ہمارے وزیراعظم نے پارلیمانی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایک غیر روایتی اور حیرت انگیز بات یہ کی ہے کہ دہشتگردی کے خلاف ضرب عضب کے ساتھ ’’ضرب قلم‘‘ کی بھی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کا ارشاد ہے کہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے سب سے کلیدی کردار ادیب، شاعر اور دانشور ادا کر سکتے ہیں۔ ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو اس جانب توجہ دینا چاہیے۔ وزیراعظم نے ’’علم و ادب‘‘ کے لیے 50 کروڑ روپے کے فنڈ کا بھی اعلان کیا ہے۔
اس حوالے سے وزیراعظم کے خطاب کو غیر روایتی اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں درباری ادیب شاعر اور دانشوروں کو تو نہ سرکار دربار کی خدمت سے فرصت ملتی ہے نہ دہشتگردی کو وہ اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں، جو ادیب، شاعر اور دانشور دہشتگردی کے خاتمے میں اپنے کردار کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں وہ وزیراعظم کی یاددہانی سے پہلے ہی اپنے کردار کو اپنا فرض سمجھ کر یہ کردار ادا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
دہشتگردی اب نہ کوئی قومی مسئلہ رہی ہے نہ علاقائی، اب یہ عفریت بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکا ہے، اور اس کے خلاف ضرب قلم کا کردار وہی ادیب، شاعر اور دانشور ادا کر سکتے ہیں جن کا وژن آفاقی ہو۔ اس یاددہانی کی ضرورت اس لیے پیش آ رہی ہے کہ ہمارے ادیب، شاعر اور دانشور رنگ، نسل، زبان، مذہب، ملک و ملت کے حصار میں اس طرح مقیّد ہو کر رہ گئے ہیں کہ وہ آفاقی وژن کی طرف متوجہ ہو ہی نہیں سکتے، کیوں کہ ان کے مفادات کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ان حدود کے اندر رہیں جو ان کی آسودہ زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ اور آفاقی وژن رکھنے والے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کا حال ’’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے‘‘ جیسا ہے۔
بلاشبہ وزیراعظم نے دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے سے ایک مثبت سمت کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے لیکن ہماری اقتداری روایات کی خوبی یہ ہے کہ ہمارے حکمران دانشورانہ احساسات سے نابلد ہوتے ہیں اور وہی کچھ کہہ دیتے ہیں جو سرکاری دانشور انھیں لکھ کر دیتے ہیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر حکام بالا کے ارشادات گرامی میں ان کی مرضی، ان کی فکر کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ وہ طوطوں کی طرح وہی رٹا لگا دیتے ہیں جو انھیں سکھایا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ محض کسی ملک و ملت کا مسئلہ نہیں ہے، نہ کسی حکمراں کا، یہ ایک اسی طرح بین الاقوامی مسئلہ ہے جس طرح دہشتگردی ہے۔ بہ ایں ہمہ ہم وزیراعظم کے ارشادات کو ایک درست سمت میں پیشرفت یا مرض کی موثر تشخیص کا نام دے سکتے ہیں، خواہ اس کے پیچھے کسی کی بھی دانشوری ہو۔
ہم ایک عرصے سے دہشتگردی کے پس منظر کو سمجھ بھی رہے ہیں اور اس حوالے سے مسلسل لکھ بھی رہے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ وزیراعظم نے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی قسم اور تفریق کے بغیر یہ بات کر دی ہے، اس حوالے سے حقیقی صورتحال یہ ہے کہ ادب اور شاعری کے اداروں پر مفاد پرست اور سرکاری ادیبوں دانشوروں اور شاعروں نے اس طرح قبضہ جمایا ہوا ہے کہ وہ اپنی ناک کے آگے دیکھنے کے قابل ہی نہیں رہے۔ جب صورتحال یہ ہو تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشتگردی ہو یا کوئی اور اہم قومی مسئلہ اس میں ادیب، شاعر اور دانشور کیا کردار ادا کر سکتے ہیں، سوائے اس کے کہ وہ حکام بالا کو تقاریر لکھ کر دیں اور اشتہارات کا میٹر تیار کریں۔
اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ دہشتگردی جیسے عالمی مسئلے کے حل کے لیے ادیب، شاعر اور دانشوروں کا کردار بے انتہا اہمیت کا حامل ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ جو ادیب، شاعر اور دانشور یہ کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں معاشرے میں ان کی حیثیت کیا ہے۔ اور ان کی فکری کاوشوں کو عوام میں کہاں تک پہنچایا جا رہا ہے؟
اس حوالے سے المناک صورتحال یہ ہے کہ کالم سے لے کر افسانے، ناول، شاعری کو راستے ہی میں اس طرح اچک لیا جاتا ہے کہ وہ اپنی اصلی حالت میں عوام تک پہنچ ہی نہیں سکتی، اور یہ خدمت وہ ’’بااختیار لوگ‘‘ انجام دے رہے ہیں جن کی حیثیت درباری قلمکاروں سے زیادہ مختلف نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ دہشتگردی، مذہبی انتہاپسندی، جنگوں، نفرتوں کو موضوع بنا کر جو افسانے لکھے جا رہے ہیں ان سے افسانہ نگار کے علاوہ کوئی واقف نہیں، ایسے ادب پارے کتابوں میں سڑ رہے ہیں اور عوام ایسے افسانوں اور افسانہ نگاروں سے سرے سے واقف ہی نہیں، کیوں کہ سرکار اور سرکاری اداروں کی نظریں ایسے ادب، ایسی شاعری تک جاتی ہی نہیں۔
وزیراعظم نے ازراہ کرم ادب پروری کے لیے 50کروڑ روپے کی جس بھاری رقم کا اعلان کیا ہے کیا وہ ادب اور شاعری کے فروغ میں کام آئے گی یا درمیان میں ہی اچک لی جائے گی؟ اس خدشے کا اظہار اس لیے کرنا پڑ رہا ہے کہ درمیان میں اچک لینے کی روایت ہمارے ملک میں بہت پرانی بھی ہے اور مضبوط بھی۔ بہرحال وزیراعظم نے جس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اس کا ثواب بہرحال انھیں ملے گا۔