تحریر : کوثر ناز
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی ہو جس کے جوانوں میں خودی فولاد کی صورت نوجوان کسی بھی ملک کی ترقی روشن حال و مستقبل کا لازمی حصہ ہوتے ہیں جواں سالی کچھ کر دکھانے کی ، اپنے ہنر آزمانے کی ، صلاحیتوں سے لبریز ہونے کے ساتھ غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کی عمر ہوتی ہے . نوجوانوں کو کسی بھی قوم کی اکائی سمجھا جاتا ہے کہ جب نوجوان ترقی کا خواب لئیے اٹھتا ہے تو پھر انکے جذبوں کی آندھی کے آگے ہر رکاوٹ ہر دیوار اپنی وقعت و حیثیت کھو دیتی ہے کیونکہ جوانوں میں جذبہ خون بن کر دوڑتا ہے اور ایسے ایسے کارنامے انجام دیتا ہے کہ دنیا انگشت بدنداں رہ جائے.پاکستان دنیا میں نوجوانوں کی پانچویں بڑی تعداد کا حامل ملک ہے مگر اس حساب سے ملکی ترقی صفر ہے اور ہو بھی کیسے نہ کہ جس ملک کے نوجوان بیراہ روی کا شکار ہوں ، جن کو ہر غلط کام میں دلچسپی ہو تو پھر وہ اذہان ملکی ترقی کو ذاتی لطف و دلچسپی پر ترجیح کیوں دیں گے. جہاں دشمن ہر ٹوہ میں لگا ہے کہ اس ملک کے جوان کہیں ترقی نہ کرلیں وہیں اندرونی آستین کے سانپ بھی تاک میں بیٹھے ہیں کہ کب موقع ملے اور وہ سب لوٹ کر اپنے اپنے اکاونٹس میں ڈالوا کر اس ملک کو مزید سے مزید بڑا بھیک کا کاسہ تھما جائیں۔
یہ بات فکر انگیز ہے کہ ہماری نوجوان نسل بے حسی کی چادر اوڑھے گہری لمبی ننید سو رہی ہے ، اور سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت کو نظریہ پاکستان کے مفہوم سے ہی آگہی نہیں ہے وہ نظریہ پاکستان پڑھنے کے بجائے وہ پڑھنے کو ترجیح دیتا ہے جو اسے باہر کا ویزہ دلوائے یا پیسے کمانے کا بہترین ذریعہ لگے . نوجوانوں کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ ملکی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے آنکھ اور کان ہر سمت سے بند کرکے اپنے اپنے حصے کا مال لوٹنے میں لگے ہیں جبکہ یہ حقیقت ہے کہ۔
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ، ضرب کاری
اگر بغور جائزہ لیا جائے تو نوجوانوں کی گمراہی و بگاڑ کے کئی اسباب سامنے آتے ہیں کیونکہ نوجوانی ہی ایک ایسی عمر ہے جس میں انسان پر جسمانی ، فکری اور عقلی حیثیت میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہوتی ہیں انسانی ذہن و جسم نشونما اور ارتقائ کی طرف گامزن ہوتا ہے ، ہر لمحے نئے کام نئے تجربے انکی توجہ پالیتے ہیں اور فکر و شعور کے نئے در وا ہوتے ہیں اور اسی سوچ کے نتیجے میں فکر و شعور و ادراک کی نت نئی منازل بھی طے کرنا شروع کر دیتا ہے دوسری طرف جذبات کی شدت فیصلوں میں عجلت پر مجبور کر دیتی ہے ، مادی ترقی کی ظاہری چمک کو دیکھ کر آنکھیں خیرا ہوجاتی ہیں اور جوانی میں تو ہر چمکتی چیز سونا ہی لگا کرتی ہے اور عیش و عشرت کے بہکاوے میں علم و شعور کی منزلیں طے کرتا نوجوان جلد ہی آجاتا ہے کہ آسانی برے کاموں کا خاصہ اور لازمی حصہ ہوتی ہے . نوجوانوں کو جہاں جذبات کی شدت لے ڈدبتی ہے وہیں آئے روز نت نئی سائنسی ایجادات نے نوجوانوں کے اذہان کو زنگ آلود کر نے کے ساتھ پرگندا بھی کر دیا ہے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کہتے ہیں کہ “جس قوم کو بغیر جنگ کے شکست دینی ہو تو اسکے جوانوں میں فحاشی پھیلا دو” جس کی وطن عزیز میں کسی طور کمی نہیں ہے انٹرنیٹ و سوشل ویب سائٹس کے غلط استعمال نے جہاں بہت سی زندگیاں تباہ و برباد کی ہیں وہیں نوجوانوں میں بے حیائی کو بھی فروغ دیا ہے جو لڑکھ صنف مخالف پر کوئی جملہ کسنے سے کتراتے تھے اب و بنا فرینڈ ریکوسٹ بھیجے بھی ایسی بے ہودہ باتیں کرتیں ہیں کہ انکے بزرگوں کی روحوں کو بھی شرم آجائے دوسری طرف جو لڑکیاں اپنے معاشرے میں لگی پابندیوں پر پوری اترتی ہیں وہیں ایک غلیظ دنیا انکے ہاتھ میں چلتے پھرتے موجود ہوتی ہے جسے موبائل فون کہتے ہیں اور جس کے غلط استعمال سے وہی باپردہ و باحیا لڑکی سوشل میڈیا پر ہزاروں کے تعداد میں دوست رکھتی ہے ، نوجوانوں میں دین سے دوری بڑھتی ہی جا رہی ہے چادر اوڑھنا ہو یا داڑھی رکھنا گناہ اور آؤٹ آف فیشن لگنے لگا ہے تو اس میں بڑا قصور اسی نیٹ کا بھی ہے اور کچھ والدین کا بھی کہ اگر تربیت صحیح ہو تو اپنا اثر ضرور دکھاتی ہے اور وقت گذاری کی تربیت بھی جلد دنیا کے سامنے آجاتی ہے . ماڈرن ازم کا فروغ جس قدر بڑھ رہا ہے نوجوانوں میں فحاشی اسی قدر عام ہو رہی ہے ، رات گئے شہروں میں خوردونوش کے مراکز ، نوجوانوں کے لئیے آوارہ گردی کے سب سے بڑے اسباب ہیں ، جنسی و نفسیاتی عوامل بھی نوجوانوں کے بگاڑ مں اہم کردار ادا کرتے ہیںکہنے کو بہت کچھ لکھنے کو من بے تاب مگر اقبال کہتا ہے کہ
فنا نہ کر اپنی زندگی کو راہ جنوں میں اے جوانوں
تب کرئے گا عبادت جب گناہ کی طاقت نہ ہوگی
وہیں اقبال یہ بھی کہتا ہے کہ عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے اسے اپنی منزل آسمانوں میں نوجوان ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں ان پر اپنا وقت خرچ کرکے قوم کو باصلاحیت نوجوان دے سکتے ہیں تو جو اپنی اپنی انفرادی کامیابیوں کو زمانہ مستقبل میں قوم کے لئیے مجموعی کامیابیوں کی وجہ بن جائیں گے ، نوجوانوں کو ایسے مریبوں کی ضرورت ہوتی ہے جو حکمت و بصیرت کے ساتھ ان کی تربیت کریں، بڑے استحکام اور صبرو تحمل کے ساتھ صراط مستقیم پر چلنے کے طور طریقے سکھائیں ، مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہر حالت میں اللہ کی رضا اور خوشنودی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے اگر اس بات کو ترقی کے پیش نظر رکھیں تو ترقی کا الگ اور صحیح مفہوم سمجھ آئے گا. اخلاص و لہللیت کے ساتھ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ و آلہ وسلم کی اطاعت اور انکی محبت کے لئیے ایک لفظ “تقوی” میں موجود ہے۔
لہذا جس میں جتنا ذیادہ تقوی ہوگا ، یعنی گناہوں سے اجتناب اور اعمال صالحہ پر محنت ہوگی وہ اتنا ہی ذیادہ ترقی یافتہ ہوگا چاہے اسکے پاس حسن و جمال نہ ہو سو ضرورت ہے تو سہی تربیت کی صحیح سبق کی جو صحیح انسان ہی دے سکتا ہے اور صحیح انسان والدین یا اساتذہ کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہوتا ہے اگر آپ والدین ہیں یا اساتذہ تو آپکا فرض ہے کہ صحیح تربیت دے کر وطن عزیز کے معماروں میں جذبہ حب الوطنی کو فروغ دینے کی یہ نہ صرف آپکا قوم کے لئیے فرض ہے بلکہ اسی مٹی کا حق بھی جسمیں آپ سانس لیتے ہیں جسمیں کل کو آپ نے ابدی نیند سونے کے لئیے اترنا ہے سو کل کو سنوارنے کے لئیے آج کو بہتر کریں نوجوانوں کو قوم کا حقیقی مستقبل بنائیں ، امید ہے کچھ سبق ضرور ملے گا آپکو اور ہمیں اور اس وطن کو اسکے سچے معمار۔
تحریر : کوثر ناز