تحریر:اقراء خان
مجھے سکول نہیں جانا! یہ جملہ بہت سے بچے ہر روز دہراتے ہیں اور بعض مرتبہ تو اس شدت سے اس پر ڈٹ جاتے ہیں کہ والدین پریشان ہو جاتے ہیں نتیجاً ڈانٹ ڈپٹ کر اور بعض اوقات تو مار پیٹ کر بچوں کو سکول جانے پر آمادہ کیا جاتا ھے۔۔ لیکن کیا کبھی کسی نے یہ جاننے کی کو شش کی ھے کہ وہ کونسا محرک ھے جو ھمارے مستقبل کے معماروں کو تعلیم کو ایک بوجھ سمجھنے پر مجبور کر رہا ھے۔کسی بھی معاشریکا سب سے اہم پہلو تعلیم ھے۔
جس کے بغیر معاشرہ بے شمار سماجی، نفسیاتی اور معاشرتی بیماریوں کاشکاررہتاہے۔تعلیم معاشرے کا اہم عنصرہے۔اس کے بغیر کوئی بھی معاشرہ کبھی ترقی کی منزل طے نہیں کرسکتا۔ اس لیے مہذب معاشرے کیلئے تعلیم بہت ضروری ہے۔ھم کہہ سکتے ہیں کہ تعلیم اور معاشرہ دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔آج اگر تعلیم یافتہ معاشروں کو دیکھا جائے تو وہ ترقی کی کئی منزل طے کر چکے ہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی نت نئی ایجادات تعلیم کی ہی مرہون منت ہیں۔۔ نفسیات کہتی ھے کہ انسان ایک سماجی حیوان ھے اور کسی بھی سماج یا معاشرے میں اپنا مقام بنانے کا شعور تعلیم ہی دیتی ھے۔۔
تعلیم خواہ کسی بھی درجے کی ہو دین کی تعلیم یا دنیاوی تعلیم آج کے بچے اس سے نالاں ہی نظر آتے ہیں۔ میرا اپنا تجزیہ تو یہ کہتا ھے کہ شاید تعلیم سے یہ دوری سزا کے خوف سے آئی ھے۔۔۔جدید دور جیسے جیسے ترقی کر رہا ھے۔۔ویسے ویسے ہی نوجوان نسل اس ترقی کا غلط استعمال کر رہی ھے اس کی ایک مثال تو موبائل کا بے جا استعمال اور سوشل نیٹورکنگ ہے رہی سہی کسر کیبل نیٹورک نے پوری کر دی ہے۔ظاہری سی بات ھے جب پورا دن اور پوری رات ٹی۔وی،فلمیں یا نیٹ سرچنگ میں گزرے گی تو پڑھائی کیا خاک ہو گی ایسے میں جب ہوم ورک یا اسائمنٹ کمپلیٹ نہ کرنے پر جو سزا ملتی ہے وہ آج کے بچے میں باغیانہ خیالات پیدا کرتی ہے بچے ہوں یا نوجوان سب پڑھائی کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔۔ ایک وجہ ھمارے نصاب کا انگریزی زبان میں ہونا بھی ہے۔۔۔پرائیوٹ سکول تو چلو کسی حد تک اس پرابلم کو حل کر لیتے ہیں
لیکن ھماریملک میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد پرائیوٹ سکولز کہاں افورڈ کر سکتی ہیاور رہی بات سرکاری سکولز کی تو وہاں کی بلڈنگ سے لیکر استاتذہ تک میں سے کوئی چیز ایسی نہیں جو بچے کی پڑھائی میں دلچسپی کا باعث بنے اس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ سرکاری سکول کے٠٩ کی دہائی کیا ستاتذہ ہیں جوماڈرن انگریزی کے ایچ کو ایچ زیڈ کو زی پڑھنے کی کوشش میں کچھ اور ہی پڑھا جاتے ہیں اس کا سب سے بڑا نقصان تو یہ ھے کہ بچہ ایک تو غلط تلفظ سے پڑھتا ہے اور دوسرارٹا لگانے لگتا ہے
رٹا آخر کب تک کام آتا ہے اور نتیجہ ہر سال تعلیمی میدان میں رزلٹ کا معیار گرتا ہی جا رہا ہے ایک تحقیق کے مطابق پانچویں کلاس کے57 فی صد طلبائ نہ تو دوسری کلاس میں پڑھائے جانے والے انگریزی کے جملے پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی سادہ تقسیم کے سوالات حل کر سکتیہیں انگریزی نصاب کی بچوں پر جو چھاپ لگائی جا رہی ہے اس کے نتیجے میں نوجوان نسل اپنی قومی زبان سے محروم ہو رہی ہے۔میرے مشاہدے کے مطابق پانچویں کلاس ہی کیبہت سیبچیدوسری کلاس میں شامل اردو کی کہانیاں نہیں پڑھ سکتے۔۔افسوس ہم نے انگریزوں سے تو نجات پا لی مگر انگریزی کے غلام ہو گئے آج کسی بھی ملک کی ترقی کا میعار اس کی انگریزی زبان پر ہے نہ کہ قومی!بات ہو رہی تھی رٹے کی تو۔۔۔۔
جب بھی ایگزام کے بعد کسی کو پوچھا جائے۔۔۔۔کیسا ہوا پیپر اگلہ خوشی خوشی کہتا ھے بہت اچھا۔۔۔ اور بہت اچھا کہ باوجود رزلٹ وہی مرغی کی ایک ٹانگ۔۔۔۔ ایسے میں بچہ مایوس ہو جاتا ہے وہ یہ نہیں سمجھتا کہ رٹے رٹائے سوال جواب ہر بار کام نہیں آتے اور الزام سارا سسٹم پر تھوپ دیا جاتا ھے کہ جی سسٹم ہی ایسا ہے ھمیں پڑھنا ہی نہیں۔میں مانتی ہوں کہ سسٹم بھی قصوروار ہیبلکہ بہت حد تک قصور سسٹم کا ہی ھے۔بچے کو اسکی قابلیت اسکی تعلیمی استعداد سے ذیادہ سبق دے دیا جاتا ھیبغیر سمجھے اور سمجھائے بس حکم جاری کیا جاتا ھے۔۔یہاں سے وہاں تک یاد کر لیجئیے۔۔۔ لیکن سچی بات تو یہی ہے کہ سسٹم بھی تو ھم لوگ بناتے ہیں اور اپنے سسٹم کو بہتر بنانے کے لئیے کوئی اقدام نہیں کرتے۔۔۔بلکہ جو ہیجیسا ھے کی بنیاد پر بس اندھا دھند تقلید کیے جا رہے ہیں۔۔۔
تعلیم سے دوری کی سب سے بڑی وجہ والدین کا بچے پر اپنی مرضی تھوپنا بھی ھے۔۔ایک بچے کو ادب سے لگاؤ ھے لیکن اْسے سائنس مضامین ہی پڑھنے پر مجبور کیا جا رہا ھے یا پھر کوئی سائنس کا دلدادہ ھے لیکن اْسے لٹریچر ہی پڑھنا ہے ایسے میں بچہ کیا خاک پڑھے گا۔ایک تو وہ مرضی کے خلاف مضامین پڑھنے پر نالاں اور اس پہ بچے کو پریشرائز کیا جا رہا ھے اگر رزلٹ اچھا نہ آیا تو “یہ”ہو گا تم کامیاب نہ ہوئے تو”وہ”ہو گا نتیجاً ہمارے بچے بھی صرف امتحان میں کامیابی کے لیے پڑھتے ہیں، وہ صرف ڈگری حاصل کرتے ہیں تعلیم نہیں۔ بعض دفعہ تو رزلٹ خراب آنے پر کچھ بچے گھر سے بھاگ جاتے ہیں
کچھ خودکشی کر کے اس “بوجھ” سے نجات پا جاتے ہیں اور بہت سے دوبارہ کتابوں کو ہاتھ لگانے سے توبہ کر لیتے ہیں۔ نوجوان نسل میں تعلیمی شعور بیدار کرنے کے لئیے بہت سے نئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئیے ہماری حکومت کو چاہیے کہ نئے نصاب کے مطابق استاتذہ بھی نئے اپائنٹ کرے اور سکولز کی بلڈنگ تعمیر کرتے وقت بچوں کی دلچسپی کو مدِنظر رکھتے ہوئے انتظامات کریں اور وقتاً فوقتاً بچوں کی زہنی استعداد کے مطابق سکولز یا کالجز میں تعلیمی ایکٹیوٹیز کو فروغ دیں دوسری طرف والدین کو چاہیئے کہ وہ اپنے بچے کو اسکی مرضی اور شوق کے مطابق مضامین کا انتخاب کرنے دیں
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو الگ فطرت پر پیدا کیا ھے۔والدین کو چاہیئیکہ اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر اپنے بچوں کے ساتھ ان کی تعلیم کے حوالے سے بات چیت ضرور کریں اور اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ ان کا بچہ کیا پڑھ رہا ھے۔۔۔ نوجوان نسل ہی ہماری قوم کا سرمایہ ہے اور قوم کے انہیں معماروں نے اس وطن کو ترقی کی بلندیوں پر لے جانا ہے۔