جیسے ہی زینب کی پامال لاش پر کیمرے کی آنکھ گئی، تمام میڈیا کی سرخیاں خونی رنگ میں ڈھل گئیں۔ فیس بک، ٹوئیٹر، انسٹاگرام وغیرہ کو مذمتی بیانات سے بھر دیا گیا۔ عوامی ردعمل کا اس قدر غیر متوقع مظاہرہ دیکھنے میں آیا تو مقتدر حلقوں میں جنبش آئی اور روایتی کاروائیوں کا آغاز ہوگیا اور اسی کی دیکھا دیکھی چیف جسٹس نے بھی ازخود نوٹس لینے میں ذرہ بھر بھی تاخیر نہ کی اور چیف جسٹس سے بھی بڑے چیف صاحب نے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرواتے ہوئے عوامی امنگوں کی ترجمانی کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
اس دل دہلا دینے والے واقعے پر جہاں ہر آنکھ اشکبار نظر آئی وہیں اسی واقعے نے کئی نامور شخصیات کو دِلی ٹھیس پہنچائی اور ہمت جتا کر ان شخصیات نے خود ان پر ہونے والے جنسی استحصال کی کہانی بھی سنادی جس سے یہ ثابت تو ہوا کہ یہ معاشرتی مرض ہمارے ہاں کس حد تک سرائیت کر چکا ہے اور شائد اب جان لیوا صورت اختیار کرچکا ہے۔
اب جبکہ اس اندوہناک واقعے کو کئی دن گزر چکے ہیں تو معاملہ اس طرح کے باقی کیسز کی طرح روائیتی خاموشی کی جانب بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔
اس سے پہلے بھی ایسے واقعات میں ایسے ہی عوامی ردعمل کا عینی شاہد رہ چکا ہوں۔ چاہے وہ ایک 5 سالہ بچی کو زیادتی کے بعد زخمی حالت میں لاہور کے گنگا رام ہسپتال کے گیٹ پر پھینکنے کا واقعہ تھا یا قصور میں ہی بچوں کے ساتھ بد فعلی جیسے گھناؤنے گناہ کا واقعہ تھا۔ لوگ تب بھی ایسے ہی چند دن کے سوگ میں مبتلا تھے اور اس کے بعد سب بھول بھال گئے۔
زینب تو چلی گئی مگر اس دردناک واقعے میں عوامی ردعمل، خصوصاً نوجوانوں کے جذبات نے مجھے بہت حیران کیا۔
مقتولہ زینب کے چہرے پر معصومیت دیکھ کر ہر کوئی بھاری آواز اور چہرے پر بناوٹی اور قدرتی تاثرات سجائے لبوں سے بس یہی نوحہ کہتا ہوا نظر آیا،
’ایسا کیسے ہوسکتا ہے، کوئی جنسی تسکین کے لئے اس قدر ظالم کیسے بن سکتا ہے۔ اس قدر بے رحم بھی کوئی ہوسکتا ہے کہ بچی کی عمر اور کمسنی کا بھی کوئی لحاظ نہ کر سکا‘
ان نوحہ گو نوجوانوں میں خود میں بھی شامل تھا ۔ مگر یہی الفاظ ہی حیرانگی کا باعث ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس واقعے کے رونما ہونے پر اتنی حیرانگی کا اظہار کیوں کیا جارہا ہے؟
چھوٹوں اور بڑوں کی بات اگر نہ بھی کی جائے لیکن ہم نوجوانوں کے اذہان میں ہر وقت صرف ایک ہی چیز تو کسی الہام کی طرح سوار رہتی ہے۔ چاہے وہ کسی گلی کی نکڑ پر کھڑا ہوا آتی جاتی لڑکیوں پر نگاہ رکھنے والا نوجوان ہو یا کسی اچھے دفتر میں رفیق کار کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی نشست پر براجمان خود کو سنوارنے میں مصروف نوجوان ہو۔
چاہے کسی دکان میں ‘چھوٹا’ کہہ کر پکارا جانے والا ان پڑھ نوجوان ہو یا کسی یونیورسٹی کی کلاس میں نظریں پروفیسر کی بجائے ساتھ والی کرسیوں پر بیٹھنے والی لڑکیوں پر جمائے رکھنے والا نوجوان ہو۔ ہم سب نوجوانوں کے اعصاب پر صرف ایک چیز ہی تو حاوی رہتی ہے۔
آج کل کے دور میں ایک نوجوان شریف تب ہی بنتا ہے جب وہ ہر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھ لیتا ہے۔ جب اسے ہر ممکن کوشش کے بعد بھی کوئی ‘مناسب ثمر’ نہیں ملتا۔
جس شخص نے یہ جرم انجام دیا ہے وہ بھی اسی معاشرے کا ہی ایک فرد ہے جس میں رہتے ہوئے ہم بھی بلکل ویسے ہی کام شوق سے بلکہ فخر سے کرتے ہیں۔ جس شخص نے یہ گھناؤنی داستان رقم کی ہے اس شخص کے بھی ذہن میں ایک ہی بات حاوی تھی۔ تو پھر زینب کے واقعے پر اتنی حیرانگی کیوں؟
کسی نہ کسی صورت میں ہم میں سے ہر کوئی اسی سے ملتے جلتے واقعات کا یا تو ذمہ دار رہا ہوتا ہے یا کسی نہ کسی انداز میں ملوث رہا ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ واقعات خاموشی کے اندھیرے میں سینوں کے قبرستان میں دفن کر دئیے جاتے ہیں۔
سب باتیں اس مقصد کے لئے ہرگز بیان نہیں کی گئیں کہ ہر نوجوان اب سدھر جائے، ہر کسی کی اپنی زندگی ہے اور ہر کسی کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق ہے۔
مگر سوال تو بنتا ہے کہ ہر وقت کسی موقع کی تلاش میں رہنے والے ہم نوجوان کس منہ سے زینب پر ہونے والے ظلم کے خلاف مذمتی بیان جاری کرسکتے ہیں؟ منافقت کا لبادہ اوڑھنے کی بجائے اپنے اصل وجود کو ذہن میں رکھتے ہوئے کم از کم دکھاوے کی حیرانگی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔
کسی کی بھی ناموس کے ساتھ ایسا ظلم ہوسکتا ہے یا خدا نخواستہ اس سے بھی بدتر واقعہ رونما ہوجائے تو حیرانگی کی بات نہیں، اس سے بدتر واقعات رونما ہو بھی چکے ہوں گے شائد۔