سات سالہ بچی کے جسم میں مسلسل کئی روز سفاکیت سے نفسانی نطفے اتارنےکے بعد اسے بے دردی سے قتل کرنے والے شخص کو کل گرفتار کر لیا گیا، قوم کو مبارکباد دینے کے لیے وزیرِ اعلیٰ پنجاب لبوں پر مسکراہٹ سجائے میڈیا کے سامنے پیش ہوئے اور اپنی انتھک محنت کی داستان سنانے میں اتنے مگن ہوئے کہ جن کے جگر کا غوشہ دل دہلا دینے والے عمل سے گزرا تھا اس کو بولنے کا موقع بھی میسر نہ آسکا۔ خیر پاکستان کے ہر گھر میں اس خبر کو سننے کے بعد شکر ادا کیا ہوگا، کچھ لوگوں نے اس سنگدل شخص کو پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ کیا ہو گا، کسی نےاُس بے حس کی ایک ٹانگ اور ایک بازو کاٹ دی جانا کا دبے لفظوں میں ذکر کیا ہو گا اور بہت سوں نےاس سے بھی سنگین جملوں کے ساتھ اپنا لہو گرمایا ہو گا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انسانی تاریخ میں اس قسم کا یہ پہلا واقعہ ہے؟ یقیناً جواب ‘نہیں’ ہے، کیونکہ یہ تو ہر گلی کی داستان ہے، ہرمحلے کا واقعہ ہے اور ہرگھر کی کہانی ہے۔ یہ کہانیاں اس معاشرتی نظام میں موجود ہر مرد، بچےاور جوان کے کرتوت ہیں جس کے خلاف آج وہ غم وغصہ کا بے دھڑک اظہار کر رہا ہے، کہیں نہ کہیں ہر شخص اس جنسی ہوس کےمعا شرتی ناسورمیں ملوث رہا ہے، فرق صرف نوعیت کی سنگینی کا ہے۔ کہیں اس نے خود کسی کا جنسی استحصال کیا تو کہیں وہ خود اس جنسی استحصال کا شکار ہوا اور جیسے ہی اسے موقع ملا اس نے بھی شکاری بننے میں کچھ تامل نہیں کیا۔
اگراس جنسی شدت کے حالات کی وجوہات کا بہتر جائزہ لینے کے لیئے اس اسلامی ماشرے کے مذہبی ٹھیکیدار اور ازخود خدائی فوجدار مجھے یہ سوچنے کی اجازت دیں کہ انسان ایک حیوانی بندد کی ہی جدید شکل ہے تو زینب کا واقعہ کچھ بعیید نہیں لگتا۔ حیوانیت کا شعور سےکوئی تعلق نہیں ہوتا اور شعور اور عقل کے بغیرکسی بھی وجود کا حاصل جنسی تسکین اور نسل کی بڑھوتری کے سوا اور ہو بھی کیا سکتا ہے۔ عقل کی محرومی ان حرکات کے ہونے کا بہترین جواز ہے اور معمول بھی لگتا ہے لیکن یہ واقعہ، نہایت ہی معذرت کے ساتھ، ٹھیک بندر سے انسان بنتے ساتھ پیش نہیں آیا، یہ وقوعہ ہزاروں سال بعد رونما ہوا ہے اور ہر گھر میں ہو را ہے۔ کیا ان حالات میں یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ہم آج بھی بندر سے انسان بننے میں ماسوائے ٹیکنالوجی، بہتر ضروریاتِ زندگی، آسائش و زیبائش کے علاوہ اخلاقیات، احساس، ضمیر میں رتی برابر بھی آگے نہیں بڑھ سکے؟
معاشرہ اگر ایک ساتھ رہنے والے لوگوں میں انفرادیت کو مات دے دیتا ہے تو لوگوں میں تغیر بھی معاشرہ ہی پیدا کرتا ہے۔ اگر معاشرہ مہذب اور با کردار لوگ پیدا کرتا ہے تو معاشرہ ہی سرگودھا کا وہ مکروہ درندہ بھی پیدا کرتا ہے جو اڑتالیس سے زائد لاشوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی تاریخ رقم کرتا ہے۔ معاشرہ ہی بھکر کے اُن بھائیوں کو جنم دیتا ہے جو دو سو سے زائد لاشوں کو بے دردی اور سنگدلی سے پکا کے کھانے میں جھجک محسوس نہیں کرتے۔ معاشرہ ہی وہ بے حسی پیدا کرتا ہے جو ایک افسر کی وردی میں ملبوس شخص کو دس دس روپے کی رشوت لینا سکھاتی ہے، روٹی کے دو ٹکروں اور معاشرتی خواہشات کی تکمیل کے لیے بد سے بد تر کروا دیتی ہے اور معاشرہ ہی انسانوں میں وہ جنسی ہوس پیدا کرتا ہے جو عمر، رنگ اور صنف کی پہچان کے بغیر اپنا شکار کرتی ہے۔
زینب میں تمہارا کیا لگتا ہوں؟ تم میری کچھ بھی تو نہیں لگتی، اچھا ہےتم میری کچھ بھی نہیں لگتی، اگر لگتی بھی ہوتی تو شائد میں بھی کسی موقع کی تلاش میں ہوتا۔ آخر میں بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہوں۔ میں بھی تو عمران ہوں، میرے علاوہ کئی لاکھوں عمران بھی اس معاشرے میں بستے ہیں جو نجانے کب کس زینب کو اپنی درندگی کا نشانہ بنالیں۔
ان سب واقعات کا قصور وار کون ہے؟ کیا حقیقت میں یہ معاشرے کا دوش ہے یا اس ریاستی ڈھانچے کا جس پر یہ استوار ہے؟ میں ابھی ناقص العقل ہوں، معلوم نہیں معاشرے سے اس جنسی ہوس کے ناسورکی درستگی کیسے ممکن ہے لیکن ایک بات پر پختہ یقین سا ہے گھٹن سے آزادی، الف ب پ، اور آگاہی پر یقین اس بیماری کو کسی حد تک قابوضرور کر سکتا ہے۔
Zeneb, you are