کراچی……..ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ ملک بھر میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن خاص اہمیت اختیار کئے ہوئے ہیں ،ضرب عضب میں 13ہزار212انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے جاچکے ہیں۔ سندھ میں 4788 جبکہ پنجاب میں 6448 آپریشن کیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہری انجانے میں دہشت گرد گروپوں کی سہولت کاری سے بچیں ۔
کراچی میں ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم سلیم باجوہ نے بتایا کہ آپریشن ضرب عضب میں خفیہ اطلاعات پر کیے جانے والے آپریشنز کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اسی کے ذریعے فاٹا اورشمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کو تباہ کیا ہے۔ فاٹا کو مکمل طور پر کلیئر کروالیاگیا ہے ،تاہم افغانستان سے ملحقہ کچھ علاقوں میں ابھی بھی دہشتگرد موجود ہیں اور ان کے صفائے کے لیے آپریشن جاری ہے۔ضرب عزب کے باعث ملک میں دہشتگردی ختم ہوئی تو اس کے اثرات خطے پر بھی پڑے۔ ضرب عضب میں تمام حساس اداروں نے مشترکہ طور پر کام کیا ہے۔ اب تک ضرب عضب میں 13ہزار212انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے جاچکے ہیں۔ ان آپریشنز میں سندھ میں 4788 جبکہ پنجاب میں 6448 آپریشن کیے گئے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے اطراف میں کڑی نظر رکھیں اور انجانے میں کسی ملک دشمن کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچیں۔ ۔ پوری قوم کی ذمہ داری ہے کہ دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں اپنی افواج اور فورسز کا ساتھ دیں۔ کالعدم القاعدہ ، لشکر جھنگوی، تحریک طالبان کا گٹھ جوڑ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل عاصم باجوہ کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں دہشت گرد حملوں میں ملوث انتہائی اہم اہداف حاصل کرتے ہوئے تین ہائی ویلیو ٹارگٹس کو گرفتار کرلیا گیا ہے ۔لشکرجھنگوی سندھ کا امیر نعیم بخاری، القاعدہ برصغیرکےامیرفاروق بھٹی عرف مثنی اور صابر خان عرف منا کو گرفتار کرلیا گیا ۔القاعدہ، لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان پاکستان کا گٹھ جوڑ توڑ دیا گیاہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹنٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کراچی میں پریس بریفنگ میں بتایا کہ دہشتگردی کے گٹھ جوڑ بنا کر القاعدہ بر صغیر اور کالعدم لشکر جھنگوی نے کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مل کر کارروائیاں کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ 3اہم گرفتاریوں سمیت مجموعی طور پر 97خطرناک دہشتگرد گرفتار کیے گئے ہیں ۔26دہشتگرد ایسے ہیں جن کے سروں پر حکومت نے انعام رکھا ہوا ہے۔ کالعدم لشکر جھنگوی سندھ کا امیر عطا الرحمان عرف نعیم بخاری جس کے سر پر حکومت نے دو کروڑ روپے کا انعام رکھا تھا۔ اس کے بعد ہے القاعدہ بر صغیر کا نائب امیر فاروق بھٹی عرف مثنی۔ جس کے سر پر انعام تھا ڈیڑھ کروڑ روپے۔ تیسرا اہم دہشتگرد ہے کالعدم لشکر جھنگوی کراچی کا نائن امیر صابر خان عرف منا۔ جس کے سرکی قیمت 50 لاکھ روپے مقرر تھی۔ پکڑے گئے گٹھ جوڑ میں القاعدہ بر صغیر سے تعلق رکھنے والے 12سہولت کار شامل ہیں جو دہشتگروں کی مالی معاونت کرتے تھے، اس کے علاوہ 15دہشتگرد ایسے ہیں جو دھماکا خیز مواد اور بم بنانے میں ماہر ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ کالعدم لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والے 6خود کش بمباد گرفتار کیے گئے ہیں جبکہ 10ایسے دہشتگرد ہیں جو دھماکا خیز مواد بنانے میں ماہر ہیں جبکہ کالعدم تحریک طالبان سے تعلق رکھنے والے 47نہایت خطرناک دہشتگرد گرفتار کیے گئے ہیں۔راچی کے ساتھ آرمی چیف کی خاص کمٹمنٹ ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم سلیم باجوہ نے کراچی میں اپنی پہلی پریس بریفنگ میں بتایا کہ کراچی کے ساتھ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی خاص کمٹمنٹ ہے ، اور یہاں امن کی مکمل طور پر بحالی تک آپریشن جاری رہے گا۔ستمبر2013میں کراچی آپریشن شروع کیا گیا ۔ تو جرائم کی شرح میں واضح کمی آئی ہے۔ اب تک کراچی میں 6983 آپریشنز کیے گئے ہیں جن میں 12210 ملزمان گرفتار کیے گئے ہیں ۔ ان میں سے 5999ملزمان پولیس کے حوالے کیے گئے جبکہ ان کے قبضے سے 8839ہتھیار اور 4لاکھ 28ہزار سے زاید مختلف اقسام کے کارتوس اور گولیاں برآمد کی گئیں۔ کراچی آپریشن کے باعث دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی ہے جبکہ ٹارگٹ کلنگ میں 69فیصد، بھتہ خوری میں 85فیصد اور اغوا برائے تاوان میں 90فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ ڈی آئی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ کراچی کی عوام کے ساتھ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کمٹمنٹ کیا ہے کہ جب تک شہر میں مکمل طور پر امن قائم نہیں ہوجاتا یہاں آپریشن جاری رہے گا۔سینٹرل جیل حیدر آباد پر حملے کی منصوبہ بندی آپریشن میں گرفتار دہشتگردوں نے سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ دہشتگردوں نے سینٹرل جیل حیدر آباد پر حملے کی منصوبہ بندی مکمل کر لی تھی اور 90فیصد کام بھی مکمل کیا جاچکا تھا۔ عاصم سلیم باجوہ نے بتایا کہ گرفتار شدگان سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں منصوبہ بندی کر رہے ہیں ، انہوں نے حیدرآباد جیل توڑنے کی منصوبہ بندی کر لی تھی اور 90 فیصد منصوبہ تیار کیا جا چکا تھا ۔اس سلسلے میں دہشتگردوں نے حیدر آباد سینٹرل جیل سے 19منٹس کی مسافت پر ایک گھر لیا اور اس میں پلاسٹک کنٹینر پنانے کا کاروبار شروع کیا، اسی کی آڑ میں کراچی سے گولہ بارود اور اسلحہ بھی منگوانا شروع کیا ، اسلحہ اور گولہ بارود منگوانے کےلیے ٹرین کا راستہ اپنایا جاتا اور اس کے لیے واشنگ مشین کے اندر کی موٹرنکال دی جاتی اور اس میں اسلحہ یا گولہ بارود بھر دیا جاتا۔گرفتار دہشتگردوں کے مطابق حیدر آباد جیل کی ریکی میں ایک جیل اہلکار بھی ان کے ساتھ ملا تھا جنھوں نے ریکی میں مدد کی ، وہ خود بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دہشتگردوں پلان کے مطابق بارد سے بھری ایک گاڑی کی مدد سے جیل کے مرکزی دروازے پر دھماکا کیا جاتا جبکہ دوسری دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی کے ذریعے بیرکس کے دروازے پر دھماکا کیا جاتا۔ منصوبہ بندی کے مطابق خود کش حملہ آوروں کے گروپ نے حملہ کرنا تھا اور ڈینئیل پرل کے مرکزی مجرم خالد عمر شیخ، کور کمانڈر حملہ کیس کے مجرم شہزاد احمد سمیت دیگر کو چھڑانا اور 35ے40افراد کو قتل کرنا تھا۔گرفتار دہشتگرد متعدد حملوں کے ماسٹر مائنڈزآپریشن میں گرفتار دہشتگرد کراچی ایئر پورٹ حملہ، مہران بیس حملہ، کامرہ بیس حملہ، سی آئی ڈی کے شہید ایس ایس پی چوہدری اسلم، آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹرز ، پولیس ٹریننگ سینٹر اور ایف آئی اے کے دفاتر پر بھی حملوں کے ماسٹر مائنڈز ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ دہشتگردوں نے 2009 سے حملوں کی منصوبہ بندی اور وارداتیں شروع کیں۔2009میں لاہور کے پولیس ٹریننگ کالج مناواں، آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز لاہور، آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز ملتان۔ ایف آئی اے بلڈنگ لاہور پر حملہ کیا۔2011میں کراچی میں مہران بیس اور بحریہ کی بسوں پر حملے کیے گئے۔2012میں اٹک کے قریب کامرہ ایئر بیس پر حملہ اور منصوبہ بندی کی۔ 2013میں آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز سکھر پر حملے کی منصوبہ بندی اور حملہ کیا۔ 2014میں کراچی میں سی ٹی ڈی کے شہید ایس ایس پی چوہدری اسلم پر حملے کی منصوبہ بندی اور حملہ کیا۔کراچی ایئرپورٹ پر حملہ اور منصوبہ بندی کی۔ جبکہ سینٹرل جیل توڑنے کی سازش بھی تیار کی۔ چوہدری اسلم پر حملے کا ماسٹر مائنڈ کالعدم لشکر جھنگوی کا آصف ہے جو اس وقت افغانستان میں ہے۔ اس کے بعد اس کی منصوبہ بندی میں فاروق مثنی، نعیم بخاری ہیں، اس سازش میں ملوث عبدالمتین، نعیم اللہ اور امیر اللہ سمیت دیگر مارے جاچکے ہیں۔کراچی ایئرپورٹ حملے کی منصوبہ بندی نعیم بخاری نے کی جبکہ فاروق مثنی نے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ حملے کی منصوبہ بندی میران شاہ میں ہوئی تھی جبکہ ارشاد اللہ نے کراچی میں دہشتگردوں کے لیے تمام انتظامات کیے۔۔ کامرہ بیس حملے کی منصوبہ بندی بھی میرانشاہ میں تیار کی گئی اور یہ منصوبہ بندی فاروق مثنی نے کی۔ اس میں غیر ملکیوں سمیت 6خودکش بمباروں کی ٹیمیں علیحدہ تھی جبکہ داود، جمشید، فیض، عمران اور متین نامی سہولت کار بھی تھے جنھوں نے رہائش فراہم کرنے سے لے کر دہشتگردوں کو کامرہ بیس تک چھوڑا۔2015میں دہشتگردوں نے سینٹرل جیل حیدر آباد توڑنے کی سازش کی تھی تاہم گرفتار کرلیے گئے۔