لاہور (ویب ڈیسک) قارئین ، آپ دنیا بھر کی تاریخ کے اوراق کو کھنگال لیں، مگر آپ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا، عیسائیوں، سکھوں، یہودیوں ، پارسیوں ، ہندوﺅں غرضیکہ ہرمذہب والوں کو اپنے مذہب کی بقاءکی خاطر اتنی قربانیاں کبھی بھی نہیں دینی پڑیں، جتنی اسلام کو زندہ رکھنے کے لیے دینی پڑی
نامور کالم نگار نواز خان میرانی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ مگر جب ہم تاریخ اسلامی کا مطالعہ کرتے ہیں، تو مسلمانوں کو اپنی سلامتی کے لیے روزازل سے نہ صرف ہروقت حالت جنگ میں رہنا پڑتاہے، بلکہ مسجد، محراب ومنبر کے تقدس عزت واحترام اور وقار کو برقرار رکھنے کے لیے بھی جانفشانی سے حفاظت کرنی پڑتی ہے، کیا پاکستان کے 20کروڑ عوام اس وقت بھی حالت جنگ میں نہیں ؟ میرا یہ گمان ہے، کہ ایسی سعادت ، ہمیں روز اول سے یوم نشورتک یعنی ابد تک حاصل رہے گی، یہی ایک مومن کی معراج ہے، جو ہر مسلمان کے لیے باعث افتخار ووقار ہے ، حضرت آدم علیہ السلام کی اگر داستان ایثاروقربانی کو شروع کریں، تو بات احاطہ تحریر سے بعید ہو جائے گی۔ چنانچہ اس ذکر خیر کونانا ،رسول پاک اور نواسہ رسول حضرت امام حسینؓ تک فی الحال محدور کردیتے ہیں، علمائے کرام فرماتے ہیں، اور درس شریعت مطہرہ بھی یہی ہے ، کہ انسان کو دوقوتیں ودیعت ہوئی ہیں، عقل اور عشق اور انہیں قوتوں کے بل بوتے پہ انسان اپنی منزل مقصود تک رسائی حاصل کرکے گوہر مقصود حاصل کرسکتا ہے، تنہا شوق ووفاومحبت اور عقل کام نہیں آتا ہے، اور یہی اختلاف ہے، جو عقل کے غلام بلکہ طریق انبیاءمیں پایا جاتا ہے ، حکماءصرف عقل کے پابند ہوتے ہیں، اور انبیاءؑ عقل کے ساتھ ساتھ عشق کو بھی بروئے کار لانے کی دعوت دیتے اور تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے، کہ جو منازل سلوک عقل سے سالہا سال تک طے نہیں پاتیں، وہ عشق سے دم بھر میں انجام پاجاتی ہیں۔
اسلام میں جس قدر عقل معتبر ہے، اس میں عشق حقیقی کے آمیزش سے لطافت دوچند ہو جاتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں، بلکہ دن میں کئی بار مشاہدہ فرماتے ہیں، کہ نماز میں حمدوثنا الٰہی اور استعانت، یہ عقلی دلائل وفضائل ہیں، لیکن انہی پہ عمل پیرا ہوکر دست بستہ کھڑے ہونا، جھک جانا، سجدے میں سربسجود ہوکر گرجانا، یہ سب ارکان دلالت عشق سے مرصع ہیں۔ اسی طرح حج یا عمرے میں اس کی صفت وثنائ، دعا و استغفار ،عقل کے ماتحت ہے، لیکن احرام باندھ کر فنائے حرص و ہوس کا ثبوت دینا، دیوانہ وار کعبہ کے گرد گھومنا اور صفاو مروہ کے گرد گھومنا ، منیٰ وعرفات میں والہانہ لبیک پکارنا ، حضرت عشق کا جلوہ ہے اب مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک محض ایک نظر صلوٰة رسول اور نواسہ رسول کی نماز پہ نظر ڈالیں، آپ کی آنکھیں روشن ہو جائیں گی۔ جنگ بدر کا بدلہ لینے کے لیے مودی نما کافروں نے بدلہ فوراً ہی جنگی تیاریوں کے بعد جنگ احد مسلط کردی، اور ابن قیمہ بدبخت نے اس قدر پتھر حضور پہ پھینکے کہ آپ کے رخسار مبارک پہ خون پھیل گیا، اور آپ کے خود کے حلقے چہرہ اقدس میں گڑھ گئے اور پیشانی مبارک زخمی ہوگئی ۔ سرکار دوعالم نے خود اپنی چادر مبارک سے اسے صاف کرنا شروع کردیا ، اور ارشاد فرمایا کہ وہ قوم کیسے نجات پائے گی، جو اپنے نبی کے ساتھ ایسا سلوک کرے، حالانکہ وہ انہیں حق کی دعوت دیتے ہیں۔ حضور نے اپنے ایک قطرہ خون کو بھی زمین پہ نہیں گرنے دیا، اور فرمایا کہ
اگر خون کا ایک قطرہ بھی زمین پہ گرا، تو اللہ تعالیٰ آسمان سے زمین والوں پہ عذاب نازل کردے گا، اور پھر فرمایا کہ اے اللہ تعالیٰ میری قوم کو معاف فرما، کیونکہ وہ مجھے جانتی ہی نہیں، اور میری حقیقت کو پہچانتی ہی نہیں۔ اس دوران کہا جاتا ہے کہ ایک دوسرے بدبخت عتبہ بن ابی وقاص نے ایک پتھر حضور کی طرف زور سے پھینکا، جو آپ کے لب مبارک پہ لگا ، اور نچلے دندان مبارک شہید ہوگئے۔ لعین عبداللہ بن شہاب نے پتھر پھینک کر کہنی مبارک شہید کردی، اس کے بعد ایک اور بدبخت ابن قیمہ نے حضور سرورکائنات کو تلوار ماری اور حضور نے جو زرہ مبارک زیب تن کی ہوئی تھی، اس کے بوجھ سے اس گڑھے میں اچانک گر گئے، جس کے قریب کھڑے تھے اور مسلمانوں کی نظر سے اوجھل ہو گئے، مگر اس بدبخت جس نے تلوار کا وارکیا تھا، بلند آواز سے لوگوں کو بتانا شروع کردیا کہ معاذاللہ میں نے رسول پاک کو قتل کردیا ہے۔ اس وقت شیطان لعین نے بھی بآواز بلند کہناشروع کردیا، کہ حضور شہید ہوگئے ہیں ابوسفیان نے خوش ہوکر کہا جس طرح عجم والے اپنے بہادروں کو کنگن پہناتے ہیں ہم بھی تمہیں کنگن پہنائیں گے، مگر جب کافروں کو ڈھونڈنے کے بعد حضور نہ ملے، تو پھر ابوسفیان جان گیا کہ ابن قیمہ کی بات غلط ہے۔ روایات میں آیا ہے کہ مقتولین کے درمیان حضور نے اس گڑھے میں اپنے آپ کو کافروں کی نظر سے چھپا رکھاتھا، مگر صحابی رسول حضرت کعبؓ
نے حضور کا چہرہ مبارک دیکھ کر خوشی سے لبریزہوکر نعرہ بلند کیا، مگر حضور نے فوراً ان کو خاموش رہنے کا اشارہ فرمایا، مگر اس کے باوجود بھی صحابہ کرامؓ ایک ایک کرکے ان کے گرد جمع ہوگئے آپ کے زانو مبارک شدید زخمی ہوچکے تھے، آپ نے دو زریں پہنی ہوئی تھیں اس لیے کھڑے ہوکر گڑھے سے باہر نکلنا دشوار تھا، حضرت طلحہ بن عبداللہؓ ، جو خود بھی شدید زخمی تھے، فوراً آگے بڑھے، اور حضور کے مبارک بازوﺅں کے نیچے داخل ہوکر حضور کو اٹھا کر پاﺅں پہ کھڑا کیا، پھر وہ بیٹھ گئے، اور حضور نے اپنے قدم مبارک ان خوش نصیب کے دوش مبارک پہ رکھا ، حضرت طلحہؓ تھوڑا سا اونچے ہوئے، تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے سیدنا کریم کا دست مبارک پکڑا اور آپ گڑھے سے باہر آگئے اس کے بعد حضور نے ارادہ فرمایا کہ احد کی گھاٹی کی طرف اپنے صحابہ کرامؓ کی طرف متوجہ ہوں اور پہاڑ کی بلندی پر تشریف لے جائیں۔ لیکن شدید زخموں کی شدت اور ضعف کی وجہ سے ایسا کرنا بہت دشوار ہورہا تھا مگر حضور نے انتہائی ضعف، کمزوری ، زخموں سے چورچور ہوجانے کے باوجود بھی بیٹھ کر، کیونکہ کھڑا ہونا بہت ہی مشکل ہوگیا تھا، ظہر کی نماز ادا فرمائی، یہ حضرت امام حسینؓ کے نانا کی نماز تھی، اس حضرت حسینؓ کی جن کا نام خود اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے رکھا تھا۔ آپ کے شدید زخمی ہونے کی اطلاع جب حضرت فاطمہ الزہراؓ کو ملی، تو آپ بیقرار اور بے چین ہوگئیں،تو وہ باپردہ ہوکر مدینہ شریف کے چند ہمراہیوں کے ساتھ کوہ احدکی طرف روانہ ہوئیں ، اور اس طرح حضور کے پاس تشریف لے گئیں، حضرت علیؓ نے انہیں ملول اور غمگین دیکھ کر بہت زیادہ تسلی و تشفی دی، زخموں کی شدت کی وجہ سے حضور نحیف اور ان کو ضعف ہوگیا تھا، کیونکہ ابھی تک ان کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا، سید نا فاطمة الزہراؓ آپ کے پاس رہیں، اور حضرت علیؓ پانی لینے کے لیے تشریف لے گئے پانی لانے کے بعد انہوں نے حضور کے زخموں پہ پانی ڈالنا شروع کردیا، اور سیدنا فاطمة الزہرا ؓ زخموں کو دھوتی جاتی تھیں، مگر زخم اتنا کاری تھا کہ بار بار دھونے کے باوجود بھی خون بند نہ ہوا ، تو پھر سیدنا فاطمہؓ نے کپڑے کا ایک ٹکڑا جلا کر زخم میں بھرنا شروع کردیا، جس سے آخر کار خون بہنا بند ہوگیا۔قارئین کرام فاطمہ بتولؓ کے ابا جان کی نماز ظہر ادا کرنے کا حال تو آپ نے سن لیا، اب آئیے ان کے نواسے حضرت حسینؓ کی نماز عصر کو دیکھتے ہیں، حضرت فاطمہؓ کے ابا جان، اور بیٹے کی نماز جو تیروں کی بوچھاڑ، نیزوں کی بھرمار اور شمشیر کی یلغار کے وقت بھی نہایت انہماک اور یکسوئی سے اس بات سے بے پرواہوکر ادا فرمائی، کہ ان کا پورا خانوادہ شہید ہوچکا تھا مگر مجال ہے ، ان کی جبیں مبارک پہ شکن کا شائبہ بھی ہوا ہو۔ بقول سید مظفر علی شاہ ۔۔ کربلا تھا امتحاں ایمان کا ۔۔ ہرجہت سے شاہ کو پرکھا گیا ۔۔ جان ومال ونسل درراہ خدا ۔۔ مرحبا ایسے پیکر صبر ووفا ۔۔ بیعت باطل کبھی جائز نہیں ۔۔ قائم و دائم اصول کربلا۔