تحریر: طارق حسین بٹ شان
قائدِ تحریک الطاف حسین اور قائدِ انقلاب ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری اپنی متلون مزاجی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ان سے کچھ بھی بعید نہیں ہوتا۔یہ دونوں راہنما من موجی ہیں لہذا جو جی میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر کہہ دیتے ہیں۔اپنی بات کہتے وقت انھیں کسی قسم کا کوئی ڈر اور خوف نہیں ہوتا ۔وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ جو بات وہ کرنے جا رہے ہیں اس کا موقعہ محل بھی ہے یا کہ نہیں؟در اصل دونوں اپنے اپنے مریدین ِ خاص رکھتے ہیں اور مریدین کو سوال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔مریدین غلاموں کی ایک قسم ہے لیکن ذرا پڑھی لکھی ۔ایک نے مہاجر ازم کا نعرہ دیا تو دوسرے نے انقلاب کا تابا نا بنا ۔ مجھے یاد ہے کہ دسمبر ٢٠١٢ میںڈاکٹر علامہ طاہرالقادری ریاست یا جمہورت کے نعرے سے وارد ہوئے تھے اور اقبال پارک میں ان کے جلسے کی رونقیں دیکھنے والی تھیں۔ان کے اس نعرے سے چونکہ جمہوریت کی بساط الٹ جانے کی بو آ رہی تھی لہذا انھیں ٹیڑھے ہاتھوں لیا گیا۔
انھوں نے بہتیری صفائیاں پیش کیں لیکن کسی نے ان کی ایک نہ سنی اور یوں انھیں اپنے فکری نعرے سے پسپائی اختیار کرنی پڑ ی ۔میڈیا کی مخاصمت سب سے زیادہ تھی کیونکہ میڈیا کا عروج جمہوریت ہی کے مرہونِ منت ہے لہذا میڈیا جمہوریت کی کشتی کو ڈوبنے کہاں دیتا ہے؟میڈیا سارا زور لگا دیگا لیکن شب خون کی حمائت نہیں کریگاکیونکہ جمہوریت اس کیلئے سونے کی مرغی ہے ۔ڈا کٹر صاحب سے جب اس محا ذ پر کچھ نہ بن پڑا تو پھر الیکشن ٢٠١٣ میں دھاندلی کے خلاف برپا تحریک میں عمران خان کے ساتھ اس لانگ مارچ کا حصہ بنے جس نے پاکستان میں تھرتھلی مچا دی ۔ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری نے تو انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا تھا لہذا ان کیلئے دھاندلی کے کیا معنی تھے؟ان کی نظریں لانگ مارچ میں اسی مقام پر ٹکی ہوئی تھیں جسے انھوں نے ریاست اور جمہوریت کے نام سے شروع کیا تھا۔ کیا یہ باعثِ حیرت نہیں کہ ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد ٹھنڈے موسموں کا مزہ لوٹنے کے ئے یورپ روانہ ہو گئے اور اپنے مریدین کو کڑی دھوپ میں جدو جہد کیلئے تنہا چھوڑدیا۔
وہ بیچارے نعرے لگا لگا کر تھک گئے ہیں لیکن قائدِ انقلاب یورپ سے واپس آنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔کبھی کبھی وہ درشن دینے کی خاطر پاکستان آ جاتے ہیں لیکن ن کا دل یہاں نہیں لگتا ۔ وہ بیرونِ ملک بیٹھ کر ہی انقلاب کی داغ بیل ڈالنا چاہتے ہیں لیکن اس میں انھیں کامیابی نہیں مل رہی۔یہ سچ ہے کہ ایک مخصوص گروہ میں ان کی بڑی پذیرائی ہے لیکن وہ گروہ اس قابل نہیں کہ کوئی تبدیلی برپا کر سکے ۔ اس بات کا ادراک ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری کو بھی ہے لہذا وہ مجوزہ انقلاب پر اپنا وقت برباد کرنے کی بجائے سیاسی موجودگی کی خاطر تحریکِ قصاص برپا کئے ہوئے ہیں جو عوام کی عدمِ توجہ کی وجہ سے صرف نام کی حد تک ایک تحریک ہے لہذا اس تحریک کا ناکام ہونا یقینی ہے ۔ انھیں ہمیشہ کسی غیبی اشارے کا انتظار ہے اور جس دن یہ اشارہ مل گیا قائدِ انقلاب کی پھرتیاں دیکھنے والی ہوں گی ۔وہ کسی مخصوص مقام پر احتجاج اور ہنگامہ آرائی میں بڑے ماہر ہیں لیکن ملکی سطح پر ان کی آواز انتہائی کمزور ہے لہذا ان کی دھمکیاں اپنا اثر کھوتی جا رہی ہیں۔پاکستانی عوام اگست ٢٠١٤ کے لانگ مارچ میں عوامی تحریک کے دھرنے کو نہیں بھولے۔وہ دھرنا واقعی لاجواب تھا لیکن اس کا کیا کیا جائے کی ایمپائر کی انگلی نہیں اٹھی تھی اوریوں ایک یادگار دھرنا ناکامی سے ہمکنار ہو گیا تھاایک بہت بڑی تبدیلی آتے آتے رک گئی تھی اور اس ناکامی میں حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی غداری بھی شامل تھی۔اگر اپو زیشن حکومت کی بجائے دھرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتی تو پاکستان بہت آگے نکل گیا ہوتا۔
پاناما لیکس ایک اچھا موقعہ تھا لیکن وہ موقعہ بھی ضائع کر دیا گیا ہے۔متحدہ اپوزیشن کی چھتری اور پھر پی پی پی کی دوستی اس موقعہ کے ضیاع کی بنیادی وجہ ہے ۔اگر پاناما لیکس پر عوام کو سڑکوں پر لایا جاتا اور لاہور شہر میں دھرنا دے کر اس کے سارے بیرونی راستے کاٹ دئے جاتے تو صورتِ حال بالکل مختلف ہوتی۔لیکن عمران خان نے اس راہ کو اپنانے کی بجائے پی پی پی کی آغوش میں بیٹھنے کو ترجیح دی جس نے حیلے بہانوں سے پانا ما لیکس کے ایشو کو طول دینا شروع کر دیا۔ پی پی پی نے عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری کاایک ہی کنٹینر پر کھڑا ہونے کا عندیہ دیا اور عمران خان اس یقین دہانی کے جھانسے میں آ گئے اور پاناما لیکس کا وقت بہت آگے نکل گیا۔اس بات کا ادراک اب عمران خان کو بھی ہے کہ اس کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے لیکن وہ خاموش ہے۔ اس طرح کی چالاکیوں اوروعدہ شکنیوں کے بعد عمران خان شائد خود بھی تھک گئے ہیں جس کی وجہ سے ان کے احتجاج میں وہ دم خم نہیں رہا۔ وہ کوشش تو بہت کر رہے ہیں کہ کرپشن کی لعنت سے قوم کی جان چھوٹ جائے لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا کیونکہ ان کے اپنے صوبے خیبر پختونخواہ ( کے پی کے) میں بھی حکومت مثالی نہیں ہے۔وہاں پر بھی آئے دن کرپشن اور لوٹ مار کی داستانیں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔اللہ کرے کہ وہ دن ہمیں دیکھنا نصیب ہو جائے جب پاکستان میں جوابدہی کا قانون نافذ العمل ہو اور کرپشن کی سزا موت تجویز ہوجائے ۔پاکستان اب باتوں سے نہیں بلکہ آہنی ہاتھ سے ٹھیک ہو گا اور وہ آہنی ہاتھ ابھی دور دور تک کہیں نظر نہیں آ رہا۔اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ جب بھی پاکستانی قوم کسی خاص ایشو پر یکسو ہونا چاہتی ہے کوئی نہ کوئی ایسا موضوع سامنے آ جاتا ہے جس سے قوم کی سوچ کی سوئیوں کو گھما دیا جاتا ہے۔
میاں محمد نواز شریف کے خلاف پاناما لیکس پر قوم کے اندر ایک اضطرابی کیفیت پیدا ہو رہی تھی اور حکمران ٹولہ پہلی دفعہ عوام کو مطمئن کرنے میں ناکام ثابت ہو رہا تھا ۔میاں محمد نواز شریف کے اہلِ خاندان کو پہلی دفعہ دفاعی انداز اختیار کرنا پڑ رہا تھا۔میاں نواز شریف کے دونوں بیٹے حسین نواز ، حسن نواز اور ان کی ہونہار بیٹی مریم نواز سخت دبائو میں تھے اور اسی دبائو کی وجہ سے ان کے بیانات میں واضح تضاد نظر آ رہا تھا۔وہ کوئی ایسی دلیل اور منطق پیش کرنے سے قاصر نظر آتے تھے جو عوام کو مطمئن کر سکتی بلکہ وہ جتنے زیادہ بیانات دیتے جاتے تھے شکو ک و شبہات کے بادل مزید گہرے ہوتے جاتے تھے۔ایک طرف میاں محمد نواز شریف کی بیماری اور ان کی ملک سے عدم موجودگی اپوزیشن کیلئے کسی نعمتِ عظمی سے کم نہیں تھی لیکن اپوزیشن باہمی کھچائو اور اختلافات سے اس نادر موقعہ کو بھی ضائع کر گئی۔وہ یہ فیصلہ نہ کر سکی کہ اسے کیا کرنا ہے؟وہ باہمی مشاورت اور اجلاسوں میں اتنا وقت ضائع ہو گیا کہ تحریک کا وقت ہاتھ سے نکل گیا۔عمران خان کا ذاتی خیال تھا کہ اس دفعہ ساری اپوزیشن جماعتیں تحریکِ انصاف کے ساتھ ہوں گی تو حکومت کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے میں آسانی ہو جائیگی لیکن عمران خان کی یہ خوش فہمی فقط خوش فہمی ہی رہی۔ اپوزیشن نے بیانات کی حد تک عمران خان کا ساتھ دیا لیکن جب دریا میں اترنے کا وقت آیا تو اپنی کشتیاں لنگر انداز کر دیں۔
ایک سوچی سمجھے سکیم کے تحت ٹی آر اوز پر اتنا وقت ضائع کیا گیا کہ کوئی نتیجہ نہ نکل سکے۔عمران خان جیسا سپورٹسمین سیاست کی ان نزاکتوں کو کیسے سمجھ سکتا ہے جس میں صرف چالیں ہی چالیں ہیں۔ذاتی مفادات کے اسیر بھلا شفافیت کو کیسے پھلتا پھولتا دیکھنا پسند کریں گئے۔انھیں تو کرپشن میں لتھڑا ہوا معاشرہ ہی راس آتا ہے لہذا وہ اسے بدلنے کی حماقت نہیں کریں گئے۔عمران خان دھرنا دے لے،عمران خان لانگ مارچ کر لے یا عمران خان شہر بند کر لے جب تک کچھ لوگوں نے دستانوں کے اندر ہاتھ ملائے ہوئے ہیں کچھ نہیں ہونے والا۔الطاف حسین کی ہرزہ سرائی اور اس سے اٹھنے والا طوفان کیا رنگ لائیگا پھر کبھی سہی کیونکہ ابھی توپاناما لیکس سے جنم لینے والی کہانیوں سے اس قوم کے ساتھ جو کھلواڑ ہوا ہے اس کو اس کے منطقی انجام سے دوچار کر کے قوم میں نئی امنگوں کو جنم دینا ہے ۔ اگر امیدوں کو برگ و بار دینا ہے تو پھر نوجوان نسل کونئے جذبوں کے ساتھ میدانِ عمل میں نکلنا ہو گا لیکن اگر نوجوان نسل نے اپنی ذمہ د اریوں کا کما حقہ احساس نہ کیا توکرپشن اور لوٹ مار کایہ کلچر اس قوم کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے گا کیونکہ کرپشن کا انجام تباہی ہی ہوا کرتا ہے۔
تحریر: طارق حسین بٹ شان
چیرمین پیپلز ادبی فورم