زینب کے والد نے عدالت میں کہا کہ چیف جسٹس کی خصوصی دلچسپی کی وجہ سے زینب کے ملزم کا ٹرائل جلد مکمل ہوا۔ ملزم کو ایسی سزا دی جانی چاہئیے کہ دوبارہ کوئی ایسی حرکت نہ کرے۔
زینب کے والد نے ملزم عمران کو سنگسار کرنے کا مطالبہ کیا۔ کوٹ لکھپت جیل میں موجود زینب کی والدہ نے مطالبہ کیا کہ زینب کے قاتل عمران کو سر عام پھانسی دی جائے۔ جہاں سے زینب کی لاش برآمد ہوئی تھی اسی کوڑے کے ڈھیر پر عمران کو پھانسی دی جائے ۔ زینب کی والدہ کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو ہم احتجاج کریں گے
زینب قتل کیس میں مجرم عمران علی کو 4 بار سزائے موت کا حکم دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کوٹ لکھپت جیل میں انسداد ددہشتگردی کی خصوصی عدالت جے جج جسٹس سجاد احمد نے زینب قتل کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے عمران علی کو مجرم قرار دیتے ہوئے 4 مرتبہ سزائے موت دینے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے عمران علی کو زینب کو اغوا کرنے، زینب سے جنسی زیادتی کرنے ، زینب کو قتل کرنے پر 4 مرتبہ سزائے موت کا حکم دیا، زینب کے ساتھ بد فعلی کرنے پر عمران علی کو عمر قید اور25 لاکھ روپے جرمانہ اور جبکہ زینب کی لاش کو گندگی کے ڈھیر میں پھینکنے اور بے حُرمتی پر عمران علی کو سات سال قید کی سزا اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔
اس موقع پر کوٹ لکھپت جیل میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ زینب قتل کیس میں مجرم کو عبرت کا نشانہ بنادیا گیا ہے۔ عمران ایک سیریل کلر نے جس نے زینب سمیت 9 بچیوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنایا، ان بچیوں میں سے 2 زندہ ہیں جبکہ باقی 7 بچیاں مر چکی ہیں۔ مجرم کے پاس 15 دن کا وقت ہے جس میں وہ افیصلے کے خلاف اپیل دائر کر سکتا ہے۔
اس کے علاوہ مجرم کے پاس رحم کی اپیل کا حق بھی موجود ہے جس میں وہ صدر مملکت سے رحم کی اپیل کر سکتا ہے۔ پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ اپیلیں دائر کرنے کی مدت ختم ہوتے ہی مجرم کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ قصور میں رواں سال کے آغاز میں ہی ننھی زینب کو اغوا کرنے کے بعد جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور قتل کر دیا گیا۔ زینب کی لاش 9 جنوری کو کچرے کے ڈھیر سے برآمد ہوئی جس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے زینب کے معاملے پر 10 جنوری کو از خود نوٹس لیا۔
21 جنوری کو چیف جسٹس نے اس کیس کی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں سماعت کی جس دوران انہوں نے کیس میں ہوئی پیش رفت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور تفتیشی اداروں کو تحقیقات کرنے کے لیے 72 گھنٹے کی مہلت دے دی۔ مہلت ملنے کے 48 گھنٹوں بعد ہی پولیس نے زینب سمیت 8 بچیوں سے زیادتی اور قتل کیس میں ملوث ملزم عمران کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا جس کا اعلان بعد ازاں ایک پریس کانفرنس میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کیا۔
سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب کی جانب سے رپورٹ جمع کروانے پر اس کیس کو نمٹا دیا جس کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے انسداد دہشتگردی کی عدالت کو حکم دیا کہ 7 روز کے اندر ملزم کا ٹرائل ختم کیا جائے۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ 96 گھنٹے میں کسی ملزم کا ٹرائل مکمل ہوا۔ ملزم عمران کو انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے جج سجاد احمد میں پیش کیا گیا۔ 2 فروری کو زینب قتل کیس کے مرکزی ملزم عمران علی پر کوٹ لکھپت جیل میں ہی 12 فروری کو فرد جرم عائد کی گئی۔
کوٹ لکھپت جیل میں انسداد دہشت گردی عدالت کے جج سجاد احمد نے استغاثہ کے گواہوں نے شہادتیں قلمبند ہونے کے بعد ملزم عمران پر فرد جُرم عائد کی۔ اور پراسیکیوشن کی جانب سے تمام 25 گواہوں کوبھی طلب کیا گیا۔ زینب قتل کیس کا فیصلہ 15 فروری کو محفوظ کیا گیا تھا۔
کوٹ لکھپت جیل میں زینب قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا جس کے تحت مجرم عمران علی کو بار سزائے موت ، عمر قید اور مجموعی طور پر 32 لاکھ روپے جُرمانے کی سزا دنائی گئی۔ زینب کی والدہ نے عمران علی کو سر عام پھانسی دینے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ اس پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا تھا کہ مجرم کو سزا دے کر عبرت کا نشانہ بنایا گیا۔
سر عام پھانسی دینے کے مطالبے پر غور کیا جائے گا ، سزا پر عملدرآمد آئین کے عین مطابق ہو گا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے زینب کی والدہ کا کہنا تھا کہ ہم عدالت کی جانب سے دی جانے والی سزا ہر مطمئن ہیں لیکن مجرم کو وہیں سزا دی جائے جہاں وہ زینب کو پھینک کر گیا تھا۔ مجرم عمران زینب سمیت 9 بچیوں سے زیادتی کر چکا ہے جن میں سے محض دو زندہ ہیں۔ مجرم سے ملاقات کے سوال پر زینب کےچچا کا کہنا تھا کہ ہم مجرم سے نہ تو ملاقات کرنا چاہتے ہیں نہ اسے دیکھنا چاہتے ہیں ، ہم بس یہی چاہتے ہیں آئین میں ترمیم کی جائے اور ایسے مجرموں کو سر عام پھانسی دینے کا قانون متعارف کروایا جائے۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے قصور میں 6 سالہ بچی زینب کو ریپ کے بعد قتل کے جرم میں عمران علی کو 4 مرتبہ سزائے موت کا حکم سنا دیا۔
مجرم عمران علی کو عدالت نے بچی کے اغوا، ریپ، قتل اور انسداد دہشت گردی کی دفعہ 7 اے ٹی اے کے تحت سزا سنائی۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت نے بچی کے ساتھ بدفعلی پر عمر قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا، اس کے علاوہ بچی کی لاش کو گندگی کے ڈھیرمیں چھپانے کے جرم میں 7 سال قید کی سزا اور 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد ہوا۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سائنٹفیک بنیادوں پر فرانزک شواہد کو شامل تفتیش کرتے ہوئے مجرم کو سزا سنائی گئی ہے۔
پروسیکیوٹر جنرل احتشام قادر نے بتایا کہ ‘ملزم نے کئی بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنایا، تاہم اللہ کے فضل سے پروسیکیوشن ٹیم کی محنت کی بدولت معصوم بچیوں کا ریپ کرنے اور انہیں قتل کرنے والے مجرم کو پاکستان کے قانون نے نشانِ عبرت بنادیا’۔
انہوں نے کہا کہ مجرم نے پہلے ہی اپنے اوپر لگائے الزامات کو قبول کر لیے تھے لیکن پھر بھی اسے اپنے دفاع کا بھر پور موقع دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مجرم کے پاس ان کی سزا کے خلاف فیصلے کا اختیار ہے اور وہ 15 روز کے اندر اعلیٰ عدالت میں فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرسکتا ہے جس کے لیے امکان ہے کہ مجرم جیل حکام سے رجوع کرے گا۔
زینب کے اہلِ خانہ نے عدالتی فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا جبکہ انہوں نے مجرم کے ٹرائل کے دوران ساتھ دینے پر میڈیا کا شکریہ بھی ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ مجرم کو ملنے والی سزا سے مطمئن اور انصاف کے حصول میں ذرائع ابلاغ کے مثبت کردار پر بہت شکر گزار ہیں، تاہم ‘مجرم عمران کو سرِعام پھانسی کا مطالبہ تاحال اپنی جگہ قائم ہے’۔
واضح رہے کہ انسدادِ دہشت گردی عدالت نے حتمی بحث مکمل ہونے کے بعد زینب قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اور اس فیصلے کو سنانے کے لیے 17 فروری تاریخ مقرر کی گئی تھی۔
صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔
جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا کہ اس وقت ان کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔
پانچ روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔
بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
بچی کی لاش ملنے کے بعد قصور میں پُر تشدد مظاہروں کا آغاز ہوا اور میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اہلِ علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
دس جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔
بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔
تئیس جنوری کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے والد کے ہمراہ بتایا کہ زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا، یاد رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملزم عمران کو پاکپتن سے گرفتار کیا گیا تھا۔
چوبیس جنوری 2018 کو قصور میں کم سن زینب کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزم کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جبکہ عدالت نے ملزم کو 14 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔
چھ فروری 2018 کو زینب قتل کیس میں پولیس نے اہم پیش رفت کرتے ہوئے مرکزی ملزم عمران کو مزید 7 بچیوں کے ریپ اور قتل کیسز میں نامزد کر دیا تھا اور لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے ملزم کا مزید 3 روزہ ریمانڈ بھی حاصل کیا تھا۔
آٹھ فروری پنجاب پولیس نے زینب سے متعلق کیس میں ملزم عمران کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرکے ملزم کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تھا۔
نو فروری کو اے ٹی سی نے قصور میں ریپ کے بعد قتل کی جانے والی زینب کے کیس میں گرفتار ملزم عمران کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کردیا تھا۔
چودہ فروری کو ملزم محمد عمران کے وکیل مہر شکیل ملتانی اپنے موکل کا مقدمہ لڑنے سے معذرت کرتے ہوئے اس کیس سے دستبردار ہوگئے تھے۔
مہر شکیل ملتانی کے دستبردار ہونے کے بعد سرکاری وکیل محمد سلطان کو عمران کا وکیل مقرر کردیا گیا۔23 جنوری کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے والد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا، یاد رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملزم عمران کو پاکپتن سے گرفتار کیا گیا تھا۔