تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
رابرٹ سیلے کا کہناہے کہ ”تاریخ ماضی کی سیاست ہوتی ہے اور سیاست حال کی تاریخ ہوتی ہے“ آج مُلک کی ساری سیاست کا نقشہ رابرٹ سیلے کے اتنے سے جملے نے پیش کردیاہے اَب مُلک کے موجودہ سیاسی ماحول میں اِسے سمجھ کرسمجھنااہلِ دانش اوراہلِ سیاست کا کام ہے کہ وہ رابرٹ سیلے کے جملے کو کتناسمجھ سکے ہیں ؟ اور اَب یہ دوسروں کو کس طرح کتناسمجھا پائیں گے؟؟ بہر حال، آج ہمیںاِس بات کو تسلیم کرلیناہی بہتر ہوگاکہ” سیاست میں ہر لمحہ ، ہردن، ہر جملہ اور ہرسیاسی مخالف ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے ہیں آج کے دوست کل کے مخالف اور کل کے مخالف آج کے اچھے دوست بننے میں دیر نہیں لگاتے ہیں۔
ایسا گزشتہ دِنوں اُس وقت بالخصوص پاکستانی قوم اور بالعموم دنیا والوں کو دیکھنے اور سُننے کو ملاجب دبئی میں (بظاہر علاج کی غرض سے مگر دراصل سیاسی و انتقامی نکتہ نگاہ سے خود ساختہ جلاوطنی کی اُوٹ میں) مقیم پاکستان کے سابق صدراور پاکستان پیپلزپارٹی کے موجودہ شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنے ایک بیان میں انتہائی خوشامدانہ انداز سے فوج کی تعریفوں میں کُدَکڑے لگائے کہ اچانک زرداری کے اِس سیاسی طرزعمل سے نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ دنیا بھی حیران اور شسدر رہ گئی اور انگشت بدندان ہوگئی ہے،سب ہی تب سے ابتک یہ سوچ رہے ہیں کہ زرداری نے تو فوج کے حق میں تعریفوں کے پل باندھنے والابیان دے کراُلٹی گنگاہی بہادی ہے۔
اَب ایسے میں یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ مسٹرزرداری نے بیٹھے بیٹھائے ایسافوج کی حمایت اورکیاکہہ دیاکہ سرزمینِ پاکستان سے تعلق رکھنے والے اہلِ سیاست اور اہلِ دانش میں ایک نہ رکنے والی بحث چھڑ گئی ہے اور اَب دیکھتے ہیں کہ یہ بحث کہا ں جا کرٹھیرتی ہے۔ جبکہ ملک کے موجودہ سیاسی منظرنامے میں جب نیب اور ایف آئی اے کے قدم سندھ سے نکل کرپنجاب اور وفاق کی جانب بڑھنے لگے ہیں جس سے مرکز اور پنجاب میں وزیراعظم نوازشریف سمیت صوبہ پنجاب کی حکومت گھبراہٹ کا شکار ہے ایسے میں پاکستان کے سابق صدر اور پی پی پی کے موجودہ شریک چیئرمین آصف علی زرداری کایہ کہناہے کہ” احتسابی عمل ، سیاسی معاملات کے پیچھے فوج کا ممکنہ کردارڈھونڈنا صریحاََ غیرمناسب ہے ، اُنہوں نے کہاکہ پی پی پی فوج کے شابہ بشانہ کھڑی ہے۔
اِس کے علاوہ زرداری نے یہ بھی کہاکہ” مُلک کے خلاف اُس وقت ایک گھناو¿نی سازش کی جارہی ہے دہشت گردی کے واقعات جس کا حصہ ہیں“ (جب کہ کچھ عرصہ قبل تو خود مسٹر زرداری نے اپنے مخصوص انداز سے ایک جلسے میں فوج کے خلاف جس طرح کی زبان استعمال کی تھی اور جملے بازی کی تھی یہ کوئی زیادہ پرانا قصہ نہیں ہے آج فوج کے خلاف اِسی سخت زبان کے استعمال کی وجہ ہی سے تو زرداری دبئی میں خودساختہ کی جلاوطنی کی زندگی گزاررہے ہیں)۔ حالانکہ اِس عرصے کے دوران مسٹر زرداری نے بہت چاہاکہ اَب کسی بھی طرح سے فوج سے خوشگوارتعلقات اور دوستی کے رابطے بحال ہوجائیں مگر یہ اِس میں ناکام ہی رہے اورکچھ ایسی بھی اطلاعات تھیں کہ زرداری نے فوج سے دوستی کے لئے سعودی عرب سے بھی مدد چاہی تھی اور ایسازرداری نے اُس وقت کیا تھا۔
جب مسٹرزرداری سعودی عرب عمرے کے لئے گئے ہوئے تھے یہاں سعودی فرماںرواو¿ں کے شاہی محل کے چودہ چکرلگائے مگروہاں سے زرداری کو یہ جواب ملاکہ” مسٹرزرداری یہ تمہارااندرونی معاملہ ہے اپناسیاسی معاملہ خود حل کرو سعودی عرب کچھ نہیں کرسکتاہے، “ یوں جب زرداری جی، کو سعودی عرب سے ٹکاساجواب ملاتو پھر مسٹرزرداری نے سوچاکہ چلواَب امریکاکی طرف چلتے ہیں یوں زرداری جی نے امریکاکا رخ کیاوہاں بھی مسٹرزرداری نے وائٹ ہاو¿س کی کئی بار یاتراکی۔
مگرہائے رے افسوس کہ یہاں بھی اِس حوالے سے مسٹرزرداری کو کوئی اُمیدافزاجواب نہ ملا..جب یہاں بھی زرداری جی کو مایوسی کا سامناکرناپڑاتو پھر بیچارے ہمارے زرداری صاحب تھک ہار کر اپنی اُسی ڈگر پرآگئے اور پھر انتہائی مایوسی اور نااُمیدی کے عالم میں آصف علی زرداری نے اپنی وہی مصالحت پسندانہ اور مفاہمتی پالیسی کا دروازہ کھولا(جس کے سہارے زرداری2008سے2013تک اپنی حکومت کی پانچ سالہ مدت گزارنے میں کامیاب ہوئے تھے )اور اِس سے آنے والی بادِ صباءکو ایک لمبی سانس کھینچ کر اپنی باڈی کے اندار لیااور پھر خود ہی فوج سے معافی مانگنے والے انداز سے اپنے مخصوص لب و لہجے میں ا پنا انتہائی خوشامدانہ یہ بیان داغ دیاکہ ”گزشتہ دِنوں میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا ریٹائرمنٹ کا اعلان مُلکی حالات کے مطابق قبل ازوقت ہے پاکستان کئی سال سے مسائل کا شکارہے۔
دہشت گردی، جرائم پیشہ افراداور علیحدگی پسندآقاو¿ں کی ایما¾ پر پاکستان کو غیرمستحکم کررہے ہیں مسلح افواج قومی جدوجہد کا ہراول دستہ ہیں “ اور اِس کے ساتھ ساتھ زرداری نے یہ بھی کہاکہ”پشاور آرمی اسکول حملے کے بعد حالات اور سنگین ہوگئے “ اورسابق صدر زرداری جی نے اپنے اِسی بیان میں کہاکہ ” قوم اور مُلک کے استحکام اور تحفظ کے لئے پاک فوج کی بے انتہا قربانیاں ہیں جن کو فراموش نہیں کیاجاسکتاہے“جب زرداری کو احساس ہواکہ اِس بات نہیں بنے گی تو اُنہوں نے یہ کہہ کر اپنے گناہ بخشوانے کی کوشش کی کہ ”مُلک بھر میں جاری احتسابی عمل ، سیاسی معاملات اور دیگر قومی معاملات کے پیچھے فوج کا ممکنہ کردارڈھونڈناغیرمناسب ہے میڈیااور عوام کو چاہئے کہ اِن افواہوں سے گریز کرے، فوج کی جدوجہداور لازوال قربانیوں کو سیاست کی نذرنہیں کیا جا سکتا ہے۔
ہاں البتہ ، اِس موقع پر مسٹر زرداری نے اپنے مخصوص اور خوشامد کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے کہاکہ” قوم اور سیاسی قوت( کیا اِن سمیت) فوج کے شابہ بشانہ کھڑے ہو کردہشت گردی کو جڑسے اُکھاڑ پھینکیں گے یہ تاثربھی (کیا ہرگزنہیں) جاناچاہئے کہ قوم جانباز سپاہیوں اور بہادرافسروں کی قربانیوں کی معترف نہیں،“۔
اُدھرسرزمینِ دبئی سے سابق صدر پاکستان اور پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے آنے والے اِس بیان نے یقینی طور پرپاکستانی قوم اور دنیاکو حیران وپریشان کردیاہے جس میں زرداری نے دیدہ ودانستہ تین سے چار بار یہ ایک ہی جملہ کسی نہ کسی حوالے سے انتہائی خوشامدانہ انداز سے دہرایاہے کہ” PPاور قوم فوج کے شابہ بشانہ کھڑی ہے “جنرل راحیل شریف کا اپنے منصب کے دوراینے میں توسیع نہ لینے کا عندیہ دیاجو جاہ ومنصب سے عدم دلچسپی، خاندانی پس منظر، پیشہ وارانہ رویہ لائق تحسین اور قابلِ تعریف ہے تاہم ہم بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ قوم کے نازک موڑ پر جنرل راحیل کا اعلان قبل ازوقت ہے ، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قوم متحد ہے اور کامیابی کی متمنی ہے۔
اِس اعلان سے عوام کی اُمیدمایوسی میں بدلنے کا امکان ہے“اور اِن کا یہ کہناتھاکہ ”معروضی حالات اور عوامی خواہشات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سیاسی قیادت کو قومی مفاداور مُلکی سلامتی کے تناظر میں وقت آنے پر فیصلہ کرناچاہے اور قوم اور فوج کا عزم مصمم ارادہ اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کا جذبہ ہوناچاہے“۔ اَب کالم کے اختتام پر راقم الحرف یہ کہناچاہے گاکہ ” سابق صدر اور P P Pکے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنے اِس بیان میں فوج سے معافی مانگنے کے لئے خوشامد کا جیساانداز اپنایاہے، یقینا اِس کی مثال نہیں ملتی ہے اور ایساخوشامدانہ انداز صرف اِنہیں ہی زیب دیتاہے۔
کیونکہ یہ اِس میں ہی یکتاہیں اور اپنااور اپنی پارٹی کا سیاسی امیج بلندکرنے اور خوشامد اور چاپلوسی سے اپنی اور اپنی پاڑٹی کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے میں مہارت بھی رکھتے ہیں موجودہ مُلکی سیاسی حالات اور واقعات میں زرداری کا فوج سے ناراضگی ختم کرنے کے لئے یو ٹرن لینابہت ضروری تھا اگر یہ ابھی ایسانہ کرتے تو پھر ….؟؟
مگر اَب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ زرداری اپنے اِس خوشامدانہ انداز میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں اور کتنے نہیں ؟؟ آج اگربالفرض زرداری اِس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر عنقریب اِسی اندازِ خوشامدانہ کو وزیراعظم نوازشریف اوربرسرِ اقتدار جماعت ن لیگ کے بہت سوں کو بھی اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے ضرور اپناناہوگاورنہ…؟؟ اِنہیں پھر کسی کڑے احتساب کے لئے اپنی گردنیں پیش کرنی ہوں گیں۔
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com