آخرکار چودہ دنوں کے انتظار کے بعد ننھی کلی زینب اور سات دیگر ننھی بچیوں کا قاتل عمران علی نقشبندی قانون کے شکنجے میں آ گیا۔ امیدِ واثق ہے کہ وہ جلد ہی اپنے انجام کو بھی پہنچ جائے گا۔ مجرم تک رسائی میں ڈی این اے ٹیسٹ نے کلیدی کردار ادا کیا اور پولی گرافک ٹیسٹ نے اس سے اقبال جرم میں بھی بہت مدد کی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قصور میں پہلی بچی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تو اسی وقت کیوں نہ ان خدمات سے استفادہ کرتے ہوئے مجرم کو پکڑنے کی کوشش کی گئی؟ مجرم کو پکڑنے کے بعد اسے میڈیا پر پیش کرنے کے بجائے شہباز شریف کا پریس کانفرنس کرکے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا عمل بھی ہرگز قابل ستائش نہیں تھا۔
خیبرپختونخواہ میں زیادتی کا شکار ہو کر قتل ہونے والی بچی عاصمہ کے قتل پر میڈیا کی خاموشی اور تحریک انصاف کی اس جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش بھی ایک مکروہ فعل ہے۔ سیاست کےلیے بچوں اور بچیوں کی لاشوں کو استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ خیر، مدعا یہ ہے کہ ہم نے زینب اور دیگر معصوم بچیوں کے ساتھ پیش آنے والے واقع سے بطور معاشرہ کیا سیکھا؟
دنیا بھر میں جب بھی کوئی مجرم اس طرح کے واقعات میں ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے پکڑا جاتا ہے تو یہ ڈی این اے کی ساخت دریافت کرنے والے عظیم سائنسدانوں واٹسن اور کرک (اور موریس ولکنز) کی انسانیت کےلیے خدمات کا اعتراف اور ثبوت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں اسلامی نظریاتی کونسل نے جنسی زیادتی کے ثبوت کے طور پر ڈی این اے ٹیسٹ کو رد کرتے ہوئے اسے حرام قرار دے رکھا ہے۔
آج بھی ہماری اسلامی نظریاتی کونسل کے علما کے نزدیک زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون کےلیے چار چشم دید گواہ پیش کرنا لازم ہے۔ یعنی عدالت میں ایک عورت کو یا بچی کو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے وہ چار گواہ ڈھونڈ کر لانے ہوں گے جو دوران زیادتی اسے آرام سے درندوں کی ہوس کا شکار بنتے دیکھتے رہے۔ یہ انتہائی منفرد اور انوکھی منطق ہے۔ اگر چار افراد موقع پر موجود ہوتے ہوئے کسی عورت یا بچی کی عزت خاموشی سے لٹتے دیکھتے رہے تو وہ گواہی دینے کا کشت کیسے اٹھائیں؟ اور کیوں نہ ان چار افراد کو بھی شامل جرم گردانتے ہوئے ان کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے کہ موقعے پر موجود ہوتے ہوئے بھی وہ خاموشی سے یہ جرم سرزد ہوتا دیکھتے رہے۔
علمائے کرام سے گزارش ہے کہ یا تو سائنسی علوم سے دشمنی چھوڑیں یا پھر سائنس اور ٹیکنالوجی کی خدمات سے محض ایک ماہ دور رہ کر عملی نمونہ پیش کریں۔ اسی طرح ڈارک ویب کے مافوق الفطرت قصے سنانے والے اور فحاشی و عریانی کی گردانیں کرتے، سماجی اقدار کے خود ساختہ ٹھیکیداروں نے جس بھونڈے طریقے سے اس جنسی دہشت گردی کو شخصی آزادی کا نتیجہ قرار دیا تھا، ان کو بھی شاید یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جرم کا تعلق مغربی یا مشرقی روایات سے نہیں ہوتا بلکہ اس کی وجہ وہ عوامل ہیں جنہیں ہم بطور معاشرہ نظرانداز کرتے چلے آئے ہیں۔ شخصی صداقتوں کے اظہار کو گناہ و ثواب سے نتھی کرنے کی وجہ سے وہ مسائل پیدا ہوتے ہیں جو آگے چل کر منافقت کا باعث بنتے ہوئے اپنی جنسی تسکین یا محرومیوں کا بدلہ جنسی زیادتی کی صورت میں لیتے ہیں۔
بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات کے محرکات میں جنسی تسکین سے زیادہ مجرم اپنی شکست خوردہ انا اور محرومی کی تسکین حاصل کرتا ہے۔ ایسے میں بچوں یا بچیوں کو ان کے جسمانی اعضا کے بارے میں آگاہی دینا اور ان کو کسی کو چھونے نہ دینے کے درس کو کسی بھی طور عریانی اور فحاشی پر مبنی تعلیم کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ ویسے بھی جنسی تشدد سے متعلق تعلیم نہ دینے کی مخالفت کا نتیجہ بھی ہم سب کے سامنے ہے۔
دوسروں کی ذاتی زندگی کے معاملات کو گناہ و ثواب کے پلڑے میں تولنے کے بجائے اگر بذات خود اپنے بچوں کو دور جدید کی تعلیمات سے روشناس کروایا جائے تو نہ صرف اس کے دور رس نتائج معاشرے پر مرتب ہوسکتے ہیں بلکہ زینب جیسی کئی بچیوں کی زندگیاں بھی بچائی جاسکتی ہیں۔
زینب کے قاتل کا معاشرے میں اپنے عقیدے اور دکھاوے کی مذہبی رسومات کو ادا کرنے کے واقعے سے بھی ہمیں یہ سچ سیکھنے اور برداشت کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ محض عقائد یا مسلک سے وابستگی کسی کو بھی نہ تو جرم کرنے سے روک سکتی ہے اور نہ ہی اس سے کسی کو اچھے انسان ہونے کی سند مل جاتی ہے۔ اسکینڈے نیوین ممالک میں جرائم کی شرح پوری دنیا میں سب سے کم ہے اور اس کا تعلق ان ممالک میں بسنے والے افراد کے عقائد سے نہیں بلکہ وہاں کے بسنے والوں کی ذہنی پختگی اور شعور کے ساتھ ہے۔ ان ممالک میں سزائے موت کا تصور نہیں لیکن اس کے باوجود ان معاشروں کی اعلیٰ انسانی اقدار، بغیر کسی سزا یا جزا کے، جرم کی جانب انہیں راغب نہیں ہونے دیتیں۔
خدائے بزرگ و برتر کے نزدیک سب سے افضل چیز عمل ہے، اور اچھا عمل کوئی بھی کرسکتا ہے۔ جے آئی ٹی کے سربراہ پر ایک دوسرے فرقے سے تعلق رکھنے کی پاداش میں تنقید کرنے والے حضرات اب مجرم عمران کے ہمارے ہی عقیدے سے تعلق رکھنے پر کیا دلیل پیش کرسکتے ہیں؟ اور کیا اب بھی عقائد کو بنیاد بنا کرانسانوں سے نفرت کی تعلیمات دینے کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا؟
شاید ہمیں مزید کئی دہائیاں درکار ہیں، اس چھوٹے سے نکتے کو سمجھنے کےلیے کہ عقائد کا تعلق پیشہ ورانہ قابلیت اور مہارت کے ساتھ نہیں ہوا کرتا۔
ڈی این اے ٹیسٹ کے خالق سائنسدانوں نے اگر عقائد کی بنا پر مخالف مسلک یا مذہب کے افراد کو اس ٹیسٹ سے مستفید ہونے کی اجازت نہ دی ہوتی تو کیا آج زینب کا قاتل پکڑا جاتا؟ اگر دل کے امراض کی دوائیاں قومیت یا مسلکی بنیادوں پر فروخت کی جاتیں یا بانٹی جاتیں تو کیا ہم وطن عزیز میں کسی بھی ایک دل کے مریض کو شفایاب کروا پاتے؟
زینب کے اس کیس سے جنم لینے والے سوالات اور اسباق میں سے ایک انتہائی اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ کیا ہمیں جنسی تشدد کی روک تھام کےلیے ذہن سازی اور سنجیدہ قانون سازی کرنی ہے یا اب بھی محض مغرب اور کفار کو بے حیائی اور عریانی کا منبع قرار دیتے ہوئے اپنے سماج میں موجود مسائل سے چشم پوشی اختیار کرنی ہے؟ مردانہ و زنانہ جنسی امراض اور شہوت کی تسکین کی ادویہ کے اشتہاروں سے بھری پڑی دیواروں والے معاشرے میں ہم کیا جنسی تشدد سے آگاہی کے اشہارات آویزاں نہیں کرسکتے؛ یا ٹی وی اور اسٹیج ڈراموں اور دیگر فنونِ لطیفہ کی مختلف قسموں کی مدد سے اس بارے میں بچوں بچیوں یا عورتوں کو آگاہی نہیں فراہم کی جا سکتی؟
بچوں اور بچیوں کے ساتھ اس قسم کے واقعات ساری دنیا میں رونما ہوتے ہیں لیکن اکثر اوقات دنیا بھر میں ایسے واقعات کے تدارک کےلیے سیاسی یا مذہبی کارڈ کھیلنے کے بجائے ان کے تدارک کےلیے عملی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ معاشروں میں مکالمے کا اہتمام کیا جاتا ہے، کرمنالوجی (جرمیات) اور نفسیات کے ماہرین کی خدمات حاصل کرکے آگاہی کی مہم چلائی جاتی ہے۔
زینب کے قاتل کا یہ بیان بھی ہمارے معاشرے کےایک بڑے مسئلے کی جانب نشان دہی ہے کہ اس پر ایک جن آتا تھا جو اس کو قابو کرکے اس سے بچیوں کا ریپ بھی کرواتا تھا اور اس سےان کا قتل بھی کرواتا تھا۔ نفسیات کی دنیا میں اس جن آنے کی کیفیت کو ’’منقسم شخصیت کی بیماری کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس بیماری کے زیر اثر افراد ایک ہی وقت میں اپنے اندر منقسم اور مختلف شخصیات کو جنم دے دیتے ہیں۔ اس بیماری کا باقاعدہ علاج دواؤں اور مختلف معالجاتی طریقوں (تھراپیز) سے کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں اس بیماری کو جن بھوت اور چڑیل کے سائے سے جوڑ کر عاملوں، پنڈتوں اورمولویوں سے پھونکوں اور تعویذ گنڈوں کے ذریعے جنات نکلوائے جاتے ہیں۔ نتیجتاً یہ مرض بڑھتا جاتا ہے، اور اس کا شکار افراد اپنے اور دوسروں کےلیے خطرے کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔
اب وقت کی اشد ضرورت یہ ہے کہ معاشرے کی ذہن سازی کےلیے سب سے پہلے جدید سائنس اور جدید نفسیاتی علوم سے متصادم نظریات اور رسوم و رواج کو ختم کرکے انسان دوست اور علم و آگہی پر مبنی معاشرے کی تشکیل کی جانب سفر کا آغاز کیا جائے۔ ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جائے جہاں انسانی جذبات، احساسات اور انسانی زندگیاں رسوم و رواج، نظریات اور اناؤں پر مقدم گردانی جائیں۔