تحریر : ڈاکٹر تصور حسین
ستمبر 2012 جب رسالت مآب سردار الانبیاء جناب محمد کی شانِ اقدس میں دنیا کے فاسقوں ظالموں اور کافروں نے گستاخیوں کا سلسلہ شروع کیا ، گستاخانہ خاکے ، گستاخانہ کارٹونوںاور فلمیں جب سوشل میڈیا کی ویب سائیٹ یوٹیوب پر upload کی گئی تو عالم اسلام سمیت پاکستان میں غم و غصے کی فضا پیدا ہوگئی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ِ نے عوام کے شدید دباؤ کے تحت گستاخانہ خاکوں کے تحت گوگل کی ویب سائیٹ ؛ یوٹیوب ؛پر پابندی لگا دی تھی ، اور عوام کی آنکھوں میں دھول جونک کر ہر روز نئے نئے بہانے تراشے جاتے رہے ہیں مگر عوام کا شدید دباؤ کے آگئے پی پی پی کی حکومت مکمل بے بس ہو کر اپنا وقت پورا کر کے ایوانِ اقتدار سے رخصت ہو چکی تھی۔
اب ماضی قریب میں پاکستان مسلم لیگ ( نواز حکومت ) نے پاکستان کے غیرمند مسلمانوں کو چونا لگا کر غیروں کے اشاروں پر گستاخانہ خاکوں کو یوٹیوب سے ختم کئے بغیر پابندی اٹھا لی گئی ۔ یہ علم و حکمت یا سائنسی مجبوری کے تحت نہیں اُٹھائی گئی بلکہ اسلام کے دشمنوں کو خوش کرنے کی ایک کڑی تھی اور اُسی سازش کی ایک کڑی شہید ممتاز حسین قادری کی پھانسی کی طرف ملتی ہے معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا بلکہ شروع ہوا ہے کہ ۔گستاخانہ خاکوں کو ہٹائے بغیر یو ٹیوب پر پابندی ختم کرنا۔
شہید ملک ممتاز قادری کو پھانسی دینا ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں کہنے کو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ گوگل نے پاکستان کے لئے الگ ورژن متعارف کروایا ہیں یہ ایسے ہی ہیں جیسے شہید ملک ممتاز قادری کو قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے پھانسی دی گئی ہے۔ اس موقع پر مجھے یہ بیان یاد آرہا ہے کہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ غازی ممتاز حسین قادری شہید کی شہادت اور جنازہ کے نسبت سے قوم ہر سال یکم مارچ کو ”یوم تحفظ ناموس رسالت ”کے طور پر منائیگی اور ملک میں تحفظ ناموس رسالت ۖکیلئے آئینی و قانونی جدوجہد کی جائیگی۔
غازی ممتاز حسین قادری شہید نے ناموس رسالت ۖپر قربان ہوکر ملک کے مستقبل کا تعین کردیا ہے۔شہید کی نماز جنازہ میں اندرون اور بیرون ملک سے لاکھوں فرزندان توحید نے شرکت کرکے نبی مہربان حضرت محمد ۖکے ساتھ اپنے گہرے عشق و محبت کا ثبوت دیا ہے۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے غازی ممتازحسین قادری شہید کی رہائش گاہ پر منعقدہ دعائیہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ حکمران اپنے مغربی آقائوں کو خوش کرنے کیلئے لبرل ازم اور سیکولر ازم کی باتیں کررہے ہیں مگر ملک کے 20کروڑ عوام ملک کی اسلامی شناخت کو قائم رکھنے کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے تیار ہوچکے ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق سلیمان تاثیر جو گورنر بھی تھا اور پی پی پی کا تھم بھی مگر جب جنازہ پڑھانے کا موقع آیا تو ۔خود پیپلز پارٹی سے وابستہ مولوی صاحبان نے کانوںکو ہاتھ لگا کر”نہ بابا نہ”کا وردکیا اور بھاگ گئے بڑی مشکل سے ایک سرکاری و درباری تنظیم سے وابستہ ایک مولوی صاحب میسر آئے جنہوںنے سلمان تاثیر کی نماز ِ جنازہ پڑھائی پہلی قطار میں اس وقت کے وزیر ِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی،رحمن ملک، میاںخورشید علی قصوری،فاروق ایچ نائیک،راجہ پرویز اشرف جیسی شخصیات کھڑی تھیں۔۔۔گورنرہائوس کی چاردیواری، غیرمعمولی حفاظتی اقدامات اور ہیلی کاپٹر سے فضائی نگرانی۔۔۔ اس کے باوجود سب کے سب خوفزدہ تھے۔
دوسری جانب شہید ممتازحسین قادری کی نماز ِ جنازہ کے موقعہ پر لیاقت باغ راولپنڈی میں لوگوںنے رات کو ہی ڈیرے ڈال رکھے تھے پورے شہر میں اس روز نہ جانے کہاں سے سیکڑوں نہیں ہزاروں بھی نہیں بلکہ لاکھوں لوگ امڈ آئے ہرطرف حد ِ نظر لوگوںکا ہجوم۔۔۔ان میں کئی افرادنے سبزپگڑیاں بھی باندھ رکھی تھیں کچھ نے کالے اورسفید عمامے بھی۔۔بوڈھے بزرگ بھی جوان بھی اور نوجوانوں کے قافلے ہی قافلے اور ان میں ننگے سروالے بھی تھے۔
ہزاروں ٹوپی والے بھی تھے شلوارقمیض والے بھی پینٹ شرٹ میں ملبوس بھی۔۔۔لمبی داڑھی بھی ہزاروں مضطرب تھے۔۔ ترشی داڑھی والے، مونچھوںوالے اور کلین شیو والے بھی موجود تھے لیاقت باغ میں سنی،بریلوی، اہلحدیث،شیعہ کی تخصیص نہ تھی یہاں صرف مسلمان جمع تھے ایک اندازے کے مطابق 600,000چھ لاکھ افراد ایک ایسے عا شق ِ رسول ۖ کے جنازے میں شرکت کیلئے آئے تھے جو حرمت ِ رسول ۖ پر قربان ہوگیا بلاشبہ ملک ممتازحسین قادری کا جنازہ راولپنڈی کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔جنہوںنے آخری دیدار کیاہے ان کا کہنا تھا ملک ممتازحسین قادری کے چہرے پر بڑا سکون تھا جیسے وہ سورہا ہو ابھی شور سن کر اٹھ جائے گا۔
ایک بھائی نے اپنے کالم میں کیا خوب بات لکھی ہے عالم ِ اسلام کی ایک جید شخصیت حضرت امام احمد بن حبل نے حکمرانوںکو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا”ہمارے اور تمہارے درمیان جنازے فیصلہ کریں گے کہ کون حق پر تھا”۔۔۔ اسی قول کو ا صول مان لیں تو۔۔۔فیصلہ توہوگیا۔۔۔ نہ ماننے والے ذرا رات کی تنہائی میں یہ کالم پڑھ کر اپنے آپ سے سوال کریں ممتازحسین قادری قاتل تھا یا شہید۔۔۔ جو فیصلہ ان کا ضمیر کریں وہ فیصلہ ہپی حق و سچ کا فیصلہ ہوگا۔
آخر میں ایک چھوٹی سی حقیقت بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ملک ممتاز حسین قادری کے معاملے میں حکومت کسی بھی طور پر بری الزمہ قرار نہیں دی جا سکتی ! اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جو کام ہوا وہ عدالتوں نے کیا اور عدالتیں قوانین کی پابند ہیں اس موقع پر میں بے شمار مثالیں ہمارا ضمیر جھنجھوڑنے کے لئے روز روشن کی طرح عیاں ہیںکہ عدالتوں سے غریب انصاف مانگتے مانگتے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر اس فانی دنیا سے خودکشیوں کی صورت میں اپنا خاتمہ کر چکے ہیں۔
تحریر : ڈاکٹر تصور حسین