تحریر : مزمل احمد فیروزی
دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک شخص خودکشی کر تا ہے جس کی تعداد لاکھوں میں شمار کی جا سکتی ہے۔ خودکشی کر نے والے عموماکسی نہ کسی نفسیاتی مر ض میں مبتلا ہو تے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہیکہ 14 سے 18 سال کے بچوں میں خودکشی کے واقعات تیزی سے رونماہو رہے ہیں، ایسے بچے جن کے والدین کم پڑھے لکھے یا مائیں کسی ذہنی بیماری کا شکار ہوں یا پھر ایسے بچے جو جلد تشدد پر اتر آئیں اور تنقید برداشت نہ کر سکیں، میں خودکشی کا رُجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔ واشنگٹن کے اخبار میں چھپنے والی ایک خبر کے مطابق خودکشی کی کوشش کر نے والے افراد کے بچوں میں خودکشی کا رجحان زیادہ پایا گیا ہے۔ اس امر کا انکشاف نئی تحقیق میں کیا گیا ہے جس کے مطابق خودکشی کی کوشش کرنے والے ماں باپ کے بچوں میں خودکشی کا تناسب تین سے چار گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
ایک جائزے کے مطابق بھارت میں امتحانات کے دبائو کے باعث تقریباً 5,857 نوجوانوں نے خود کشی کی ،جبکہ وہاں کے سماجی کارکنوں کا کہنا ہیکہ اس کے علاوہ ہزاروں ایسے واقعا ت ہیں جن کا کو ئی ریکاڈ مو جو د نہیں ہے۔عالمی سطح پر ہر ایک لاکھ ٹین ایجرمیں خودکشی کا تنا سب14.5فیصد ہے تا ہم بھارت میں ایک جائزے کے مطابق مجموعی طورپر لڑکیوں میں خودکشی کر نے کا رجحان لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
بھارت کے حکو متی ادارے کی جا نب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں سالانہ ایک لاکھ سے زائد افراد خودکشی کر تے ہیں ،گھریلوں مسائل ،تعلیم میں ناکامی اور بیماری بھارت میں خود کشی کی سب سے بڑی وجوہات ہیں۔حکومتی ادارے کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بھارت میں ایک لاکھ 34ہزار 799افراد نے خودکشی کی جبکہ پاکستان کی سب سے نامور فلاحی تنظیم ایدھی فائونڈیشن کے 2015کے جاری کر دہ اعداد و شمار کے مطا بق پا کستان میں خود کشی کے 1228کیسز رپورٹ ہوئے جن میں کم عمر بچے بھی شامل تھے۔
گزشتہ سال کے مقابلے میں خود کشی کے تنا سب میں 30فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے ۔علمائے دین اور دانشوروں کا کہنا ہیکہ دین سے دوری اور افلاس نے خود کشی کے تنا سب میں اضا فہ کر دیاہے اور بچوں میں بڑھتاہوا خو دکشی کا تناسب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ معاشرے میں تربیت کا فقدان ہے،جبکہ دوسری وجہ تعلیم میں سخت مقابلہ ہے۔
جب ایک طالب علم میڈیکل یا انجئیرنگ کا لج میں داخلے کے لئے اپنا ذہن بنا تا ہے تو اُسکے پیچھے ایک بھیڑ چال شروع ہو جاتی ہے،ہر بچہ اس کے پیچھے بھاگتا ہے جو سب کر تے ہیں ،اسکے ذمہ دار والدین اور اسا تذہ دونوں ہیں جو بچوں کو بڑے بڑے کا لجز کے نام گنوا کر اُنکی ایسی ذہن سازی کر دیتے ہیں کہ بچے انہی کالجز کو اپنے مستقبل کا صحیح مسیحا سمجھنے لگتے ہیں، ان نامی گر امی کالجز میںدخلہ نہ ملنے کو ناکامی جبکہ داخلہ مل جانے کو کامیابی تصور کرتے ہیں، یعنی والدین نے اپنے بچوں کی زندگی کا لجز میں داخلے کی بنیاد پر سجا ئی ہوتی ہے۔
اب پہلے سے ذہن میں سجائے کالجز میں داخلہ نہ ملنے کی بنا پر بچہ زندگی سے بیزاری کی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے جسکا راستہ بتدریج خودکشی کی طرف چلاجاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں بچوں کو نفسیاتی طور پر سمجھانے کی اشد ضرورت ہے کہ ان کالجز میں داخلہ نہ ملنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ اس فیلڈ میں جانے کیلئے پیدا نہیں ہو ئے جس کی آپ اتنی زور و شور سے تیاری کر رہے تھے یا آپ اس کام کیلئے بنے ہی نہیں۔ پاکستان میں ایسے بہت سے کامیاب لوگ دیکھے جا سکتے ہیں جو بڑے بڑے کالجز تو کُجا کسی اچھے اسکول سے بھی فارغ التحصیل نہیں ہوئے۔
ذہنی رجحان کے مطابق اُنکے منتخب کردہ فیلڈز نے کامیابیوں سے ہمکنار کر کے اُنہیں ملک و دنیا کا نامی گرامی انسان بنا دیا ہے۔ احساس محرومی کا شکار بچوں کی ایسی کمزوری دور کرنے کے لئے یہ باور کرانا بھی ضروری ہے کہ نوکری حاصل کرنے والوں کی لائین میں لگنے کی بجائے نوکری دینے والا بنا جائے۔
کالجز میں داخلہ یا کہیں نوکری کی کوشش میں ناکامی پر یہ ہر گز نہیں سوچا جا سکتا کہ آپ نالائق ہیں بلکہ اسکا مطلب صرف اور صرف یہ لیا جا سکتا ہے کہ زندگی کے دیگر میدانوں میں قسمت آزمائی کی جائے، ہو سکتا ہے یا عین ممکن ہو کہ دوسرا یا تیسرا منتخب کیا گیا میدان ہی اُپ کی زندگی کا روشن باب ہو۔اس کی مثال ایسے بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ ایک کمرہ ہے جس میں ہزاروں لوگ پہلے سے موجود ہوں،اب کیوں نہ ایسے کمرے میں جانے سے گریز کیا جائے جہاں پہلے ہی ہزاروں لوگ جگہ کی کمی کی وجہ سے بے آرام ہیں۔
اگر آپ 8سے 10گھنٹے دلجمعی سے پڑھتے ہیں تو یہ پڑھنا سود مندضرورثابت ہو سکتا ہے مگر محض گھروالوں کے لئے دکھاوے کے طور پر پڑھنا اپنے آپ سمیت سب کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔ایسی ریس میں داخل ہونے سے حتی الامکان اجتناب کیا جانا چاہئے جس میں 10ہزار لوگ بھاگ رہے ہیں جبکہ آپ یہ بھی جانتے ہوں کہ بھاگنے والوں کی رفتار آپ کی رفتار سے کہیں زیادہ ہے۔
ایسی صورتحال میں ذہنی تنائو میں اضافہ ہوتا ہے جس سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپکو بھیڑچال سے یکسر علیحدہ رکھا جائے اور وہ میدان منتخب کیا جائے جہاں آپ رفتار اور گنجائش کے لحاظ سے خود کو درست محسوس کرتے ہوں۔تاریخ گواہ ہے کہ دنیامیں بڑ ا نام بنانے والے تقریباتمام لوگ اپنے ہی بڑوں کے باغی تھے، اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلنے کی بجائے وہ کچھ مختلف مگر مثبت کر گزرنے پرڈٹے ہوئے تھے۔ ایسے تاریخی لوگوں کو مشعل راہ بناتے ہوئے اب آپ نے بھی اپنی سوچ کو بدلتے ہوئے ایسے راستے کا انتخاب کرنا ہے جو لاکھوں لوگوں کے جم غفیر کی بجائے صیح سمت کی طرف جاتا ہو، کیونکہ دنیا کے کامیاب لوگوں کو پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مثبت اور صحیح سمت کا تعین ہی دراصل کامیابی کی پہلی سیڑھی گردانی جاتی ہے۔
مقابلے کے رجحان کا پروان چڑھنا بلاشُبہ ذھنی تنا ئو کوبڑھاتا ہے جبکہ اس کے بر عکس تنائو کاختم ہونا لازمی امرہے۔کسی کام میںا گر مقابلہ ہی نہ ہو تو پھر ذہنی تنائو کیسا؟؟؟ اگر کو ئی مد مقابل نہیں تو مقا بلہ کیسا؟؟؟لہذا آپ اکیلے ہیں اور آپ کے مد مقابل کوئی نہیں تو آپ اپنی خواہش یا خواب کو حقیقت کے سانچے میں باآسانی ڈھال سکتے ہیں۔ ہرانسان کے اندر کمزوری اور طاقت ایک ساتھ پائی جاتی ہیں جبکہ دنیا کی کامیابی صرف طاقت میں پنہاں ہے، جو شخص اپنے اندر کی طاقت کو پہچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے وہی دراصل تاریخ میں اپنا نام لکھواتا ہے۔
تحریر : مزمل احمد فیروزی