تحریر : کوثر رحمتی خان
اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی ملٹری آپریشنز سمیت قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز، وفاقی وزرا عبدالقادر بلوچ، اسحاق ڈار، گورنر خیبرپختونخوا سردار مہتاب عباسی اور وزیراعظم کیمعاون خصوصی طارق فاطمی نے شرکت کی ، اس موقع پر ڈی جی ملٹری آپریشنز نے اجلاس کے شرکا کو آپریشن ضرب عضب پر بریفنگ دی جس پر وزیراعظم نے آپریشن کے ذریعے سے خطے میں امن یقینی بنانے کی امید ظاہر کی جب کہ اجلاس میں شمالی وزیرستان آپریشن کے متاثرین کی بحالی اور متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو کے لیے جامع حکمت عملی وضع کرنے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ”ضرب عضب” نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے جب کہ آپریشن کی کامیابی کے لیے نقل مکانی کرنے والے افراد نے پاکستان کے استحکام کے لیے عظیم قربانیاں دی ہیں۔ حکومت آئی ڈی پیز کی بحالی کے تمام اقدامات کرے گی اور ان کی گھروں کو واپسی پر علاقے کی تعمیر نو کے ذریعے ان کی ضروریات کا مکمل خیال رکھا جائے گا۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان آپریشن کے متاثرین کی واپسی اوّلین ترجیح ہے۔
نومبر 2014 ء میں ریاست مخالف جنگجوئوں کے حملوں کی تعداد میں کوئی خاص کمی بیشی نہیں ہوئی تاہم ان حملوں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ سب سے زیادہ حملے فاٹا میں ہوئے ‘ خیبر پختونخواہ میں جنگجو کارروائیوں میں معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا تاہم آپریشن ضرب عضب کے بعد یہاں سلامتی کی صورتحال کافی بہتر ہوئی ہے’پنجاب میں جنگجو سرگرمیوں میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے’ نومبر میں سیکورٹی فورسز کی جنگجوئوں کے خلاف کارروائیوں کامرکز فاٹا اور پنجاب رہا’ فاٹا میں فوجی آپریشن جبکہ پنجاب ‘ سندھ ‘ خیبر پختونخواہ میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر سرچ آپریشنز میں 314 مشتبہ جنگجوئوں کو گرفتار کیا گیا۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سیکورٹی سٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس)کی ماہانہ سیکیورٹی رپورٹ کے مطابق نومبر 2014ء کے دوران ریاست مخالف تشدد اور سیکیوٹی فورسز کی جنگجوئوں کے خلاف کارروائیوں کے دوارن مجموعی طور پر 532 افراد ہلاک اور 451زخمی ہوئے ہیں جبکہ سیکیورٹی فورسز نے ملک بھر میں مشتبہ جنگجوئوں اور ان کے حامیوں کے خلاف آپریشن کے دوران مزید 314 افراد کو گرفتار کر لیا۔ مجموعی طور پر ریاست مخالف تشدد اور فورسز کی جوابی کارروائیوں کے 215 واقعات ریکارڈ کیے گئے جن میںسے 111 جنگجوئوں اور 104 سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں تھیں۔
جنگجوئوں کی 111 کارروائیوں میں 285 افراد مارے گئے جن میں 112 عام شہری’ 114 جنگجو’ 44 سیکیورٹی فورسز اہلکار’اور 15 امن لشکروں کے مسلح رضاکارشامل تھے۔ نومبر 2014 میں بھی اکتوبر کی طرح سب سے زیادہ جنگجو کارروائیاں فاٹا میں دیکھنے میں آئیں جہاں 39 حملوں میں 155 افراد ہلاک ہوئے ان میں سکیورٹی فورسز کے 25 ‘ امن لشکر کے 13 رضاکار’ 10 عام شہری اور 107 جنگجو شامل ہیں۔ فاٹا میں جنگجو حملوں میں فورسز کے 18 اہلکار’ امن لشکر کے 21 مسلح رضاکار’ 33 جنگجو اور 17 عام شہری زخمی ہوئے۔نومبر 2014 ء میں فاٹا کی تمام سات ایجنسیوں میں جنگجو کارروائیاں نوٹ کی گئیں تاہم سب سے زیادہ کارروائیاں خیبر ایجنسی ریکارڈ کی گئیں جہاں شمالی وزیرستان سے نکالے گئے تحریک طالبان کے جنگجو محفوظ پناہ گاہیں بنانے کے لیے کو شاں ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے خیبر ایجنسی میں آپریشن خیبر کے نام سے ملٹری آپریشن شروع کر رکھا ہے جس میں کئی مقام سے جنگجوئوں کو نکال باہر کیا گیا ہے۔ یہ آپریشن ٹی ٹی پی اور لشکر اسلام سمیت ایجنسی میں سرگرم سب گروپوں کے خلاف ہو رہا ہے۔ نومبر 2014 ء کے دوران اکتوبر کے مقابلے میں فاٹا میں جنگجو حملوں میں معمولی کمی دیکھنے میں آئی ہے تاہم جنگجو حملوں کی شدت اور ہلاکتوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکورٹی سٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق نومبر 2014 ء میں فاٹا کے بعد سب سے زیادہ جنگجو حملے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں دیکھنے میں آئے جہاں بالترتیب 26 اور 24 حملے ریکارڈ کیے گئے۔ خیبر پختونخواہ میں 10 عام شہری ‘ 8 فورسز اہلکار’ 5 جنگجو اور دو مسلح رضاکار مارے گئے۔
خیبر پختونخواہ میں اکتوبر کے مقابلے میں جنگجو حملوں میں معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اکتوبر میں یہاں 20 حملے ہوئے تھے۔ تاہم مجموعی طور پر آپریشن ضرب عضب کے بعد سے خیبر پختونخواہ میں جنگجو حملوں میں کمی کا رجحا ن ہے اور سلامتی کی صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے۔ فاٹا میں جنگجو ٹھکانوں کا سب سے زیادہ نقصان خیبر پختونخواہ کواٹھانا پڑتا ہے۔ بلوچستان میں ہونے والے ریاست مخالف تشدد کا سب سے زیادہ نشانہ عام شہری بنتے ہیں جہاں گزشتہ ماہ 24 حملوں میں 27 افراد مارے گئے جن میں سے 23 عام شہری تھے جبکہ تین فورسز اہلکار اور ایک جنگجو بھی ان کارروائیوں میں مارا گیا۔پنجاب میں جنگجوئوں کی سرگرمیوں میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی سڈیز کی اکتوبر کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں کوئی جنگجو حملہ نہیں ہوا تھا جبکہ نومبر میں واہگہ سرحد پر ہونے والے خود کش حملے سمیت کل چھ حملے ریکارڈ کیے گئے۔ ان میں 64 افراد ہلاک اور 109 زخمی ہوئے۔ زیادہ تر ہلاکتیں واہگہ حملے میں ہوئیں۔ سندھ میں نومبر 2014 ء میں 15 حملے ریکارڈ کیے گئے جن میں 13 افراد ہلاک ہوئے اکتوبر میں یہاں 16حملے ہوئے تھے۔ نومبر 2014ء میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کا زیادہ تر مرکز فاٹا اور خیبر پختونخواہ رہا تاہم ملک بھر میں جنگجوئوں کے نیٹ ورکس کے خلاف کریک ڈائون کا سلسلہ بھی جاری رہا۔مجموعی طور پر فورسز کی 104 کارروائیوں میں 247 افراد ہلاک اور 92زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت (240 ) جنگجوئوں کی تھی جبکہ فورسز کے اپنے پانچ اہلکار اور دو عام شہری بھی ان کارروائیوں میں مارے گئے۔
فاٹا میں 30 کارروائیوں میں 222 افراد مارے گئے جن میں 217 جنگجو’ تین سیکورٹی فورسز کے اہلکار اور دو عام شہری شامل تھے ‘ فاٹا سے 40 مشتبہ جنگجوئوں کو گرفتا ر بھی کیا گیا۔ خیبر پختونخواہ میں فورسز کی 24 کارروائیوں میں چھ افراد ہلاک ہوئے جن میں سے چار جنگجو اور دو فورسز اہلکار تھے جبکہ 30 مشتبہ افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔ پنجاب میں سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا جس کی بڑی وجہ واہگہ میں خود کش حملہ تھا۔ مجموعی طور پر 18 کارروائیوں میں ایک جنگجو ہلاک اور 108 مشتبہ جنگجو اور ان کے ساتھی گرفتار کیے گئے۔ گزشتہ ماہ سب سے زیادہ گرفتاریاں بھی پنجاب ہی سے ہوئیں۔ سندھ میں بھی ریاست مخالف جنگجوئوں کے خلاف فورسز کی 18 کارروائیاں ریکارڈ کی گئیں جن میں دس جنگجو ہلاک اور 44 مشتبہ جنگجو اور ان کے ساتھی گرفتار کیے گئے۔ کراچی سے ٹی ٹی پی کے بعض اہم کمانڈر بھی گرفتار کیے گئے۔ بلوچستان میںسیکورٹی فورسز کی 13 کارروائیوں میں 8 جنگجو ہلاک اور 91 مشتبہ جنگجو اور ان کے ساتھی گرفتار کیے گئے۔
وفاقی دار الحکومت میں ایک کارروائی میں ایک مشتبہ جنگجو کو 24نومبر کو گرفتار کیا گیا جس کے قبضے سے خودکش جیکٹیں بنانے کا سامان برآمد ہوا۔ نومبر 2014 وفا دیسی ساختہ بموں کے 41 حملے ‘ 14 گرینیڈ حملے ‘ 28 ہجومی حملے ‘ اور ٹارگٹ کلنگ کی 24 وارداتیں’ ایک خود کش حملہ ‘ دو راکٹ حملے ریکارڈ کیے گئے۔ 2014 ئمیںریاست مخالف تشدد اور فورسز کی جنگجوئوں کے خلاف جوابی کاررائیوں کے مجموعی طور 2586 واقعات ریکارڈ کیے گئے جن میں 4531 افراد ہلاک اور 3641 زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں 62 فیصد جنگجو’ 23 فیصد عام شہری ‘ 13 فیصد سیکورٹی فورسز اہلکار اور اور دو فیصد حکومت نواز مسلح رضا کار شامل ہیں۔ جبکہ زخمی ہونے والوں میں 63 فیصد عام شہری ‘ 23 فیصد سیکورٹی فورسز اہلکار’ 12 فیصد جنگجو اور دو فیصد حکومت نواز مسلح رضاکار شامل ہیں۔ سال 2014 ء کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران ملک بھر سے 5613 مشتبہ جنگجوئوں اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا۔ضرب عضب کی کامیابی پر نہ صرف افواج پاکستان بلکہ پوری قوم کو ناز ہے ۔افواج پاکستان کی طرف اٹھنے والی زبانیں بند ہو چکی ہیں۔جو قربانیاں پاک فوج کے بہادر جوانوں نے وطن عزیز کے دفاع کے لئے دیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔قوم ان قربانیوں کو ہمیشہ کے لئے یاد رکھے گی۔
تحریر : کوثر رحمتی خان