تحریر: انجینئر افتخار چودھری
ویسے جی تو یہ بھی سکتا تھا۔ایک اور قیدی ہو جاتا تعداد ٩٠ ہزار ایک ہو جاتی جن میں جنرل امیر عبداللہ خان نیازی، جنرل نصیر اللہ خان بھی شامل تھے۔وہ بوڑھے گدھ جو پاکستان کو نوچتے رہے اور ہماری افواج کا نام ڈبو گئے۔ یقین کیجئے ١٩٧١ میں جو خوب لڑے ان کو لوگ بھلا گئے ایک اور جنرل عبدالمجید ملک بھی تھا جس نے قیصر ہند فتح کیا مگر کہتے ہیں نہ کہ ایک بڑی شکست چھوٹی فتح کی قاتل ہوتی ہے اسے کھا جاتی ہے۔ جنرل مجید ملک نے جدہ کے مہران ہوٹل میں مجھے بتایا کہ ان کی زیر کمان ہمارے شیر کیسے لڑے۔یہ داستانیں چوپالوں بیٹھکوں میں تب سنی سنائی جاتیں جب نیازی وہاں مشرقی بارڈر پر لید نہ کرتے ۔میرا بیٹا نوید بتا رہا تھا راشد منہاس نوجوان نے ابھی جام عمر بھرا ہی نہ تھا چھوٹی عمر میں بڑا کام کر گیا۔وہ کیا شعر یاد آیا۔
ابھی جام عمر بھرا نہ تھا کف دست ساقی چھلک پڑا
رہی دل کی دل میں ہی حسرتیں کہ نشان قضا نے مٹا دیا
میں نے اپنے بچوں کو دلیری اور بہادری کی داستانیں بچپن میں ہی سکھا دی تھیں۔لوگ جب بغل میں انڈین فلوں کی کیسٹیں دبا کر گھر آیا کرتے میں انہیں جدہ کے محلہ عزیزیہ میں پاکستان دکھاتا رہا۔نوید آج شکریہ ادا کر رہا تھا کہ میں نے انہیں میجر طفیل گجر۔راجہ عزیز بھٹی۔سرور شہید۔اور راشد منہاس کی فلمیں دکھائیں۔
یقین کیجئے ہم لوگ اپنی اولادوں کے ساتھ ظلم کرتے ہیں۔مائیں آج اپنے بچوں کو فضول اور لغو کارٹونز لگا کر دے دیتی ہیں اگر نسل کارٹونوں جیسی حرکات کرتی ہیں تو ان بے چاروں کا کیا قصور؟ مجھے بتائیں راشد منہاس کہاں سے پیدا ہوں گے۔بنگلہ دیش کی آزادی کے لئے فائٹر مطیع الرحمان اپنے ملک کے لئے لڑ رہا تھا اسے بھی وہاں کا سب سے بڑا اعزاز دیا گیا۔لیکن ہمارے اس نوجوان کا اعزاز کمال کا ہے بیس کے پیٹے کا راشد منہاس جو ابھی ماں کے ہاتھوں کے نوالے کھاتا کھاتا مسرور ایئر بیس گیا تھا۔اسے کیا پتہ تھا کہ ایک تجربہ کار گدھ ایک شاہین پر جپٹے گا۔
طیارہ ہندوستان کی طرف بڑھ رہا تھا اس پر مطیع جھپٹ چکا تھا اس نے آخری پیغام دیا کہ میری لڑائی جار ہے آپ پیچھے بیس کی فکر کریں۔یہ نوجوان ١٧ فروری ١٩٥١ کو کراچی میں پیدا ہوا اور آج کے دن ١٩٧١ کوجام شہادت نوش کر گیابچپن لاہور میں گزارا اور کچھ عرصہ راوالپنڈی میں سینٹ میری کیمبرج اسکول راولپنڈی میں تعلیم حاصل کی بعد میں وہ کراچی والدین کے ساتھ چلے گئے اقابال کے اس شاہین کو شروع ہی سے ہواباز بننے کا شوق تھا کھیل کھلونے ہوائی تھے۔شائد کاتب تقدیر نے اسے ہوائوں کا مسافر بنانا تھا اسی لئے ننھے راجپوت کی رغبت بھی جہاز تھے۔میں جب بھی کوئی بات لکھتا ہوں تو میرے ذہن میں لاکھ سوال ابھرتے ہیں۔کہ کیا ہماری نئی مائیں راشد منہاس پیدا کریں گی۔
خصوصا اس ماحول میں کہ جب ہم ازلی دشمن کی ثقافتی لڑائی میں ہار مان چکے ہیں۔اللہ کرے میرا گھمان غلط ہو لیکن آج کی نسل کو جب میں ڈورے مان کے کارٹونوں میں گم دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ ہم ترس کے رہ جائیں گے۔اللہ سب کے مائوں کے بچے محفوظ رکھے لیکن جو عظمت دلیری کی مثال ١٩٧١ میں ایئر فورس جائن کرنے والے پائلٹ آفیسر راشد منہاس پیش کی شائد وہ کبھی نہ مل سکے۔اسے جب یہ معلوم ہوا کہ ایک تجربہ کار آفیسر کی آنکھ میں سور کا بال اترا ہے تو اس نے کمال بہادری مظاہرہ کیا۔بعد کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ راشد نے آخری لمحات میں کاک پیٹ ایجیکٹ کر دیا تھا اس لئے کہ اس کا جسد خاکی غدار کے جسم سے دور پایا گیاا۔مطیع کاک پٹ کے باہر مردہ پایا گیا جب کے راشد کاک پٹ کے اندر ہی شہید ہوئے۔شائد منہاس نے اس وقت ایجیکٹ کیا جب زمین بہت قریب تھی۔
کالم کے شروع میں ایک بات لکھی تھی کہ کیا جنرل نیازی ایسا نہیں کر سکتا تھا کی ٣٦٠٠٠ آرمی کے لوگ لڑتے لڑتے مر نہیں سکتے تھے؟ ہمیں بتایا گیا کہ نوے ہزار قیدی نہیں چھتیس ہزار ریگولر آرمی کے تھے ۔یقین کیجئے پوری مسلم تاریخ میں یہ سیاہ داغ ہمیشہ رہے گا۔آج اس نوجوان کی قربانی کو یاد کرنے کا دن ہے پتہ نہیں جب بھی یہ لوگ یاد آتے ہیں تو مجھے ١٩٧١ یاد آ جاتا ہے۔میں اس جنگ میں رضا کار تھا گجرانوالہ کے محلے باغبانپورے کی گلیوں میں دسمبر کی سیاہ راتوں کو سیٹیاں بجایا کرتا تھا۔١٦ دسمبر کے سیاہ دن کو جب ڈاکٹر شمس کی دکان پر مکیش کے گانے لگے تھے آج کسی کی ہارہوئی ہے آج کسی کی جیت گائو خوشی کے گیت۔میں نے اس دن کچھ نہیں کھایا میں اپنی بھینس کو چارہ ڈالنا بھی بھول گیا میرا ملک کیا ٹوٹا دل بھی ٹوٹ گیا۔اگر ڈھاکہ کا بدلا نہ لیا گیایقینا یہ چھبن دل میں لے کر مروں گا ۔بس سوچتا رہتا ہوں کہ شکست تو مان لینے والوں کو ہوتی ہے۔
جنرل نیازی اور نصیر اللہ بابر جیسے جرنیلوں نے مانی کیوں؟کیا وہ اس نوجوان سے بھی گئے گزرے تھے ؟مر تو گئے ناں آج راشد منہاس کی قبر پر چراغاں ہوتا ہے سلامی دی جاتی ہے کیا ان جرنیلوں کی قبر پر کوئی جاتا ہے؟راشد منہاس کی ماں کو سلام کہ جس نے وہ بچہ جنا جس نے ہار نہیں مانی اور جان دے دی۔تصور کیجئے ایک جہاز اور ایک پائلٹ لے کر غدار بنگالی دشمن کی سر زمین پر اترتا تو یہ جنگ اور بھی ذلت آمیز ہو جاتی۔راشد منہاس جیسے جوان ہماری بہادری اور دلیری کی امانت ہیں ہیں۔خدارا اپنے بچوں کو جنگی کھلونے دو انہیں سکھائو کہ دشمن نے دوستی نہیں کرنی اس نے مشرقی پاکستان کے بعد گلگت بلتسستان اور بلوچستان آنا ہے۔اگر کوئی آپ کو یہ کہے کہ دوستی امن بھائی چارہ اچھا ہے تو اسے یہ بھی بتا دینا کہ سپاں دے پت کدی مت نئیں بن دے بھانویں چلیاں ددھ پلائے ہوو ہندوستان کبھی دوست نہیں بننے والا۔اگر کوریا اور جاپان دشمن بن کر ترقی کر سکتے ہیں تو ہم بھی ترقی کر ہی لیں گے۔راشد منہاس تجھے سلام۔جی او شیرا۔
تحریر: انجینئر افتخار چودھری