برمنگھم ( ایس ایم عرفان طاہر سے ) تارکین وطن دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات قائم رکھنے کے لیے موئثر کردار ادا کریں ، سفارتخانے کے زریعہ سے اپنی کمیونٹی کو درپیش مسائل کے حل کے لیے تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے ، نوجوان نسل دیار غیر میں کامیاب ہم وطنوں کی پیروی کو اپنا نصب العین بنائیں۔ ان خیالات کا اظہا رقو نصلر جنرل آف پاکستان برمنگھم سید احمد معروف نے نوجوان صحافی و معروف کالم نگا ر ایس ایم عرفان طاہر کو تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہاکہ گذشتہ سال 29 دسمبر کو اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تو ابتدائی طور پر خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا برمنگھم قونصلیٹ کی پرانی بلڈنگ خستہ حالی کا شکار تھی سرفہرست اسے تبدیل کرنے اور بہتر پوزیشن میں لانے کے لیے دن رات کوشاں رہے۔ قونصلیٹ کی نئی بلڈنگ کے قیام میں کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ پو ری ٹیم کا موئثر کردار رہا ہے اس میں وزیراعظم اسلامی جمہو ریہ پاکستان میاں محمد نواز شریف سے لیکر مشیر خارجہ سرتاج عزیز ،سید طارق فاطمی ، سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چو ہدری ، ہائی کمشنر سید ابن عباس اور تمام لوگوں کی کا وشیں شامل ہیں۔
پرانی بلڈنگ کی وجہ سے بھی عوام الناس کو خاصے مسائل کا سامنا تھا جس کی وجہ سے پاکستانی سفارتخانے کا ایک غلط تاثر جاتا تھا اسلیے ترجیح بنیا دوں پر تمام ضروریات اور عوام الناس کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے نئی بلڈنگ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ جہا ں پر نادرا کارڈ، پاسپورٹ اور دیگر سہولیات کو احسن انداز میں باہم پہنچایا جا رہا ہے۔ سب سے بڑی کامیابی اور خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ نئی بلڈنگ کسی پرائیویٹ شخص کی نہیں بلکہ برمنگھم سٹی کونسل کی ملکیت ہے۔
اس حوالہ سے تمام تر گزارشات مکمل کر کے وزارت کو بھجوائی گئیں اور آج لوگ ایک پر وقار اور بہتر ماحول میں ہماری سروسز سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ رواں سال 16 جون کو نئی بلڈنگ کی چابی حاصل کی گئی اور تمام تر قواعد و ضوابط اور لوازمات پو را کرنے کے بعد حالیہ 14 اگست کو پاکستان ہا ئی کمشنر برطانیہ سید ابن عباس نے ایک عظیم الشان افتتاح کیا۔ 8 ہفتوں میں اس شاندازر منصوبے کی تکمیل بہت بڑی کا میا بی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ رواں سال مارچ سے قبل کسی بھی کام کے لیے فزیکلی طور پر قونصلیٹ میں آنا پڑتا تھا۔
جس کی وجہ سے ہر شخص کا نہ صرف وقت ضائع ہوتا رہا بلکہ شدید سردی اور موسم کی خرابی کے باوجود لمبی قطاروں اور طویل انتظار کے باعث نفسیاتی ازیت سے بھی دوچارہونا پڑتا تھا لیکن ما رچ کے بعد تا حال آن لائن سسٹم AMS متعارف کروایا گیا ہے جس کی بدولت نہ صرف لمبی قطاروں اورہجوم سے نجات حاصل ہو گئی ہے بلکہ با آسانی گھر بیٹھے ہو ئے اپنی مرضی کی تاریخ اور وقت کا انتخاب کرلیا جاتا ہے اس وجہ سے بہت سارے دوسرے مسائل اور خرابیوں سے بھی نجات حاصل ہوگئی ہے۔
ارجنٹ نا درا کا رڈ تقریبا 15 روز کے اندر پاکستان سے بن کر برطانیہ پہنچ جا تا ہے اور نارمل شناختی کا رڈ میں 4 سے 5 ہفتے درکا ر ہو تے ہیں ۔ انہو ں نے پاسپورٹ کے اجراء با رے تفصیلا ت بتاتے ہو ئے کہا کہ پہلے مینول پاسپورٹ یعنی ہا تھ سے تیا ر ہو تا تھا جس میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھابرمنگھم کے رہنے والوں کو کمپیوٹرائزڈ پاسپورٹ کے لیے بریڈ فورڈ یا لندن کا رخ کرنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے خاصی مشکلا ت پیش آتی تھیں لیکن موجودہ سال مئی سے مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ( MRP ) کی سہولت مہیا کر دی گئی ہے جس کے باعث کام خاصا آسان ہو گیا ہے۔
انگھوٹوں کے کے نشان اور دستخط مشین کے زریعہ سے لیے جاتے ہیں ارجنٹ پاسپورٹ ایک ہفتہ میں اور نارمل 2 یا 3 ہفتوں میں تیا ر ہو جا تا ہے۔ انہوں نے کہاکہ موجود ہ ہائی کمشنر کا یہ ایک عظیم کا رنامہ ہے کہ برطانیہ میں موجود پانچوں سفارتخانوں کی حدود کا تعین مخصوص ایریا کے لیے نہیں بلکہ اپنی کمیونٹی کو با ہم سہولت پہنچا نے کے لیے مزید آسانی فراہم کردی ہے کوئی بھی شخص جو برطانیہ میں مقیم پاکستانی ہے برمنگھم سمیت گلا سگو ، مانچسٹر ، بریڈ فورڈ یا لندن کسی بھی ایریا کے قونصلیٹ سے اپنی ضرورت کو پورا کرسکتا ہے۔
اس سے قبل متعلقہ علاقہ کے رہائشی کو اہمیت دی جا تی تھی ۔ برمنگھم مڈلینڈز اور ویلز کے ایریا کے لوگوں کو سہولیات فراہم کرتا ہے ۔ برطانیہ میںموجود کوئی بھی پاکستانی شہریت رکھنے والا شخص یہاں اپنا شناختی کارڈ ، پاسپورٹ یا دیگر سہولیات سے استفادہ حاصل کر سکتا ہے اس میں کوئی رکا وٹ نہیںہے ۔ انہو ں نے کہاکہ ہا ئی کمشنر اور اپنے دوسرے اعلیٰ آفیسران کی موجود گی میں اپنے شہریوں کو بہتر سے بہتر سہولیات بلا روک ٹوک پہنچا نے کا عزم رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ کمیونٹی کے افراد کو بھی چاہیے کہ اپنے سفارتخا نے کے ساتھ مکمل تعاون کو یقینی بنائیں اسے اپنا گھر سمجھتے ہو ئے اس کی سہولیا ت سے مثبت طور پر فائدہ حاصل کریں اس کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ ضابطہ اور قانون کی پاسداری کو ملحوظ خا طر رکھتے ہو ئے عملے کے ساتھ تعاون کو یقینی بنایا جا ئے۔
انہوں نے کہاکہ اگر کوئی شخص کسی سرجری کے زریعہ سے اپنا شناختی کارڈبنوا لیتا ہے تو اسے اس بات کو یقینی بنانا چا ہیے کہ وہ آن لائن درخواست نہ دے بلکہ اگر سرجری میں اس نے اپنے کارڈ کے لیے درخواست جمع کروادی ہے تو آن لائن منصوخ کردے تمام تر تفصیلات ہماری ویب سائیٹ پر موجود ہیں مزید سہولیات کے لیے ٹیلی فون پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ اگر کوئی شخص سرجری اور آن لائن دونوں کے لیے درخواست جمع کرواکر کسی ایک کو کینسل نہیں کرتا تو اس کی وجہ سے دوسرے کئی لوگوں کا وقت ضائع ہوتا ہے اور ہمیں بھی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اپنی کمیونٹی کے ساتھ ساتھ دوسری کمیونٹیز کے ساتھ بھی اچھا تعلق قائم کرنے کے لیے قونصلیٹ انٹرفیتھ اور انٹرکلچرل سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہے۔ انہوں نے کہاکہ قونصلیٹ کے زیر سائیہ اپنے ہر پروگرام میں ہما ری یہی خواہش ہوتی ہے کہ ایک ہی چھت کے تلے بلا تفریق تمام کمیونٹیز کو یکجا کیا جائے تاکہ رواداری اور اتحاد و اتفاق کی ایک فضاء قائم ہو سکے۔ انہوں نے کہاکہ اس سے نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ بہتر تعلقات استوار ہو تے ہیں بلکہ دلوں میں موجود قدورتوں اور نفرتون کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ میری اپنے ہم وطنوں سے یہی درخواست ہے کہ جو لوگ بالواسطہ یا بلا واسطہ پاکستان کے ساتھ وابستہ ہیں انہیں چا ہیے کہ دونوں ملکوں کو کو ایک دوسرے کے قریب لا نے میں پل کا کردار ادا کریں پاکستان اور برطانیہ دونوں کے قوانین کی پاسداری کو ترجیح دیتے ہو ئے دونوں ممالک کی عزت کریں کیونکہ یہ دونوں ممالک ہما ری ان ما ئوں کی مانند ہیں ایک ماں وہ جس نے ہمیں جنم دیا اور ایک وہ جس نے ہماری پرورش کی ہمیں اپنی دونوں شناختوں پر فخر ہونا چا ہیے اس حوالہ سے ایسے اقدامات اٹھا ئے جائیں جس سے دونوں ممالک کو ناز ہو قربتوں محبتون اور چا ہتوں میں خا طر خواہ اضافہ ہو۔
ہماری نوجوان نسل کے لیے ایسی بے پناہ مثالیں موجود ہیں جن لوگوں نے اس ملک میں آکر نہ صرف اپنے ملک کا نام روشن کیا بلکہ اپنے والدین اور قوم کے لیے بھی قابل فخر بنے ایسے افراد کی پیروی ضرور کرنی چا ہیے۔ انہو ں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ برطانیہ میں مقیم طلباء و طالبات کو سب سے زیادہ جو مشکلا ت درپیش ہیں ان میں سرفہرست جو مسئلہ ہے وہ یہی ہے کہ انہو ں نے جن تعلیمی اداروں میں داخلہ لیا ہے وہ با قاعدہ طور پر رجسٹرڈ نہیں ہیں اور نہ ہی برطانوی حکومت انکو قبول کرتی ہے اسلیے ہمیں 100 فیصد اس بات کو یقینی بنانا چا ہیے کہ جس کالج یا یونیورسٹی میں وہ داخلہ حاصل کر رہے ہیں وہ رجسٹرڈہیں اور غیر قانونی تو نہیں ہے انہو ں نے کہاکہ قونصلیٹ آئندہ مستقبل قریب میں برطانوی حکومت اور تعلیمی ذمہ داران کے باہمی تعاون سے ایک لسٹ تیا ر کرے گا۔
جس میں تمام ایسے اداروں کو نامزد کیا جائے گا جو کہ قانونی طور پر رجسٹرڈ اور قابل قبول ہیں اور اس لسٹ کو نہ صرف قونصلیٹ کی ویب سائیٹ پر آویزاں کیا جا ئے گا بلکہ پاکستان ہا ئیر ایجوکیشن کمیشن اور دیگر متعلقہ اداروں کو بھی یہ معلومات فراہم کی جا ئیں گی تاکہ طلباء و طالبات کو قبل ازوقت بہتر اور مفید معلوما ت فراہم کی جا سکے۔ انہوں نے مستقبل قریب کے منصوبہ جا ت سے متعلق معلوما ت فراہم کرتے ہو ئے بتایا کہ عوام الناس اور قونصلیٹ کے مابین کمیونکیشن کا جو خلاء پیدا ہو گیا ہے اسے مکمل طور پر ختم کیا جائے گاکمیونٹی کو معلومات بلا ترتیب احسن انداز میں فراہم کی جائیں گی کہ انہیں کسی قسم کی کوئی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے جب انہیں گھر بیٹھے ہو ئے باآسانی تمام تر معلومات حاصل ہو جائیں گی تو دیگر شکایات اور مسائل خود بخود رفا ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہاکہ عنقریب پی اے بی ایکس ٹیلی فونک انفارمیشن سسٹم بھی عوام کی سہولیات کے لیے مہیا کیا جائے گا جس سے وہ ایک فون کال کے زریعہ سے اپنے تمام تر مسائل کا حل تلاش کرتے ہو ئے اپنی ضروریات کو پورا کرسکیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہر شخص کو سفارتخا نے میں کام سے متعلقہ درست معلومات فراہم ہوگئیں تو تمام تر دیگر مسائل خود بخود کم ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ گردو نواح میں موجود کمیونٹی کو نادرااور سمارٹ کارڈ ز کی سہولت کے لیے مختلف علاقوں میں سرجری بھی قائم کی جائے گی تا کہ لوگوں کو انکے گھروں کی دہلیز پر سہولت میسر کی جائے یہ سلسلہ ہر ماہ کے دوسرے ہفتہ میں جاری رہے گا۔ نوجوان نسل کے لیے میرا یہی پیغام ہے کہ اپنی روایات کو قائم رکھتے ہو ئے علم و عمل کی طرف توجہ دیں تاکہ تعمیرو ترقی کی منازل رفتہ رفتہ طے کی جاسکیں۔