سات سالہ زینب کو آج پورا پاکستان رو رہا ہے لیکن اس رونے کا اب کیا فائدہ؟ اب بھی کہو کہ یہ تو کچھ نہیں ہے، مغرب میں جا کر دیکھیں وہاں عورت کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے۔ اب بھی انٹرنیٹ پر ایسی رپورٹس ڈھونڈو جن کی مدد سے تم ثابت کر سکو کہ مسلم ممالک میں عورت ایک جنت میں رہ رہی ہے اور غیر مسلم ممالک میں عورت کو بس ایک جسم تصور کیا جاتا ہے۔ اب بھی کہو کہ زینب کے ساتھ ہونے والا یہ ظلم اس کی اپنی وجہ سے تھا۔ کیوں اس نے مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے والا لباس پہنا؟ اب بھی اپنی اس بدبودار اور گلی سڑی ثقافت پر فخر کرو جس نے عورت کو وہ اعلیٰ مقام دیا ہوا ہے جو کسی اور ثقافت یا معاشرے نے نہیں دیا۔
قصور میں ہونے والا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس قسم کے درجنوں واقعات قصور کیا ملک کی ہر گلی میں عام ہیں۔ کہیں ان واقعات کو رپورٹ کیا جاتا ہے تو کہیں معاشرے کی باتوں کے خوف سے چپ کی چادر اوڑھ لی جاتی ہے۔ اسی قصور میں تین سال قبل بچوں کو برہنہ فلم بنوانے پر مجبور کیے جانے والے واقعات کے خلاف آواز اٹھائی گئی تھی۔ لیکن کیا ہوا؟ چونکہ حکمرانوں کے اپنے بچے ان کے آرام دہ گھروں میں محفوظ تھے تو ان واقعات کو چنداں اہمیت نہ دی گئی۔ دو چار بیانات اور کچھ گرفتاریاں کی گئیں تا کہ لوگوں کو وقتی طور پر مطمعن کیا جا سکے۔ اس کے بعد پھر وہی سلسلہ جاری ہوگیا۔
سات سالہ زینب کو چند دن پہلے اس کے گھر کے پاس سے اغواء کیا گیا تھا۔ اس کے چچا نے پولیس میں زینب کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی مگر پولیس نے کچھ نہ کیا۔ 8 جنوری کی رات کو زینب کی لاش کوڑے کے ڈھیر سے برآمد ہوئی تو سوشل میڈیا پر کہرام مچ گیا اور مجبوراً حکومت اور میڈیا کو عمران خان کی شادی کی خبر چھوڑ کر اس طرف توجہ کرنی پڑی۔
اس حادثے کے وقت زینب کے والدین عمرہ کرنے اللہ کے در پر پہنچے ہوئے تھے۔ ہمارے درمیان ایسے بھی لوگ موجود ہیں جو زینب کے ساتھ ہونے والے ظلم کے لیے انہیں ہی قصور وار ٹھہرا رہے ہیں۔ اپنی بچی کو اکیلا چھوڑ کر وہ عمرے کی سعادت حاصل کرنے گئے، اسے ان کا جرم ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ایسے معاشرے کو آپ کیا کہیں گے؟
افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ایک باپ کو اپنی بیٹی کے لیے انصاف کے حصول کے لیے اس کے ایمان کی گواہی دینی پڑ رہی ہے۔ میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے زینب کے والد نے کہا کہ ان کی بیٹی مذہب سے عقیدت رکھتی تھی اور اسے چار کلمے یاد تھے جبکہ پانچواں وہ یاد کر رہی تھی۔ کیوں ہمیں ایک عورت کے لیے انصاف کا تقاضہ کرتے ہوئے اس کے ایمان کی گواہی دینی پڑتی ہے۔
مجھے غرض نہیں کہ زینب کا مذہب کیا تھا یا اسے مذہب سے کتنی عقیدت تھی۔ میرے لیے وہ ایک سات سالہ معصوم بچی تھی جس کا واحد جرم بطور ایک لڑکی ایسے معاشرے میں پیدا ہونا تھا جہاں اس کی صنف کو جانوروں سے بھی بدتر سمجھا جاتا ہے۔ زینب کو جس بے دردی سے جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے سے انسانیت نامی چیز عرصہ ہوئے کوچ کر چکی ہے۔ اب یہاں انسان نہیں بلکہ درندے بستے ہیں۔
زینب کے مجرم صرف وہی نہیں ہیں جنہوں نے اس سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا بلکہ زینب کے قاتل ہم سب ہیں۔ اگر آپ ایسے بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتا دیکھ کر چپ رہتے ہیں تو آپ بھی زینب کے مجرم ہیں۔ اگر آپ ایسا سوچتے ہیں کہ عورت کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ذمہ دار وہ خود ہے یا اس کے جسم پر موجود کپڑے ہیں تو آپ بھی اس کے مجرم ہیں۔ اگر آپ مشترکہ خاندانی نظام اور کم عمری میں شادی کے حامی ہیں تو آپ بھی زینب کے مجرم ہیں۔ اگر آپ عورت کی پیدائش کے مقصد کو مرد کی خواہشات پورا کرنا سمجھتے ہیں تو آپ بھی زینب کے مجرم ہیں۔ اگر آپ اپنے بیٹے کو متقی بننے کے لیے 72 حوروں کا لالچ دیتے ہیں تو آپ بھی زینب کے مجرم ہیں۔
اگر آج بھی آپ کی زبان خاموش ہے تو تف ہے آپ کے انسان ہونے اور اس دنیا میں وجود رکھنے پر۔