پاکستان کی نامور شیف اور ماہر امور خانہ داری کی ماہر زبیدہ طارق عرف زبیدہ آپاہم میں نہیں رہیں۔ وہ 72 برس کی عمر میں حرکت قلب بند ہونے کے باعث کراچی میں انتقال کر گئیں۔
زبیدہ طارق نے لگ بھگ 23 سال قبل کوکنگ ایڈوائرز کی حیثیت سے شوبزمیں قدم رکھا اور اپنے ’کوکنگ شوز‘ اور ’ٹوٹکوں‘ کے ذریعے اِس قدر ہردلعزیزہوئیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے ٹی وی اسکرین کے راستے ہر گھر میں داخل ہوکر فیملی ممبر بن گئیں۔
زبیدہ آپا 4 اپریل 1945 کو حیدر آباد دکن کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئیںاور قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی منتقل ہوگیا تھا۔
زبیدہ طارق کاتعلق پاکستان کی مایہ ناز ادبی فیملی سے تھا جس میں فاطمہ ثریا بجیا، منفرد لہجے کی شاعرہ زہرہ نگاہ اور مزاحیہ اداکار مصنف و مصور انور مقصود جیسی باصلاحیت شخصیات ان کے سگے بہن بھائیوں میں فہرست شمار کیے جاتے ہیں۔وہ دس بہن بھائیوں میں نویں نمبر پر تھیں۔
اپنی زندگی میں دیئے گئے ایک انٹرویو میں زبیدہ طارق کا کہنا تھا کہ انہوں نے عمر کے پچاس سال گھر کی چار دیواری میں رہ کر گزارے اور اس کے بعد جو ایک مرتبہ ٹی وی پر آئیں تو پھر زندگی کا تجربہ اور نچوڑ سب ناظرین کے سامنے کھلی کتاب کی صورت پیش کر دیا۔
زبیدہ طارق نے اپنی ماہرانہ گھریلو زندگی سے متعلق ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ ’میرے میاں ایک معروف ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم تھے، آئے دن گھر میں سو ، ڈیڑھ سو افراد کی دعوتیں ہوتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے کھانا پکانے کا شوق تھا لہٰذا اچھے کھانے پکایا کرتی تھی۔ ان بڑی بڑی دعوتوں کا انتظام ہمیشہ میں نے خود سنبھالا، کبھی کسی کیٹرنگ سروس سے مدد نہیں لی۔اس کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ میں نے اپنی والدہ اور نانی سے بہت کچھ سیکھا تھا،پھر تجربات کا شوق بھی تھا۔لہٰذا، میرے بنائے ہوئے کھانے سب کو پسند آتے تھے‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ کھانا پکانے کا ہنر میرے کام آیا اور جس دن میرے شوہر ریٹائر ہوئے، اس سے اگلے دن میں نے اسی کمپنی میں ایڈوائزری سروس انچارج کی حیثیت سے کام سنبھال لیااور وہاں 8سال تک کام کیا، ’تقریباً سارے ہی نجی ٹی وی چینلز سے ککری شوز، ٹاک شوزاور مارننگ شوز کئے ۔
یوں ان کا 23سال کا فنی سفراور سفر حیات دونوں بلاخر 4جنوری کو اختتام پذیر ہوئے لیکن کیا زیبدہ آپا جو ہماری عام خواتین کے دلوں میں اپنے ٹوٹکوں اور نسخوں کی وجہ سے ہمیشہ جگہ پاتی رہیں ، کیا کبھی مرسکتی ہیں۔؟؟۔شاید کبھی بھی نہیں۔
وہ زندہ رہیں تو دلوں میں جگہ پاتی رہیں اور اس دنیا سے رخصت ہوئیں تو بھی دلوں میں گھر کر گئیں، ان کی یادوں سے دل کبھی خالی نہیں ہوسکتے۔کیوں کہ جسم مرتا ہے روح ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔