۔(اندر کی بات ۔کالم نگار ۔اصغرعلی مبارک کے قلم سے )۔۔۔آہ۔۔سینئر صحافی استادوں کے استاد جناب ضیاء شاہد چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں بھی مرحوم گئے پاکستانی پرنٹ میڈیا میں سنسنی خیزی کو برینڈ بنانے والے ’روزنامہ خبریں‘ کے چیف ایڈیٹر ضیا شاہد نے روزنامہ خبریں اخبار کو عام آدمی کا اخبار بنایا مرحوم ضیا شاہد کو شاید بہت سے لوگ ایک ایڈیٹر کے طور پر ہی جانتے ہیں مگر ان کی جد وجہد اور طویل سفر کے بارے میں کم ہی لوگ جانتے ہوں گے۔ضیا شاہد پاکستان کی میڈیا انڈسٹری میں اپنی نوعیت کی الگ پہچان رکھتے تھے۔ انہوں نے روزگار نہ ملنے پر لاہور شہر کی دیواروں پر فلموں اور کمپنیوں کی تشہیر کے لیے تحریریں لکھ کر بھی گزارا کیا۔اس کے بعد وہ روزنامہ ’جنگ‘ میں ملازمت کرنے لگے اور ایڈیٹر تک ترقی کی لیکن انتظامی امور پر ’جنگ‘ کے مالک میر شکیل الرحمن سے اختلاف پر انہیں ادارے سے الگ کردیا گیا۔جس کے بعدانہوں نے 1990میں دوستوں کے ساتھ مل کر ’روزنامہ پاکستان‘ نکالا جس کے مالک اکبر علی بھٹی جبکہ ایڈیٹر ضیا شاہد تھے۔ ان کے ساتھ صحافی خوشنود علی خان بھی شامل تھے۔پاکستان اخبار کے مالک سے اختلافات ہوئے تو انہوں نے سال 1992ستمبر میں ’روزنامہ خبریں‘ نکالنے کا آغازکیا جس میں خوشنود علی خان نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ پاکستان انٹرنیشنل پریس ایجنسی کےساتھ منسلک رہنے کےبعد یہ بات میرےلیے کسی اعزاز سے کم نہیں کہ روزنامہ خبریں اسلام آباد کے سال1992ستمبر میں آغاز پر ہی بانی ٹیم روزنامہ خبریں کا حصہ بنا اور استاد محترم جناب خوشنود علی خان کے1999میں لبرٹی پیپرز سے بٹوارے اور پھر روزنامہ صحافت کے آغاز پر جناب شورش ملک اور بھائی فیاض ولانہ کے مشورے کے بعد روزنامہ صحافت اسلام آباد سے منسلک رہا۔یہ بات 8 جنوری1993ء کی ھےجب اس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ راولپنڈی میں جاگنگ ٹریک پر دل کا دورہ پڑنے پر آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لائے گئے میں ان دنوں پاکستان نیشنل ھارٹ ایسوسی ایشن کے اجلاس میں شریک تھا اور اس وقت کے پاکستان کے سب سے بڑے ماہر امراض قلب اور آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سربراہ کمانڈنٹ میجر جنرل ڈاکٹر ذوالفقارعلی خان تھے جو پاکستان نیشنل ھارٹ ایسوسی ایشن پناہ کے صدر تھے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کو راولپنڈی کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ھارٹ ڈیزیز میں اتوار کے روز صبح کے وقت لایا گیا مال روڈ اور آرمی ھسبتال کے اطراف کمانڈوز نے حصار بنا رکھا تھا اور صدر غلام اسحاق خان ھمراہ سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کے ہمراہ عام افراد کی گزرگاہ سے پیدل چل کر آئے کوئی بڑا پروٹوکول نہیں تھا ھسبتال میں کوئی افراتفری بھی نہیں تھی مگر آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کی اچانک وفات پر راولپنڈی میں غیر معمولی سیکورٹی اہلکار تعینات کئے گئے جس کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کا رخ صدر سے موڑ دیا گیا تھا مجھے دفتر میں پہنچنا تھا کیونکہ جناب آفتاب احمد خان چیف رپورٹر نے میٹنگ کال کر رکھی تھی ٹریفک مسائل کے باعث بروقت دفتر واقع ستارہ مارکیٹ اسلام آباد حاضر نہیں ہو سکا۔اور ساری روداد بتائی ۔محترم ضیاء شاہد اور خوشنود علی خان صاحب کی سخت ھدایات تھیں کہ کوئی رپورٹر اپنی بیٹ رپورٹنگ کے علاوہ دوسری بیٹ میں مداخلت نہ کرے جناب آفتاب احمد خان مرحوم کو جب بتایا کہ آصف نواز جنجوعہ کے حوالے سے ان وفات ایسی خبریں ہیں جو اور کسی کے پاس نہیں۔اس وقت آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کی اچانک موت پر شبہات بھی ظاہر کیے جانے لگے تھے کیونکہ اگر وہ حیات رہتے تو شاید 15 اگست1994ء تک بری فوج کے سربراہ ہی رہتے۔اس وقت جنرل آصف نواز کے دور میں سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف بھرپور آپریشن شروع ہوچکا تھا جس نے بعد میں کراچی آپریشن کی شکل اختیار کر لی۔ جبکہ جناح پور کا ڈراما بھی اسی دوران ہوا. اس کے علاوہ دو سیاسی گروہوں کے ایک دوسرے کے یرغمالیوں کو فوج کی نگرانی میں ایک سمجھوتے کے تحت رہا کرنے کا معاملہ طےپاہا تھاکیا۔روزنامہ صحافت اس وقت شام کا اخبار ھواکرتاتھا ۔جناب ضیاء شاہد کو جب یہ اطلاع ملی تو ریزیڈنٹ ایڈیٹر خوشنود علی خان کے کمرے میں مجھے طلب کر کے تفصیلات پوچھنا شروع کر دیں میں نے ھسبتال کے اندر اور باہر کی تمام رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ یہ میری بیٹ نہیں تھی اس لیے خبر فائل بھی نہیں کی۔جس پر انہوں نے کہا کہ سب خبریں اور جھلکیاں فوری بنا کر پیش کرو میرے مسودات پر انہوں نے ازخود اپنے باتھ سے میرانام ”اصغر علی مبارک” تحریر کیا یہ روزنامہ خبریں کے تمام ایڈیشنز میں بھی شائع ہوا بعدازاں جناب ضیاء شاہد اور خوشنود علی خان مجھے اپنی گاڑی میں ساتھ لیک راولپنڈی کے پرانے آرمی چیف رہائش گاہ پر لے اور سب خبروں کے فالو اپ کی ڈیوٹی لگادی اسکے بعد آرمی چیف کی رہائش گاہ پر جنازہ گاہ سے لیکر ھسبتال میں نرسوں کے دوران علاج باتوں تک کوعوام تک پہنچایا یہ تمام باتیں روزنامہ خبریں کے صفحات پر تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سربراہ کمانٹ اےآیف آئی سی میجر جنرل ڈاکٹر ذوالفقارعلی خان اس وقت پناہ کے صدر تھے اور وہ جنرل آصف نواز جنجوعہ کے معالج ڈاکٹر صاحب بھی تھے جن منفی باتیں منسوب کی گئی تھی کیونکہ میں پناہ کا بانی ممبر تھا جنرل ذوالفقارعلی سے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر مجھے بہت اہم خبریں ملیں جس سے پاک فوج کے خلاف منفی سوچ والوں اور پروپیگنڈہ کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑی ۔ کیونکہ اس پاک فوج کا شعبہ تعلقات عامہ اس قدر فعال نہیں تھا جس طرح آج کل ھے روزنامہ خبریں اسلام آباد نے روزنامہ جنگ راولپنڈی نوائے وقت کو پیچھے چھوڑ دیا اور درست رپورٹ پیش کرنے بازی لے لی۔ حقیقت میں دلیرانہ رپورٹنگ کا انداز انہوں نے ہی متعارف کروایاجسکو جناب خوشنود علی خان نے روزنامہ خبریں اسلام آباد میں جہاں ظلم وہاں خبریں کے سلوگن سے عوام کے مسائل حل کرنے کی ایک امید کی کرن بنا دی۔آج آزادی صحافت کے نام پر جس قدر شتربےمہار صحافت کی جاتی ہے جناب ضیاء شاہد اس کے سخت مخالف تھے اور ان کا کہنا تھا کہ خبر ضرور چھاپیں مگر مخالف کا نکتہ نظر بھی پیش کریں اور صحافتی بددیانتی کا مظاہرہ نہ کریں آج کل الیکٹرانک میڈیا کا دور دورہ ہےبانی خبریں میڈیا گروپ ضیاءشاہد پاکستان میں جدید صحافت کے بانی تھے،اور کافی عرصے سے علیل تھے۔وہ چند روز سے لاہور کے پرائیویٹ ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ گذشتہ روز ان کے دل کا آپریشن کیا گیا۔ مگر وہ جانبر نہ ہوسکے ان کی نماز جنازہ گزشتہ روز ماڈل ٹاﺅن این بلاک کرکٹ گراﺅنڈ میں ادا کردی گئی۔ ان کی وفات سے صحافت کا 50 سالہ عہد اختتام پذیر ہوچکا ھے ضیاءشاہد نے صحافتی دنیا میں 50 سال انقلاب برپا کیا۔ جدید صحافت کے بانی بنے۔ جرات مندانہ صحافت ان کا طرہ امتیاز رہا۔ ان کے بے لاک تبصرے، جاندار ٹی وی پروگرام ان کی اعلیٰ صحافتی صلاحیتوں کے آئینہ دار تھے۔جبکہ 30 سے زائد کتابوں کےآپ مصنف بھی تھے۔ عہد حاضر کے قدآور صحافی ھونے کا عتراف ہر دورمیں کیا گیا۔ اپنے کیرئیر کے دوران انہوں نے دنیا کی نامور شخصیات کے انٹرویو کیے صدراور وزیراعظم کے غیر ملکی دوروں پر ساتھ جاتے رہے۔ اس حققت سے انکار ممکن نہیں کہ آپکی صحافتی خدمات کو سنہری حروف میں لکھا جائیگا۔ 4 جنوری 1945 کو گڑھی یاسمین ضلع شکارپور سندھ میں پیدا ہونے والے ضیا شاہد کو بھٹو دور میں شاہی قلعہ میں نظر بند کردیا گیا اور سات ماہ تک جیل میں آزادی صحافت کے جرم میں سزا کاٹی۔ شعبہ صحافت میں اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں انہیں سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں اعلیٰ سول اعزاز ستارہ امتیاز سے نوازا گیا جبکہ سی پی این ای کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف کے ہاتھوں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی ملا ضیاء شاہد 2 بار سی پی این ای کے صدر بھی رہے ہیں۔ آج کا میڈیا ان کے طزر صحافت کو اپنا کر عوام میں مقبولیت کی جانب گامزن ہے حقیقت میں راقم الحروف کو کالم نگاری کا شوق بھی جناب ضیاء شاہد کی طرف سے حوصلہ افزائی کے بعد 1992 میں پیداھوا جب روزنامہ خبریں کے صفحات پر دن بھر کی رپورٹنگ کے ساتھ ” رپورٹر کی ڈائری” کے نام سے کالم نگاری کا سلسلہ شروع کیا ھوا اس کے بعد گزشتہ 29سالوں سے پاکستان کے ممتاز قومی اخبارات روزنامہ جنگ ۔ نوائے وقت روزنامہ پاکستان۔روز نامہ ایکسپریس وغیرہ میں یہ سلسلہ جاری ہے ۔ مرحوم ضیا شاہد نے صحافت کو بڑے لوگوں کے ڈرائینگ روم کی لونڈی سے نکال کر طاقتوروں کو کٹہرے میں لانے تک پہنچا دیا۔‘ ضیا شاہد نےخودکو 1999میں جب خبریں گروپ سے علیحدہ کیا تو پھر سب نے دیکھا یہ گروپ دن بدن زوال کا شکار ہوتا گیا۔ ’پھر ضیا صاحب کا ملتان میں آپریشن بگڑنے کے باعث وہ علیل ہوئے تو ان کے بڑے بیٹے عدنان شاہد انہیں علاج کے لیے لندن لے گئے اور وہاں ان کے بیٹے کا انتقال ہو گیا جس سے ضیا صاحب کو اتنا صدمہ پہنچا کہ وہ دوبارہ سنبھل نہ سکے۔‘تاہم ’خبریں‘ مظلوموں کی ایسی آواز بنا کہ انہیں طاقتوروں کے لیے خوف بنا دیا۔ ’جہاں ظلم وہاں خبریں‘ کے سلوگن سے جب کوئی سٹوری لیڈ چھپتی تو آگ سی لگ جاتی تھی اور ظالموں کا بچنا مشکل ہو جاتا تھا، یہی وجہ تھی کہ ’خبریں‘ ایک خوف کی علامت بن گیا۔ خبریں گروپ کے عروج و زوال کی داستان میڈیا انڈسٹری کے لیے مثال ھے جہاں ظلم وہاں خبریں نے محروم اور پست ہوئے طبقہ کو نئی زندگی دی، وڈیرے جاگیرداروں، کرپٹ بیوروکریٹ افسران اور من مانی کرنے والے منہ زور پولیس افسران کو اپنے فرائض حقیقی معنوں میں ادا کرنے پر مجبور کیا۔چیف ایڈیٹر ضیا شاہدنے روایتی اور اشرافیہ کے گرد گھومتی صحافت کی نمایاں حیثیت کم کر کے عام آدمی کی خبروں کو نمایاں کرنے کی پالیسی اپنائی تاکہ روایتی صحافت سے نکل کر عوامی صحافت شروع کی جائے تاکہ اخبار عوام میں شہرت اختیار کرے۔‘’ان کا یہ فارمولا کامیاب رہا آج ضیا شاہد جیسی ناممکن کو ممکن بنانے والی شخصیت خالق حقیقی سے جا ملی اور یہ صحافت کا ایک منفرد باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے زندگی بھر شدید محنت کے بعد سیلف میڈ تھے خدا ان کے اداروں کو بھی ان کی طرح کامیاب کرے۔آمین