کل شام ایک ایسا واقعہ نظر سے گزرا جس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ قصور کی رہائشی سات سالہ زینب اپنے گھر سے سپارا پڑھنے کو نکلی تھی۔ کچھ درندہ صفت انسانوں نے اس کو اجتماعی ذیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا اور اس کی لاش کچرے کے ڈھیر میں پھینک دی۔ کوئی اتنا بے حس کیسے ہو سکتا ہے؟ ایک معصوم بچی کے جسم سے اپنی ہوس کی آگ بجھاتے ہوئے ان درندوں کے دل کیوں نہ کانپے؟ جب یہ ظلم ہوا تو زمین کیوں نہ پھٹ گئی، آسمان کیوں نہ ٹوٹ پڑا؟
جب سے ننھی زینب کی لاش کی تصویر سوشل میڈیا پر دیکھی ہے تب سے مجھے ایسےلگ رہا ہے کہ جیسے میرےاندر اذیت اور کرب کا کوئی گلیشئر ہے جو قطرہ قطرہ کر کے پگھل رہا ہے اور میرے انرد ایک آگ جلا رہا ہے جو شائد مجھے ہمیشہ یوں ہی بےچین رکھے۔ دل چاہتا ہے کوئی تو مجھے بتائے کہ ان درندوں کو سر عام پھانسی دے دی گئی ہے تاکہ میرے اندر پڑے آہیں بھرتے آنسو نچڑ جائیں۔ کوئی تو ہو جو مجھے بتلاۓ کہ زینب کے گنہگاروں کو مٹی کا تیل یا پیٹرول چھڑک کر سرعام زندہ جلا دیا گیا ہے تاکہ آئندہ کوئی ہوس کا پجاری کسی معصوم کلی کو نہ مسل سکے.
میں جب زینب کے والدین کے بارے میں سوچتی ہوں تو دل میں درد کی عجیب سی ٹیس اٹھتی ہے۔ میرے اوپر ایسی بےبسی چھائی ہوئی ہے کہ میں چاہ کر بھی رو نہیں پا رہی ہوں۔ مجھے خود سے ہی ڈر لگتا ہے۔ خود سے ہی خوفزدہ ہوں۔ ہاں بحثیت لڑکی میں خود سے ہی خوف کھانے لگی ہوں کیونکہ میری عزت اس معاشرے میں محفوظ نہیں۔
یہ معاشرہ کہتا ہے کہ میں جوان ہوں۔ میں جب گھر سے باہر نکلتی ہوں تو میرا جسم، میرا لباس، میرے جوتے، میرے کانوں میں پڑے جھمکے، میری کلائیوں میں سجی چوڑیاں مردوں میں جنسی کشش کو بڑھاتی ہیں۔ میں نے خود کو برقع میں ڈھانپ لیا مگر پھر بھی میں اپنے آپ کو ان مردوں کی نظروں سے نہ بچا سکی۔ میں اس معاشرے کو بتانا چاہتی ہوں کہ مردوں کی میری طرف اٹھنے والی نظروں کی وجہ میری جوانی نہیں ہے بلکہ ان کی ہوس ہے جو ایک دن کی بچی کو دیکھ کر بھی بھڑکنے لگتی ہے۔
یہ ایک زینب کا واقعہ نہیں ہے بلکہ زینب جیسی لاکھوں بچیاں ہیں جو روزانہ کسی نہ کسی درندے کی ہوس کا شکار ہوتی ہیں۔ ایسے واقعات کی ایک بڑی تعداد رپورٹ ہی نہیں ہوتی۔ جو رپورٹ ہوتے ہیں وہ کبھی بھی اپنے انجام کو نہیں پہنچتے۔
زینب کے ساتھ ہونے والے اس ظلم نے انسانیت پہ لگے پرانے زخم بھی ادھیڑ دیئے ہیں۔ مجھے ہزارہ کی تین ماہ کی وہ گڑیا یاد آ گئی جو ماموں کی شادی منانے گئی تھی، اسے کیا پتا تھا کہ وہاں کوئی درندہ اس کے جسم کو اپنی ہوس مٹانے کے لیے استعمال کرے گا۔ مہندی کی رات اسکی ماں کھانا کھانے گئی تو اپنی گڑیا کو سونے کے لیے چارپائی پر لٹا گئی۔ اسے اپنی گڑیا پھر زندہ نہ ملی۔ ہوس کی بھینٹ چڑھنے والی اس کی گڑیا کی لاش کتے صبح کھیتوں میں گھسیٹ رہے تھے۔ وہ بیچاری اپنی بیٹی کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کو برداشت نہ کر پائی اور شکوہ کرنے اللہ کے پاس پہنچ گئی۔
آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا؟ کب تک بچیوں سے ان کے جینے کا حق چھینا جاتا رہے گا؟ کب تک معصوم لڑکیوں کی تذلیل کی جاۓ گی؟ کب تک شیطان صفت بڈھے دکاندار معصوم کلیوں کو گود میں بٹھا کر ٹافیاں دیتے رہیں گے؟ خدا کے واسطے اب تو سیاستدان بیان بازی کے بجاۓ کوئی عملی اقدام کریں۔
میری التجا ہے آپ سب سے کہ اپنے معصوم بچوں کے معاملے میں کسی پر بھروسہ مت کریں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان بھیڑیوں کو اذیت و کرب کی ایسی موت دے کہ وہ فرعون کی طرح نشان عبرت بن جائیں۔ آمین