا اندازہ شائد امریکیوں کو نہیں۔ پاک فوج امریکیوں کے خلاف چومکھی لڑ رہی ہے کیونکہ اس کے ساتھ تین درویش اور بھی ہیں۔ امریکہ، انڈیا، افغانستان اور اسرائیل کے چار الف مل کر قصہ ء چہار درویش تشکیل کرتے ہیں اور پاکستان کے ”میرا من“ کو ایک ایک درویش کی گدڑی کے اندر کی ساری خبریں معلوم ہیں۔ ہمارے ڈی جی آئی ایس پی آر کی اس کانفرنس نے مطبع منشی نول کشور کی عمارت کے سارے بام و در جو قبل ازیں شائد اکثر ”قارئینِ قصہ ء چہار درویش“ کو معلوم نہ تھے۔آئینہ کر دیئے ہیں۔ جنرل آصف غفور نے PTM کو جو وارننگ دی ہے اس کو عملی جامہ پہنانے کا ”عمل“ شروع ہو چکا ہو گا جو بوجوہ میڈیا کو نہیں بتایا جا رہا ہو گا لیکن جلد ہی پاکستانی میڈیا سمیت سارے اہل پاکستان کو معلوم ہونا شروع ہو جائے گا کہ بقولِ پنجابی محاورہ ”کس بھاؤ بِک رہی ہے“۔ اگر پاک فوج کو کابل و قندھار و جلال آباد و دہلی کی خفیہ خبریں مل سکتی ہیں تو کیا محمود خان اچک زئی، مولانا فضل الرحمن اور ان کے ہم نواؤں وغیرہ کی خبریں چھپی رہیں گی۔ اگر ان ”محب وطن پاکستانیوں“ کے کرتبوں کا پردہ چاک کرنے کے لئے فوج کے ترجمان نے ایک اور کانفرنس کر ڈالی تو پورے پاکستان کی ایک مخصوص اشرافیہ کے خرمن میں آگ بھڑک اٹھے گی۔ میرا اندازہ ہے جس طرح آرمی چیف نے PTM کے خلاف فوج کو روکا ہوا تھا اسی طرح شائد ان ملک دشمن پاکستانی عناصر کے خلاف ایکشن لینے میں بھی ڈھیل دی جا رہی ہے…… لیکن کب تک؟ اس کانفرنس میں دوسری بڑی خوشخبری 30,000مدارس کے 25لاکھ طلباء کو مین سٹریم تعلیمی نیٹ ورک میں لانے کی ھی۔ یہ کام جیسا کہ DGآئی ایس پی آر نے بتایا، آسان نہیں۔ اس میں مشکلات کے انبار ہیں اس لئے آرمی (اور حکومت) کا پروگرام ہے کہ اس کو تین مرحلوں میں مکمل کیا جائے گا۔ نصاب کی تبدیلی، اساتذہ کی نئی تقرریاں، مدارس کو سکول کی شکل دینے کے لئے نئے فرنیچر کی فراہمی، اساتذہ کی گریڈ بندی اور پنشن تک کا حساب کتاب، زیر تعلیم طلباء کا راشن پانی، ہر مدرسے کے ساتھ ایک بورڈنگ ہاؤس کی تعمیر، طریقہ ء تدریس (Teaching Methodology) اور موجودہ مدرسین کو محکمہ ء تعلیم کی مین سٹریم میں لانا بلاشبہ ایک نہائت کٹھن اور صبر آزما کام ہے…… لیکن چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ…… اس پراجیکٹ کا براہِ راست اثر مولانا فضل الرحمن اور ان کے ہم نوا مولانا صاحبان پر بھی پڑے گا۔ یہ مدرسے تو ان کی نرسریاں تھیں۔ اگر ان کا وجود ہی ختم ہو گیا تو ان کے لگائے ہوئے پرانے باغات اجڑ جائیں گے۔ اس لئے امید ہے کہ یہ گرینڈ سکیم، گرینڈ مزاحمت سے دوچار ہو گی۔ لیکن نئے باغات کی تعمیر کے لئے پرانے باغات کے کیکر، ببول اور جنڈ کریر کو صاف کرکے صرف پھلدار درخت باقی رکھنے پڑیں گے۔ ان مدارس میں سارا کچھ ہی قابلِ تبدیلی نہیں، بلکہ کچھ حصہ ایسا بھی ہے جس کو باقی رکھنا دینِ اسلام کی خدمت ہو گی۔ میرے خیال میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی اس پریس کانفرنس کی ایک تیسری خوش خبری بھی تھی جو بالواسطہ تھی اور جس کا اظہار اگرچہ برملا کر دیا گیا تھا لیکن بعض ناظرین و سامعین کو شائد اس کا عرفان نہیں ہوا ہو گا…… یہ خوشخبری حکومت اور فوج کے ایک صفحے پر ہونے کی تھی۔ اس اجمال کی تفصیل میں جائیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ مدارس کو محکمہ ء تعلیم کی مین سٹریم میں لانے کا کام تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا تھا۔ تعلیم کا بیشتر بجٹ صوبائی حکومتوں کے پاس چلا جاتا ہے اس لئے اس کا انتظام و انصرام و اہتمام تو زیادہ تر صوبائی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے…… فوج کا تو یہ کام نہیں کہ وہ وزارت مذہبی امور اور وزارت تعلیم کے فرائض بھی سنبھال لے۔ اس لئے جنرل آصف غفور نے جب اس پراجیکٹ کا اعلان کیا تو آرمی کے فوراً بعد حکومت کا نام لیا۔ یعنی یہ کام چونکہ قومی سطح کی اہمیت کا تھا، اس لئے حکومت کا نام بھی لیا گیا اور فوج کا بھی…… فوج کے نام کو اولیت اس لئے دی گئی کہ اس سکیم کے خلاف جو طوفان اٹھنے والا ہے، اس کو جب حکومت سنبھالے گی اور اس کا کاؤنٹر وضع کرے گی تو اس کو فوج کی سپورٹ کی ضرورت ہو گی۔ دوسری طرف عالم یہ ہے کہ 2019-20ء کا بجٹ سر پر آ گیا ہے لیکن مہنگائی کا عفریت زیادہ خوفناک ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں۔ پٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی ’خوش خبریاں‘ بھی گردش کر رہی ہیں۔جب آپ یہ کالم پڑھیں گے تو شاید PTM سے نمٹنے اور مدارس کو مین سٹریم میں لانے کی جن خوش خبریوں کا ذکر سطور بالا میں کیا گیا، وہ ضرور گہنا جائیں گی۔ پیسہ چونکہ تمام کامیابیوں کی کلید ہے اس لئے جب تک اس ”پیسے“ کا کوئی بندوبست نہیں ہو جاتا، تب تک مستقبل کے تمام سہانے خواب،سبز باغ بنے رہیں گے۔ پی ٹی آئی نے اپنا نیا وزیر خزانہ بھی پٹاری سے نکال دیا، انہوں نے IMF سے مذاکرات کا ڈول بھی ڈال لیا، وزیراعظم نے چین کا چار روزہ دورہ کر کے درجنوں مواعید بھی جیب میں ڈال لئے لیکن ایک عام پاکستانی کو اس نئی حکومت اور نئے پاکستان سے کیا ملا، یہ ایک درد انگیز اور کربناک سوال ہے۔ گزشتہ دنوں (اور آج بھی) مجھے کئی بار حضرتِ اقبال یاد آتے رہے: ترا جلوہ کچھ بھی تسّلیء دلِ ناصبور نہ کر سکا ۔۔ وہی گریہء سحری رہا، وہی آہِ نیم شبی رہی ۔۔ جنرل آصف غفور کی پرسوں کی پریس کانفرنس سے پہلے GHQ اور ایوانِ وزیراعظم میں راتوں کا بہت سا تیل جلایا گیا ہو گا۔ فوج ایک ایسا منضبط (Disciplined) ادارہ ہے کہ جب تک کسی پلان کی نوک پلک اور اس کے سارے نشیب و فراز پر کھل کر بحث و مباحثہ نہیں کیا جاتا، تب تک اس پلان کو زیرِ عمل لانے کا حتمی اعلان نہیں کیا جاتا۔ اس لئے اگر فوج کی طرف سے یہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ PTM اور مدارس میں انقلابی تبدیلیاں لانے کا فیصلہ ہو چکا ہے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ ان پر اٹھنے والے اخراجات پر بحث نہیں ہوئی ہو گی۔ میرا خیال ہے کھل کر ہوئی ہو گی اور فوج نے حکومت کو اور حکومت نے فوج کو پوری طرح اعتماد میں لیا ہو گا…… یہاں آخر میں ایک اور منصوبے کا ذکر بھی شائد بے محل نہ ہو۔ اس کی پلاننگ اگرچہ ہر حکومت نے اپنے اپنے ادوار میں کی ہے۔ خواہ فوجیوں کی حکومت تھی یا سویلین کی لیکن اس پلان پر کماحقہ کام نہیں ہو سکا۔ میری نظر میں یہ منصوبہ، پاکستان کے سارے عوارض کا علاج اور ساری ابتلاؤں کا مداوا ہو گا۔ جب تک یہ منصوبہ زیر عمل نہیں لایا جائے گا پاکستان کی ترقی کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میرا اشارہ ”خاندانی منصوبہ بندی“ کی طرف ہے۔ اس میں بھی فوج کے ساتھ مل کر کوئی ایسا نسخہ ء کیمیا تلاش کیا جانا چاہیے جس کا اعلان بھی کوئی ڈی جی آئی ایس پی آر کرے اور جلد کرے…… اس میں لاتعداد مشکلات ہیں۔ اور ایک کڑوا گھونٹ بھی ہے اور وہ گھونٹ قوم کو جلد از جلد حلق سے نیچے اتار لینا چاہیے۔ اس گھونٹ کے اجزائے ترکیبی اور مائعاتِ اساسی کو ترقی یافتہ اقوام کی شرحِ آبادی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ میری نظر میں اب قوم کو پیڑ نہیں گننے چاہئیں، آم کھانے کی فکر کرنی چاہیے۔ ہم تو جانیں ایک ہی بات ۔۔ صابن ہو تو سات سو سات ۔