تحریر: راشد علی راشد اعوان
ہزارہ کالمسٹ کونسل کے زیر اہتمام نوجوان لکھاریوں کے مابین تحریری مقابلہ بعنوان ..نسل نو کی تعمیر شخصیت مگر کیسے ؟؟.. دراصل نوجوانوں کی ان صلاحیتوں میں نکھار لانا جو انہیں قدرتی طور پر اللہ تعالیٰ نے عطا کر رکھی ہیں ،میں اپنی اسی تحریر میں ان ہی عوامل کو سامنے لانے کی کوشش کروں گا جن کی مدد سے ایک لکھاری کو اس مقابلے میں شرکت کیلئے مدد دستیاب ہو گی ،انسانی شخصیت کو نکھارنے میں اور شخصیت کی تعمیر میں اور بہت عناصر و عوامل بھی شامل ہونگے مگر ہم نے یہاں پر صرف چار عناصر کا احاطہ کرنا ہے جن میں طالب علم، استاد، والدین اور پالیسی ساز شامل ہیں اور بنیادی طور پر شخصیت کی بنیادیں کھڑی کرنے میں بھی یہی چار عوامل ہی کار فرما ہیں ، یہی چار عناصر مل کر اپنی اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کی ادائیگی کیساتھ تخلیقی صلاحیتوں کو پروآن چڑھاتے ہیں اور وہی تخلیقی صلاحیتیں انسانی شخصیت کی تعمیر میں معاون کار کا درجہ رکھتی ہیں ، تخلیقی صلاحیتوں سے مراد کسی انسان کی وہ صلاحیتیں ہیں جن کی بدولت وہ نئے نئے آئیڈیاز تخلیق کر تا ہے اور ان کی بنیاد پر عملی زندگی میں نئی نئی اختراعات کرتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ تخلیقی سوچ کی بالعموم حوصلہ شکنی کرتا ہے، ایک ماہر نفسیات کے مطابق ”ہمارے ہاں اس بچے یا فرد کو پسند کیا جاتا ہے جو فرمانبردار ہے، دوسروں کا ادب کرتا ہے، اپنا کام وقت پر مکمل کرتا ہے، اس کے ہم عصر اسے پسند کرتے ہیں، اور جو دوسروں میں مقبول ہے، اس کے مقابلے میں ہم ایسے بچوں کو پسند نہیں کرتے جو بہت زیادہ سوال پوچھتے ہیں، سوچنے اور فیصلہ کرنے میں خود مختار ہوتے ہیں، اپنے عقائد پر ڈٹے رہتے ہیں، کسی کام میں مگن رہتے ہیں اور کسی بااختیار شخص کی بات کو من و عن قبول نہیں کرتے۔ پہلی قسم کے بچے کو ہم ”اچھا بچہ ” کہتے ہیں اور دوسری قسم کے بچے کو ہم بدتمیز یا نافرمان بچہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی ماحول میں بھی تخلیقی سوچ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اگر ایک بچہ امتحان میں کسی سوال کے جواب میں اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے تو اسے کم نمبر دیے جاتے ہیں،اکثرو بیشتر ہمارے ہاں مختلف ٹی وی چینلز اور ریڈیو پر ذہنی آزمائش کے پروگرام سوچنے کی صلاحیت کی بجائے یادداشت کی آزمائش کرتے ہیں، مذہبی تعلیم میں بھی قرآن کو حفظ کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔
لیکن اس کو سمجھ کر روزمرہ زندگی پر اطلاق کرنے کی تربیت نہیں دی جاتی۔ بچوں کو کامیابی حاصل کرنے اور اول آنے کی ترغیب دی جاتی ہے، لیکن علم حاصل کرنے یا نئی باتوں کو اہمیت نہیں دی جاتی، ہم غلطیاں کرنے اور ان کا اقرار کرنے سے گھبراتے ہیں لیکن غلطیوں کے بغیر تخلیقی سوچ ناممکن ہے۔ ، ہمارے یہاں اگر کچھ فنکاروں اور ان کی تخلیق کو اہمیت دی جاتی ہے تو اس عمل کو نظر انداز کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں کوئی تصویر، دھن وغیرہ کی تخلیق ہوئی ہے، یعنی تخلیق کے نتائج کو تو سراہا جاتا ہے لیکن اس محنت اور جدوجہد کو نظر انداز کیا جاتا ہے جسے تخلیقی عمل کہتے ہیں، تخلیقی سوچ میں تین اہم عناصر ہوتے ہیں: (١) جدت؛ (٢) کسی مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت اور (٣) کوئی قابل قدر مقصد حاصل کرنے کی صلاحیت۔ جدت سے مراد موجودہ یا روایتی انداز میں پائی جانے والی چیزوں ، تصورات وغیرہ کو انفرادی انداز میں آپس میں ملانا یا نئے سرے سے ترتیب دینا ہے،ایک لاطینی کہاوت ہے کہ عقل مند انسان دوسروں کی غلطیوں سے سبق سیکھتا ہے اور بے وقوف اپنی غلطیوں سے بھی سبق نہیں سیکھتا،دنیا میں جتنے تخلیقی کام کئے گئے ہیں، ان میں پرانی چیزوں یا تصورات کو نئے انداز میں دیکھاگیا ہے۔
مثلاً جب نیوٹن نے سیب کو گرتے ہوئے دیکھا تو یہ عمل نہ تو نیوٹن کے لئے اور نہ ہی کسی اور کے لئے انوکھا واقعہ تھا لیکن نیوٹن نے اس عمل کو ایک خاص انداز میں دیکھا، اسے نئے معنی دیے اور اس طرح کشش ثقل (Gravity) کا قانون دریافت کیا، تاہم صرف جدت ہی کسی سوچ یا عمل کو تخلیقی نہیں بنا دیتی بلکہ اس میں مسائل کا حل بھی بہت ضروری ہے، تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والے افراد کی کچھ ایسی خصوصیات ہوتی ہیں جو انہیں دوسروں سے نمایاں کرتی ہیں، ماہرین نفسیات کی تحقیقات کے مطابق یہ لوگ انفرادیت پسند ہوتے ہیں اور روایتی سوچ اور کردار کے مقابلے میں اپنی ذات اور سوچ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، یہ دوسروں پر کم انحصار کرتے ہیں اور اکثر معاملات میں خود مختار ہوتے ہیں حتی کہ ان کے جاننے والے انہیں ضدی اور سرکش قرار دے دیتے ہیں، ان میں عموماً لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کا احساس کم ہوتا ہے، یہ مستقل مزاج ہوتے ہیں، جس کام میں دلچسپی لیتے ہیں، اسے تندہی سے کرتے ہیں اور ناکامیوں اور مشکلات سے نہیں گھبراتے، اگر ان کے ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ بھی جائیں تو یہ ثابت قدم رہتے ہیں۔ایک تخلیق کار یا تخلیقی صلاحیتوں کا مالک اپنی خوبیوں اور خامیوں سے عام لوگوں کی نسبت زیادہ آگاہ ہوتے ہیں۔
یہ دوسروں کے علاوہ خود کو بھی طنز و مزاح کا نشانہ بنانے سے نہیں ڈرتے، ان کا گھریلو ماحول بالعموم مثبت ہوتا ہے، گھریلو لڑائی جھگڑے بہت کم ہوتے ہیں، والدین بچوں کو آزاد ماحول فراہم کرتے ہیں جس میں بچہ خود اپنے تجربات کے ذریعے ماحول سے آگاہی حاصل کرتا ہے، یہ جن اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں وہاں ماحول آمرانہ نہیں ہوتا بلکہ سوالات کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ استاد کا تعلق بالعموم ان سے دوستانہ ہوتا ہے اور تخلیقی صلاحیتوں کو نشوونما دی جاتی ہے، اب ضروری بات کہ ان معلومات کی روشنی میں خود میں تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما کے لئے کچھ باتوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، کوشش کی جانی چاہیے کہ اپنے فکر پر کبھی پہرے نہ بٹھائے جائیں، اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال پیدا ہو تو اسے محض شیطانی وسوسہ سمجھ کر نظر انداز نہ کیجئے بلکہ اہل علم سے اس کا جواب مانگنے کی کوشش کیجئے، ذہن میں ایسے خیالات کو موجود رکھنے کی مشق کیجئے جو ایک دوسرے کے متضاد ہوں۔ متضاد ، پیچیدہ، الجھی ہوئی اور نامکمل چیزوں اور خیالات سے نہ گھبرائیے۔
اپنے گھر اور اداروں میں ایسا ماحول پیدا کیجئے جو تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دے۔ اپنے اداروں میں ڈسپلن کے نام پر خواہ مخواہ تخلیقی صلاحیتوں کا گلا نہ گھونٹئے بلکہ نئے خیالات کو خوش آمدید کہیے۔ اب بڑھتے ہیں اپنے مقابلے کے عنوان کی جانب تو اس بارے میں ان باتوں کا خاص طور پر خیال رکھنا ہے کہ تحریر صفحے کی ایک جانب خوش خط لکھی گئی ہو اور یہ کوشش کی جائے کی کمپوز شدہ ہو تو زیادہ موزوں اور مناسب بھی ہوگا، اسی طرح تحریر اپنے موضوع سے مطابقت رکھتی ہو، تحریر میں موضوع کا گہرا تجزیہ پیش کیا گیا ہو، تحریر فرقہ واریت اور تعصب سے پاک ہو، تحریر جدید ذہن کو اپیل کرتی ہو، تحریر کا اسلوب، اعلی ادبی معیار پر پورا اترتا ہو۔اگر کوئی اقتباس پیش کیا جائے تو تحریر میں اس کا کہیں نہ کہیں حوالہ بھی ضرور شامل کیا جائے، اپنی تحریر طے شدہ تاریخ 10 جنوری 2016 سے قبل ہر صورت ہزارہ کالمسٹ کونسل کو مل جانی چاہیے، یا براہ راست آپ مجھے میرے اس ای میل ایدریس پر بھیج سکتے ہیں hazaracc@gmail.com،rashidaliawan@gmail.com یا پھر مزید معلومات کیلئے براہ راست مجھ سے میرے نمبر 03333355506 ،پر رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔
تحریر: راشد علی راشد اعوان