تحریر: حبیب اللہ سلفی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ممبئی حملوں کے مبینہ ملزم ذکی الرحمان لکھوی کے خلاف ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی جانب سے جاری کئے گئے نظر بندی کے حکم نامہ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔جسٹس نورالحق این قریشی نے اپنے فیصلہ میں واضح طور پر قرار دیا ہے کہ کسی پاکستانی شہری کو محض بیرونی دبائو پر نظر بندنہیں کیا جاسکتا۔ عدالت کے اس فیصلہ پر بھارت نے نئی دہلی میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو طلب کر کے شدید احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ذکی الرحمن لکھوی کو ہر صورت جیل میں ہی رکھا جائے۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ امید ہے پاکستان ممبئی حملوں کے ملزموں کو کٹہرے میں لانے کے اپنے عزم سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ادھروفاق کے بعد اب محکمہ داخلہ پنجاب نے ذکی الرحمن لکھوی کو ایک ماہ کیلئے نظربند کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں جس پر ان کی رہائی عمل میں نہیں آ سکی۔
26 نومبر 2008ء کوبھارتی شہرممبئی میںابھی حملے جاری تھے کہ بھارتی میڈیا اور ہندوستانی حکمرانوںنے حسب سابق اپنی توپوں کے دہانوں کارخ پاکستان کی طرف موڑ دیا اور وطن عزیز کے عسکری اداروں،کشمیری جہادی تنظیم لشکر طیبہ اورجماعةالدعوة کو ممبئی حملوں میںملوث قراردینا شروع کردیا۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے لیکر وزارت داخلہ اورخارجہ کے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ اہلکار تک سبھی کی زبانیں پاکستان اور یہاں کی مذہبی جماعتوں کے خلاف زہراگل رہی تھیں۔ الیکڑانک میڈیا کے تجزیے،تبصرے اوررپورٹوں کودیکھ کرایسے محسوس ہوتاتھا جیسے حملوں سے قبل ہی انہیں عسکریت پسندوں کے متعلق ہرقسم کی معلومات ازبرتھیں اورحملوں کی منصوبہ بندی میں وہ باقاعدہ طورپر شریک تھے۔ بھارت کادعویٰ ہے کہ حملہ آور پاکستان کے شہر کراچی سے بوٹ کے ذریعہ ممبئی پہنچے تھے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ موسم کی شدت،سفر کے مطابق فیول کی ضرورت اورعین ان دنوں میں جب بھارتی نیول فورسز کی سمندر میں تربیتی مشقیں جاری تھیں عسکریت پسندوں نے 582 سمندری میل کاسفر کیسے طے کیا؟ چھوٹی سی بوٹ میں اتنے لوگ بھاری اسلحہ سمیت اتنا لمبا سفر طے کرکے کیسے پہنچے؟ ہیمنت کرکرے وغیرہ کوکس نے اورکیوں قتل کیا؟یہ ایسی باتیں ہیں جن پر خود بھارتی دانشوروں کی طرف سے بھی بہت کچھ لکھا جاچکاہے اوراب حقائق لوگوں کی نظروں سے اوجھل نہیں رہے۔اجمل قصاب واحد شخص تھا جسے زندہ گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔اجمل کے متعلق بھارتی میڈیا کی جانب سے یہی شور مچایا جاتا رہا کہ وہ پاکستانی ہے اور اس نے اقبال جرم کر لیا ہے۔
آئینی وقانونی ماہرین کے مطابق اگرچہ اجمل کے پیش کردہ ان بیانات کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی مگر 18دسمبر2009ء کو اجمل قصاب کے خصوصی عدالت میں دیے گئے اس بیان نے بھارت سرکار کوہلا کررکھ دیاہے جس میں اس نے واضح طور پر اقرار کیا کہ میں نے بھارتی پولیس وایجنسیوں کے تشدد اوردباؤ کے باعث اقبال جرم کیا تھا اور میں نہ توکبھی مریدکے گیا ہوں اور نہ ہی حافظ محمد سعید اور ذکی الرحمن لکھوی وغیرہ سے ملا ہوں۔آخر کار جب بھارت سرکار اور اس کی ایجنسیوںنے دیکھا کہ قصاب کے حوالہ سے انہوں نے جتناپروپیگنڈا کرنا تھا کر لیا اب مزید کچھ حاصل نہیں ہو گا تو بغیر کسی ثبوت کے افضل گورو کی طرح اسے بھی بھارت کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔ بھارت کی جانب سے ممبئی حملوں کے جھوٹے پروپیگنڈا کے بعد اس وقت کے حکمران دبائو کا شکار ہوئے اور حافظ محمد سعید، ذکی الرحمن لکھوی اور دیگر سرکردہ رہنمائوں کو نظر بند اور جیلوں میں قید کر دیا گیا ۔ اس دوران پاکستان کی آزاد عدالتوںنے جرأتمندانہ فیصلے کئے’بھارتی میڈیا کی رپورٹوں کو ثبوت تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے حافظ محمد سعید اور دیگر رہنمائوں کی نظر بندیاںختم کر دی گئیں تاہم دوسری جانب ذکی الرحمن لکھوی مسلسل اڈیالہ جیل میں قید رہے اور ان پر کیس چلتا رہا۔چند ماہ قبل انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج کوثر عباس زیدی نے ان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے اپنے تفصیلی فیصلہ میں قرار دیا کہ ذکی الرحمن لکھوی کو اجمل قصاب کے بھارتی عدالت میں دیے گئے جس مبینہ بیان کی بنیاد پر گرفتار کیا گیاہے اس کی پاکستانی قوانین میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ محض ایک شخص کے بیان پر اور ٹرائل میں تاخیر کی سزا ملزم کو نہیں دی جا سکتی۔ اس فیصلہ کا آنا تھا کہ پورے بھارت میں صف ماتم بچھ گئی اور بھارتی میڈیا نے طوفان بدتمیزی برپا کر دیاجبکہ پاکستانی حکومت نے نقص امن کا کہہ کر انہیں ایک ماہ کیلئے اڈیالہ جیل میں ہی نظر بند کر دیا گیا۔
ذکی الرحمن لکھوی کے وکیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو جسٹس نور الحق این قریشی نے نظربندی کے احکامات معطل کر دیے اور فوری طور پر ان کی ضمانت پر رہائی کا حکم دیامگر بھارتی شورشرابہ پر ان کے خلاف ایک شخص کے اغواء کا بے بنیاد مقدمہ بنادیا گیا اور نقص امن کے بہانے مسلسل تین ماہ تک ان کی نظربندی میں توسیع کی جاتی رہی۔ حکومت کی جانب سے بھارت کے فراہم کردہ تمام ڈوزیئرز عدالتوں میں پیش کئے جاتے رہے ہیںلیکن صرف صابن، کپڑے، شیونگ کریم، منجن اور پستول وغیرہ سے متعلق یہ کہہ دیاجائے کہ حملہ آوروں سے ملنے والی یہ اشیاء پاکستانی ہیں اس لئے یہ حملہ آور پاکستان سے آئے تھے’ ان مضحکہ خیز باتوں کو تو خود بھارتی قانون دان ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں عدالتیں کیسے تسلیم کر سکتی ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت اوربعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 13مارچ کو ایک مرتبہ پھر واضح طور پر اپنے فیصلوں میں قرار دیا ہے کہ ذکی الرحمن لکھوی کی نظربندی سراسر غیر قانونی ہے اور اس سے آئین کے آرٹیکل10-کے تحت ایک پاکستانی شہری کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کا آنا تھا کہ بھارتی میڈیا اور ہندوستانی حکومت نے حسب سابق آسمان سر پر اٹھا لیا ‘ راجیہ سبھا میں بحث ہونے لگی اور پاکستانی ہائی کمشنر کو طلب کر کے نہ صرف احتجاج کیا گیا بلکہ غیر اخلاقی حرکت کرتے ہوئے وہاں میڈیا کو بھی بلا لیا گیااور یہ ”فرمائشیں” کی جاتی رہیں کہ ذکی الرحمن لکھوی کو کسی صورت جیل سے باہر نہیں آنا چاہیے۔ بھارت سرکار کی اپنی یہ حالت ہے کہ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ مسجد، مالیگائوں اور دیگر دہشت گردی کی وارداتوںمیں ملوث ہندو دہشت گرددندناتے پھر رہے ہیں۔کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہے ‘ مجرموں کو سرکاری پروٹوکول سے نوازا جارہا ہے لیکن پاکستان میں وہ محب وطن لیڈر جن پر کوئی جرم ثابت نہیںہے انہیں محض کشمیریوں کے حق میں اور بھارتی دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرنے کے جرم میں جیلوں میں ڈالے رکھنے کے بے سروپا مطالبا ت کئے جارہے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے ہندوستانی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کر کے بھارتی واویلا کو غیر ضروری قراردیکر اورسانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کی سست تحقیقات پر وضاحت طلب کرکے اچھا قدم اٹھایا ہے لیکن اب ایک مرتبہ پھرذکی الرحمن لکھوی کی رہائی کی بجائے ایک ماہ کی نظربندی کے احکامات جاری ہونے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اس حوالہ سے اب بھی بھارت و امریکہ کے دبائو کا شکار ہے۔ ممبئی حملوں سے متعلق کیس میں پاکستانی عدالت 50گواہوں کے بیانات قلمبندکرچکی ہے اوربھارت سے 10ڈوزئیرز کاتبادلہ کیا جاچکا ہے یعنی ہندوستان سے مکمل تعاون کیا جاتا رہا ہے’ اس کے باوجود بھارت سرکار کے یہ الزامات کہ پاکستان نے عدالتوں میں ثبوت پیش نہیں کئے’ درست نہیں ہیں۔ اگربغیر کسی جرم کے ذکی الرحمن لکھوی اور ان کے ساتھیوں کوکئی برسوں تک جیلوں میں ڈالے رکھنے اور اتنا کچھ کرنے کے باوجود اب بھی بھارت سرکار ہماری آزاد عدالتوں کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے تو حکومت کو بھی اس کے نام نہاد احتجاج کو کسی خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔
پاکستان اللہ کے فضل و کرم سے ایک آزاد و خودمختار ملک ہے۔ محض بھارتی خواہشات پر وطن عزیز پاکستان کے آزاد شہریوں کو نہ تو جیلوںمیں ڈالا جاسکتا ہے اور نہ ان کے حقوق سلب کئے جاسکتے ہیں۔ بہرحال سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس ممبئی حملوں سے دوسال قبل ہوالیکن بھارت نے پاکستانیوں کو زندہ جلانے والے مجرموں کو نہ صرف اب تک کوئی سزا نہیں دی بلکہ وہ کھلے عام پھر رہے ہیں اور مزید کئی مقامات پر مسلم کش فسادات کی آگ بھڑکا کر مسلمانوں کا خون بہانے میںمصروف ہیں۔ افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں کی تخریبی سرگرمیاں ،بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکیں پروان چڑھانے، مساجدومدارس میں بم دھماکوں او ر سانحہ پشاور میں ملوث ہونے کی باتیں اب کسی سے مخفی نہیں رہیں اس لئے حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ ذکی الرحمن لکھوی سے متعلق عدالتی فیصلہ کے حوالہ سے امریکی و بھارتی دبائوکا شکار نہ ہو اورذکی الرحمن لکھوی سمیت دیگر ملزمان کو فی الفور رہا کر کے پاکستان کے ایک آزاداور خودمختار ملک ہونے کا ثبوت دیا جائے۔
تحریر: حبیب اللہ سلفی
برائے رابطہ: 0321-4289005