تحریر: یاسر رفیق
آج کا نوجوان صحافی بے شمار مشکلات کا شکار ہے۔ان مشکلات میں مالی ،معاشی اور جانی مشکلات شامل ہیں۔ایک نوجوان صحافی ابلاغ عامہ میں گریجویشن یا ماسٹر یہ سوچ کرکرتا ہے کہ وہ ڈگری لینے کے بعد جلد از جلد کسی ادارے کو جوائن کر لے گا اور بطور نوجوان صحافی وہ کرپشن اور فراڈ کے بے شمار سکینڈل سے پردہ اٹھائے گا صحافت کی دنیا میں انقلاب لائے گا دن رات ایک کرکے اپنا نام پیدا کرے گا لیکن یہ خواہشات ڈگری لینے سے پہلے کی ہے آئیے ذرا ڈگری مل جانے کے بعد کی صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں ہر نوجوان صحافی کا خواب میڈیا کے سب سے بڑے ادارے کو جوائن کرنا اور پہلے ہی دن بطور اینکر اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہوتا ہے لیکن فقط یہ خواب ، خواب ہی ہے ایسا ہونا پاکستان کی تاریخ میں ناممکن ہے۔ ایک نوجوان صحافی ہاتھ میں ڈگریوں کا پلندہ تھامیں سب سے بڑے میڈیا ہاؤس میں جب جاتا ہے تو سب سے پہلے میڈیا ہاؤس کے سیکورٹی گارڈ سے اس کا واسطہ پڑتا ہے جو پوچھ گچھ کے بعد استقبالیہ پر بیٹھی محترمہ کے پاس بھیج دیتا ہے۔ لی جیئے جناب مکالمہ شروع ہو گیا۔
نوجوان صحافی:اسلام علیکم
میڈم :وعلیکم سلام.جی بولیے نوجوان صحافی:میں نے ماس کمیونیکیشن اور صحافت کی تعلیم مکمل کی ہے آپ کے ادارے میں اپلائی کرناچاہتا ہوں میڈم :جی بالکل۔ آپ ایسا کریں مجھے اپنا سی وی دے جائیں جب ہمیں ضرورت ہوگی ہم بلا لیں گے نوجوان صحافی:بڑے ادب واحترام سے اپنی سی وی استقبالیہ پر بیٹھی محترمہ کے حوالے کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ میڈم کب تک مجھے بلا لیا جائے میڈم :میں نے کہا ہے کہ جب ہمیں ضرورت ہو گی ہم آپ کو خود کال کریں گے اور انٹرویو کے لیے بلائیں گے نوجوان صحافی:شکریہ ہر نوجوان صحافی اسی سوچ کے ساتھ واپس پلٹتا ہےکہ اسےجلد نوکری کے لیے کال آ جائے گی اور بھر پور طریقے سےاپنا سفر شروع کرے گا لیکن پاکستان میں دوسرے اداروں کی طرح ایک نوجوان صحافی کو بھی نوکریوں کے معاملات میں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے آخرکار جو نوجوان صحافی جو بڑے بڑے میڈیا ہاؤس میں جانےکے خواب دیکھتے ہیں مجبور اور بے بس ہو کر چھوٹے اداروں میں اپلائی کرتے ہیں۔
جہاں ہر نوجوان صحافی کو یہ کہا جاتا ہے کہ ادارے کو بزنس دو اشتہار دو اس صورتحال میں ہر نوجوان صحافی بلیک میلر اور چور زیادہ اور صحافی کم نظر آتا ہے اور اس مقدس پیشے کو جسے کسی بھی مملکت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہےانتہائی برے طریقے سے بدنام کیا جا رہا ہے آج صحافت کے مقدس پیشے میں کرپٹ لوگ اور پراپرٹی ڈیلر بھی اپنے آپ کو صحافی کہلا رہے ہیں جو صحافت کا نام لے کربلیک میلنگ اور کرپشن کر رہے ہیں جو سراسر غلط ہے آج نوجوان صحافیوں کے نام پر بے شمار نام نہاد تنظیمیں سرگرم ہیں جو نوجوانوں کے حقوق کی بات کم اور ذاتی مفاد کے لیے زیادہ کام کرتی ہیں اور آج تک یہ نام نہاد تنظیمیں حکومت پاکستان سے ایک صحافتی اکیڈمی منظور نہ کروا سکیں ۔ میں صحافت کے ایک ادنیٰ طالبعلم کی حیثیت سے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ان لوگوں سے گزارش کرتا ہوں جو صیح معنوں میں صحافتی کردار ادا کر رہے ہیں کہ پاکستان میں نوجوان صحافیوں کی درپیش مشکلات کے حوالے سے مثبت اور موثر آواز اٹھائی جائے نوجوان صحافی کو بلیک میلراور چور بننے سے بچایا جائے اور نوجوان صحافیوں کی مشکلات کم کرنے میں مدد کی جائے.۔
نام :یاسر رفیق
ای میل:yasirrafique985@gmail.com